تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     03-10-2017

معاملے کی تہہ

آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ مورچوں میں موجود اپنے جوانوں سے گفتگو میں بھی‘ 6ستمبر کو جی ایچ کیو کی تقریب میں بھی اور پارلیمنٹیرینز سے حالیہ ملاقات میں بھی یہ بات کہہ چکے کہ وہ ملک میں آئین کی حکمرانی اور قانون کی کارفرمائی میں یقین رکھتے ہیں۔ (اپنے بعض پیش روئوں کے برعکس) وہ کوئی سیاسی عزائم نہیں رکھتے۔ موجودہ منصب سنبھالنے سے پہلے ‘ دوست احباب سے ملاقاتوں میں انہیں یہ کہنے میں کوئی عار نہ ہوتی کہ پاکستان کے اکثر و بیشتر مسائل ریاستی اداروں کے اپنی آئینی حدود سے تجاوز کا نتیجہ ہیں۔ پارلیمنٹیرینز سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاناما سمیت کسی سیاسی مسئلے سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قانون کو کسی بیرونی مداخلت کے بغیر اپنا راستہ خود بنانا چاہئے۔ ابھی دو تین روز قبل انہوں نے ان عناصر کو سختی سے تنبیہ کی جو بیرون ملک بیٹھ کر پاکستان (اور اس کی مسلح افواج) کیخلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔
جناب آرمی چیف سے زیادہ کون جانتا ہے کہ پاک فوج کیخلاف دشمنوں کا سب سے بڑا مقدمہ کیا ہے؟ یہی ناکہ ''پاکستان میں یہ ریاست کے اندر ریاست ہے‘ جس کا اپنا آئین اور اپنا قانون ہے‘‘۔ بدقسمتی سے ملک کے اندر بھی پاک فوج کے بعض خودساختہ ترجمان‘ جن میں کچھ ریٹائرڈ عسکری دانشور بھی شامل ہیں‘ (اورجنہیں منتخب سویلین حکومتیں ایک آنکھ نہیں بھاتیں) اپنے تجزیوں اور تبصروں میں کھلم کھلا یہ کہتے رہتے ہیں کہ فوج فلاں مسئلے پر سویلین کے ساتھ نہیں۔ وہ اپنے سابق سربراہ جنرل مشرف کے خلاف مقدمات پر بھی ناراض تھی ( خود سابق ڈکٹیٹر کو بھی یہ کہتے ہوئے اپنے ادارے کی عزت اور وقار کا کوئی خیال نہیں ہوتا کہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے اس ملزم کو بیرون ملک بھجوانے میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔) ''ضرب عضب‘‘ کا آغاز ہوا تو فوج کے ان نادان دوستوں کا دعویٰ تھا کہ یہ جنرل راحیل شریف تھے جنہوں نے فیصلہ کیا اور اس پر عملدرآمد کر گزرے‘ حکومت کو تو مجبوراً اسے ''اون‘‘ کرنا پڑا۔ اگست 2014ء کی دھرنا بغاوت کے دوران بھی ان کا دعویٰ ہوتا کہ فوج نے سول حکومت سے نجات کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ضرب عضب کی ''فتوحات‘‘ کو ادارے کی بجائے جناب جنرل کی شخصیت کو ''گلوری فائی‘‘ کرنے کا ذریعہ بنانے والی ٹیم بھی اسی تاثرکو آگے بڑھاتی کہ قومی مفاد اور ملکی سلامتی کیلئے تمام بڑے فیصلے خود جنرل صاحب کرتے ہیں‘ سول حکومت کو مودی اور ہندوستان کی خوشنودی میں قومی وقار اور ملکی مفاد کا احساس کہاں؟
این اے 120 کے ضمنی انتخاب کے حوالے سے اڑنے والی گرد ابھی صاف نہیں ہوئی تھی کہ سوموار (2اکتوبر) کی صبح احتساب عدالت میں معزول وزیراعظم کی دوسری پیشی کے موقع پر افسوسناک واقعات نے ''سسٹم‘‘کو تماشا بنا دیا۔ امن و امان اور حسن انتظام کی ذمہ داری چیف کمشنر اسلام آباد کی تھی۔ گزشتہ پیشی پر کمرۂ عدالت میں ہجوم کے باعث پید ہونے والی بدنظمی کے پیش نظر اس بار گنجائش کے مطابق انٹری کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ہر ادارے سے ایک‘ ایک صحافی کے ''اصول‘‘ پر 20 صحافیوں کی فہرست پر اتفاق رائے ہوا۔ ان میں سے بیشتر صبح آٹھ بجے کمرۂ عدالت میں پہنچ گئے تھے کہ جوڈیشل کمپلیکس کو ٹیک اوور کرنے والے رینجرز کے اہلکار کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے اور انہیں باہر نکل جانے کا حکم دیا۔ وفاقی وزراء ‘اسلام آباد کے لارڈ میئر اور بعض سینئر وکلاء کا بھی احاطۂ عدالت میں داخلہ ممنوع قرار پایا تھا۔ رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ادارہ ہے لیکن وزیر داخلہ کو بھی کمرۂ عدالت میں داخلے کی اجازت نہ تھی۔ وہ حیران تھے کہ یہ ٹیک اوور کس کے حکم پر ہوا؟ انہوں نے بریگیڈیئر صاحب کو طلب کیا لیکن وہ ''روپوش‘‘ ہو چکے تھے۔ وزیر داخلہ (اپنے بعض دیگر رفقا کے برعکس) سنجیدگی اور متانت
کی شہرت رکھتے ہیں لیکن شاید ان کیلئے بھی یہاں Enough is enough تک نوبت پہنچ چکی تھی۔ وہ چیخ پڑے‘ کیا یہ کوئی ''بنانا سٹیٹ‘‘ ہے؟ میں وزیر داخلہ ہوں اور رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں‘ پھر یہ سب کچھ کس کے حکم پر ہو رہا ہے؟ کٹھ پتلی وزیر داخلہ بنے رہنے کی بجائے‘ میں مستعفی ہونے کو ترجیح دوں گا۔ اب پرویز رشید اخبار نویسوں کے نرغے میں تھے‘''کیا یہ اوپن ٹرائل ہے؟‘‘ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ سابق وزیر اطلاعات (جن کی وزارت ڈان لیکس پر حکومتی مصلحت کی نذر ہو گئی تھی) کہہ رہے تھے‘ ''یہ High Jacked ٹرائل ہے‘‘۔ ''اسے کس نے ہائی جیک کر لیا؟‘‘ ''یہ بات سپریم کورٹ سے معلوم کریں‘‘۔ خواجہ سعد رفیق کا شمار مسلم لیگ کے Hawks میں ہوتا ہے۔ گرم مزاج لاہورئیے کا نرم رویہ خوشگوار حیرت کا باعث تھا‘ وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے رہے۔ ان کا کہنا تھا‘ یہ تصادم کا نہیں‘مفاہمت اور احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع ہے۔ حسن ظن سے کام لیتے ہوئے وہ کہہ رہے تھے‘ ہو سکتا ہے یہ سب کچھ کسی غلط فہمی کا‘ کسی بے احتیاطی کا نتیجہ ہو۔ انہوںنے یہ ''وضاحت‘‘ بھی ضروری سمجھی کہ سویلین بالادستی کے اپنے اصولی موقف سے ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں۔
وزیر داخلہ اپنا شدید اور سنگین احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد جا چکے تھے کہ ''روپوش‘‘ بریگیڈیئر منظر عام پر آگئے۔ وہ دانیال عزیز سے بات کرنا چاہتے تھے‘ شاید کوئی وضاحت مقصود ہو کہ وکلاء اور اخبار نویس بھی پہنچ گئے۔ قدرے تلخ لہجے میں وہ پوچھ رہے تھے‘ آپ کو یہ اختیار کس نے دیا‘ یہ سب کچھ کس کے حکم پر ہوا؟ کسی بدمزگی سے بچنے کیلئے بریگیڈیئر صاحب نے یہاں سے چلے جانا ہی مناسب سمجھا‘ ''شیم شیم‘‘ کے نعرے ان کے تعاقب میں تھے۔
عدالتی کارروائی مکمل ہوئی‘ ملزم وزیراعظم رخصت ہوئے تو احتساب عدالت کے فاضل جج نے اخبار والوں کو بلا لیا‘ آج کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ رینجرز کو انہوں نے تو نہیں بلایا تھا۔ یہ کھلی عدالت تھی‘ اخبار والوں کے پاس کوریج کا عدالتی اجازت نامہ بھی تھا‘ اس کے باوجود کمرۂ عدالت سے چلے جانے کا حکم صادر ہوا۔ فاضل جج ان کی دل جوئی کر رہے تھے‘ آئندہ پیشی پر ایسا نہیں ہوگا‘ کسی نے روکنے کی کوشش کی تو وہ انہیں لینے کیلئے خود دروازے پر پہنچ جائیں گے۔ 
معزول وزیراعظم کمرۂ عدالت میں موجود تھے‘ لیکن چار دیگر شریک ملزمان کی غیر حاضری کے باعث فرد جرم عائد نہ ہوئی۔ حسین‘ حسن‘ مریم اور صفدر کے وکلاء کا یہ موقف عدالت کیلئے قابل قبول نہ تھا کہ ان کے مؤکلان لندن میں بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی سنگین علالت کے باعث حاضر نہیں ہو سکے۔ اگلی پیشی کیلئے ان کے قابل ضمانت وارنٹ بھی جاری ہو سکتے تھے لیکن عدالت نے یہ رعایت صرف مریم کو دی۔ حسین‘ حسن اور صفدر کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری کا حکم جاری ہوا۔
وزیر داخلہ احسن اقبال نے گزشتہ شب ایک ٹوئٹ میں کہا تھا (اور وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے ملتے جلتے الفاظ میں اس کی تائید کی تھی) کہ بعض عناصر مسلم لیگ ن کے نام سے سوشل میڈیا پر جعلی اکائونٹس کے ذریعے پاک فوج کیخلاف پراپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ اداروں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی اس سازش کی انہوں نے سختی سے مذمت کی تھی۔ آرمی چیف اپنے ادارے کو سیاست سے باہر رکھنا چاہتے ہیں‘ معزول وزیراعظم کے وفادار‘ شاہد خاقان عباسی کی کابینہ کے سینئر وزراء بھی تصادم کی بجائے‘ مفاہمت کے ساتھ موجودہ جمہوری نظام کے تسلسل کے خواہاں ہیں اور اس کیلئے کوشاں بھی۔ پھر سوموار کی صبح اسلام آبادجوڈیشل کمپلیکس میں یہ افسوسناک واقعہ کیوں ہوا؟
وزیر داخلہ نے تحقیقات کا حکم دیا ہے‘ یہ امید بلکہ یقین بے جا نہیں کہ جناب آرمی چیف بھی معاملے کی تہہ تک پہنچنے اور آئندہ ایسے واقعات کے سدباب کیلئے سرگرم ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved