تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     03-10-2017

اس کے بعد کیا ہوگا ؟

لگتا ہے کہ میاں نواز شریف نے ملک بھر کے اداروں کو اپنی عددی برتری کی لپیٹ میں ایسے وقت میں لینے کا تہیہ کر لیا ہے جب دشمن پاکستان نریندر مودی نے ایک جانب لائن آف کنٹرول تو دوسری جانب افغانستان سے ملحقہ مغربی سرحدوں پر پاکستان کے اندر گولہ باری اور قتل و غارت شروع کر رکھی ہے ایسے وقت میں اگر نواز شریف ملک میں افرا تفری پیدا کرنے کیلئے حکومتی طاقت اور پولیس کے بل بوتے پر جی ٹی روڈ کی طرح انارکی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تو سوچئے کہ '' اس کے بعد کیا ہو گا؟۔ ۔۔ میرے آج کے اس مضمون کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے لمحے بھر کیلئے سوچئے کہ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف طے کئے گئے پلان کے تحت آئین میں یہ ترمیم کرا لیتے ہیں کہ'' چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی کی طرح اب سپریم کورٹ کے جج اور چیف جسٹس بھی وزیر اعظم کی مرضی اور صدر ممنون حسین کی منظوری سے تعینات ہوا کریں گے ۔۔۔(۔تاکہ جسٹس کھوسہ کو چیف جسٹس بننے سے روکا جا سکے) ؟۔ وہ اپنی عددی برتری کو استعمال کرتے ہوئے آئین پاکستان سے شق62/63 کا مکمل خاتمہ کرادیتے ہیں ؟۔ وہ یہ بل بھی منظور کرا لیتے ہیں کہ آئیندہNAB کا چیئر مین بھی وزیر اعظم کی مرضی کے مطا بق صدر ممنوں حسین جیسا صدر ہی ان سے پوچھ کر تعینات کیا کرے گا۔۔۔تو سوچئے اس کے بعد کیا ہو گا؟۔
2 اکتوبر کو جہاں وہ اسلام آباد کی نیب کورٹ میں پیش ہورہے ہوں گے تو اسی وقت آئی بی، ایف آئی اے، پولیس اور ایف بی آر اور ملک بھر کے بینکوں کے خزانوں اور ماروی میمن اور اسحاق ڈار کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے120 ارب روپوں کی مدد سے ان کے انگوٹھے تلے دبی ہوئی قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل203 کی منظوری دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو پاش پاش کر رہی ہو گی ۔۔۔ اور اگر اس دوران کسی جانب سے آئین میں کی گئی اس ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو اس کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی نواز شریف تین اکتوبر کو دوبارہ مسلم لیگ کی صدارت سنبھال لیں تو سوچئے کہ ''اس سے زیا دہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی بے حرمتی اور کیا ہو گی؟۔اگر سپریم کورٹ اپنی حفاظت کیلئے یا اپنے دیئے گئے کسی فیصلے کی تعمیل کیلئے آئین کے آرٹیکل190 کے تحت ا فواج پاکستان کو اپنی مدد کیلئے بلاتی ہے اور نواز شریف کی مرکزی یا پنجاب حکومت اس کی مزاحمت کرتی ہے تو سوچئے کہ '' اس کے بعد کیا ہو گا ؟۔ ‘‘ 
کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ میاں نواز شریف نے اپنی پوری فیملی کو لندن بھجوا کر اس کھیل کا آغاز کر دیا ہے جو ذوالفقار علی بھٹو نے23 مارچ1973 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں کھیلا تھا؟۔ یہ وہ وقت تھا جب اس ملک میں نہ تو آئین کی پاسداری کی جا رہی تھی اور نہ ہی پی پی پی کے لیڈران اور کارکنوں کے سامنے قانون نام کی کسی شے کا وجود تھا؟۔ یہ وہ وقت تھا جب مفتی محمود، مولاناشاہ احمد نورانی اور چوہدری ظہور الٰہی جیسے اراکین اسمبلی کو قومی اسمبلی کے ایوان سے اٹھا کر با ہر سڑک پر پھینک دیا گیا تھا۔۔ اس وقت بھٹو کے آمرانہ رویئے کے خلاف ملک کی تمام سیا سی جماعتوں پر مشتمل متحدہ جمہوری محاذ کے تحت راولپنڈی کے لیاقت باغ میں احتجاجی جلسہ عام کاابھی آغاز ہوا ہی تھا کہ یک دم ہر جانب گولیوں کی ترتڑاہٹ اور انسانی چیخوںنے بھگدڑ سی مچا دی ہر جانب لاشوں اور زخمیوں کے انبار لگنے شروع ہو گئے احمد رضا قصوری جو اس حملے کے خصوصی ٹارگٹ تھے نہ جانے کیسے بچ کر لیاقت باغ کے قریب ایک بس میں جا گھسے ۔۔۔ زندگی تھی کہ بچ گئے ۔ زخمی ہونے والے لوگ جس طرح آہ و بکا کرتے ہوئے پناہ لینے کیلئے ادھر ادھربھاگ رہے تھے وہ منظر جب بھی آنکھوں کے سامنے آتا ہے تو کانپ سا جاتا ہوں کیوںکہ ظالموں نے
جلسہ گاہ کو چاروں طرف سے گھیراہوا تھا اس لئے جلسہ گاہ سے باہر بھاگتا ہوا دکھائی دینے والے شخص کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا تھا ۔ کوئی انہیں پوچھنے والا نہ تھا کیونکہ ایف ایس ایف اور پولیس بھی ان کا ساتھ دے رہی تھی۔ آج بھی یاد ہے کہ لیاقت باغ کے اس جلسے سے ولی خان کو ایک گرے رنگ کی فیٹ یا ڈاٹسن گاڑی میں پشاورروڈ کی جانب نکلتے ہوئے میڈیا کے بہت سے لوگوں نے دیکھا، خیال تھا کہ وہ راولپنڈی یا ہارلے سٹریٹ جائیں گے لیکن معلوم ہوا کہ وہ سیدھے پشاور کا رخ کئے ہوئے ہیں۔۔وہاں سے کچھ لیڈران جب راولپنڈی کے فائیو سٹار ہوٹل پہنچے جہاں پیر صاحب پگاڑا مرحوم قیام کئے ہوئے تھے انہیں جب ساری صورت حال بتائی تو انہوں نے اس وقت ایک نہایت ہی مختصر اور اہم جملہ بولا'' بھٹو نے اپنے پتے میز پر پھینک دیئے ہیں‘‘ ۔
چھانگا مانگا جیسے جدی پشتی کاروبار ، حکومتی دبدبے اور سب کچھ ڈکارنے کیلئے معدے کو استعمال کرتے ہوئے اقلیت میں ہونے کے باوجود سینیٹ سے آئین کے آرٹیکل203 میں جس طرح ترمیم کروانے کے بعد اب دو اکتوبر کو اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر آئین میں ترمیم کراتے ہوئے '' ملک کی سب سے قابل احترام سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے کو جمہوری آمریت اور قارون کے خزانے کے ذریعے روندنے کے بعد میاں محمد نواز شریف سپریم کورٹ کی جانب سے سیا ست کیلئے نا اہل قرار دیئے جانے والے فیصلے کو ''بلڈوز‘‘ کرتے ہوئے ایک بار پھر اداروں کا منہ چڑاتے ہوئے مسلم لیگ نواز کی صدارت کیلئے اہل قرار دے دیئے جائیںگے اور پھر تین اکتوبر کو جاتی امراء کے ذریعے مسلم لیگ نواز کے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں بلائے جانے والے اجلاس میں انہیں تا حیات مسلم 
لیگ نواز کا پھر سے صدر منتخب کرتے ہوئے ۔۔۔ قانون اور آئین پاکستان کی بے حرمتی کرتے ہوئے پیغام دیاجائے گا کہ کر لو جو کرنا ہے کہ میں نے بھی آج تیئس مارچ 1973 کو لیاقت باغ راولپنڈی میں اپنی طاقت اور آمریت کے سائے میں کھیلی جانے والی بر بریت کی طرح لیاقت باغ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ایک فیصلے کو مسل کر '' پتوں کو میز پر پھینک دیا ہے‘‘ اس سے پاکستان کے تمام اداروں کو پیغام مل جائے گا کہ ۔ اب پاکستان کا آئین ذوالفقار علی بھٹو کی طرح میاں نواز شریف کی مرضی کا ہو گا ،کوئی بھی قانون نواز کی مسلم لیگ کی عددی برتری کے تابع ہوکر رہ جائے گا۔۔۔ کسی بھی نچلی سطح کی کورٹ یا ہائی کورٹ کا فیصلہ ملک قیوم ، خلیل رمدے، خواجہ شریف ، خلیل الرحمان خان ، رفیق تارڑاور راشد عزیز کی طرح حکومت سے پوچھ کر کیا جایا کرے گا اور رہ گئی سپریم کورٹ تو اس کے فیصلے کے ساتھ میں نے اپنے غلاموں کی جی حضوری کے ذریعے دو اکتوبر کوجو کچھ کر دکھایا ہے ا س کے بعد وہ بھی میرے ہر جرم کے خلاف کوئی فیصلہ دیتے وقت ہزار بار سوچا کرے گی اور اگر پھر بھی کسی نے آئین کی روح کے مطا بق اس پر عمل کرنے کی گستاخی کی تو سمجھ لے کہ چند دنوں بعد اپنی جمہوری آمریت کے بل بوتے پر اس کی دی گئی تمام سزائوں اور فیصلوں کو دو اکتوبر کی طرح کچل کر رکھ دوں گا۔۔۔۔سوچئے کہ اس کے بعد کیا ہو گا؟۔جب پانامہ کا والیم10 بحق سرکار جاتی امراء کے سرد خانے کی نذر ہو جائے گا؟۔ جب نیب اور اس کی عدالتیں پابند کر دی جائیں گی؟۔جب کرپشن کے تمام مقدمات بند کر دیئے جائیں گے۔۔جب تمام ادارے بھٹو فیملی کی طرح نواز شریف کے گھر کی لونڈی بن کر رہ جائیں گے تو سوچئے کہ ۔۔۔ اس کے بعد کیا ہو گا ۔۔۔۔۔!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved