سپریم کورٹ سے لے کر‘ نیب کی عدالت تک‘ جو دھوم دھڑکے دکھائے جا رہے ہیں‘ پاکستانی عدلیہ اس کی عادی ہے اور نہ ہی پاکستانی فوج۔ فوج کا تجربہ انتہائی تلخ اور تکلیف دہ ہے۔ میں سقوط مشرقی پاکستان کے طویل اور اذیت ناک لمحات کو آج بھی یاد کرتا ہوں تو دل تڑپ کے رہ جاتا ہے۔پاکستان قائم ہوا تو مشرقی پاکستان کے عوام‘ خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ متحدہ بنگال میںکولکتہ کی بالادستی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مشرقی بنگال جب پاکستان کا حصہ بنا‘ تووہ صوبے کا انتہائی پسماندہ زرعی علاقہ تھا۔ وہاں دھان ‘ پٹ سن اور مچھلی کی پیداوار قابل ذکر تھی۔ بیوروکریسی‘ مغربی پاکستان سے بھیجی گئی ۔ نظام انگریز کا بنایا ہوا تھا۔ وہی گورنر۔ وہی سول بیوروکریسی‘ جس میں پولیس کا زیادہ حصہ تھا۔ متحدہ ہندوستان میں اعلیٰ عہدوں پر ہندو فائز تھے۔تقسیم کے بعد ‘ان کی اکثریت مغربی بنگال چلی گئی۔ پسماندہ اور ناخواندہ مسلمان ‘جو اپنے صوبے کو مطلوبہ بیوروکریسی اور افسر شاہی بھی فراہم نہیں کر پا رہے تھے ‘ ان کے لئے مطلوبہ افسر شاہی اور نچلے درجے کی بیوروکریسی مشرقی پاکستان بھیجی گئی ۔ وہاں کی زیادہ آبادی غریبوں‘ محنت کشوں‘ مچھیروں اور مزدوروں پر مشتمل تھی۔ان کے نزدیک آزادی کا مطلب حد درجے کی پسماندگی ‘ دو روٹیاں اور ایک دھوتی تھا۔
ان دنوں میرا ایک دوست فاروق‘ چٹاگانگ سے کراچی آیا تھا۔ اس نے کراچی میں جو روزی تلاش کی ‘وہ ہیڈ بوائے کی تھی‘ وہ اس پر خوش تھا۔ ہمارے ساتھ یوم آزادی منا تا ۔ 14اگست کی تقریبات میں شریک ہوتا۔کبھی کبھی دبی زبان میں کہتاکہ ''ہمارے ملک کا افسر ہندووں اور گوروں سے بھی ''خراب‘‘ ہے۔یہی بات الطاف گوہر مرحوم نے بڑی درد مندی سے بتائی۔ انہوں نے کہا کہ ''بنگالی کو تو آزادی کے بعد‘ پہلے سے بری غلامی ملی۔ہندو ہماری زبان بولتا تھا اور سلوک بھی زیادہ برا کرتا تھا جبکہ انگریز کے ہم ‘عادی ہو چکے تھے ، پاکستان سے آئے ہوئے افسران کو ہم اپنا پاکستانی بھائی سمجھتے تھے لیکن انہوں نے تو ہمارے ساتھ ہندووں اور انگریز افسروں سے بھی برا سلوک کیا‘‘۔ الطاف گوہر خود بیوروکریسی کے حکمران طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ بات انہوں نے خود کہی تھی۔اپنے طور پر وہ بنگالی ملازموں سے بہتر سلوک کرتے لیکن دوسرے افسروں کا بنگالیوں کے ساتھ رویہ دیکھ کر مایوس ہو جاتے ۔ابتدائی برسوں میں بنگالی‘ ہم وطنی کے نئے نئے رشتے سے بڑے خوش تھے۔مغربی پاکستان ان کے لئے ‘سہانا خواب تھا۔ جو جلد ہی ٹو ٹ گیا۔مشرقی پاکستان والے‘ کانگرسی سیاسی کلچر سے آشنا تھے۔انہی کے ساتھ میل جول انہیں اچھا لگتا۔ ہمارے ساتھ زبان کا بھی بہت بڑا فرق تھا۔انہیں ہماری زبان کی سمجھ نہیں آتی تھی۔60ء کے عشرے کی ابتدا میں‘دستور ساز اسمبلی( قومی اسمبلی کا اس وقت یہی نام تھا) میں مغربی پاکستان کے نمائندے ‘مشرقی پاکستان سے منتخب ہو کر آنے والے نمائندوں کو بڑی ''بدتمیزی‘‘ سے ملا کرتے۔
مغربی پاکستان کا جاگیر دار طبقہ خوشحال تھا لیکن ان میں تعلیم برائے نام تھی۔ صرف چند ایک چنے ہوئے منتخب نمائندے تھے‘ جو بیرونی ممالک سے تعلیم حاصل کر کے آئے تھے۔بیوروکریسی ابتدا میں سویلین اور آگے چل کر فوجی ہو گئی۔ مغربی پاکستان کے خوشحال جاگیردار ‘ بہتر سیاسی شعور رکھنے والے بنگالیوں کو اپنے سے‘ برتر سمجھنے کو تیار نہیں تھے۔ایوب خان کی آمریت میں‘ ملک کے دونوں حصوں میں طبقاتی تفریق نمایاں ہوتی ہوئی ‘تضادمیں بدل گئی۔ بنگالی نئے آئین میں اکثریت کی مناسبت سے‘ حقوق اور وسائل میں اپنا حصہ طلب کرتے تھے جبکہ مغربی پاکستان کے حکمران طبقے انہیں ڈنڈے سے ہانکا کرتے۔یہ فرق بڑھتے بڑھتے نفرت کی حدوں کو چھونے لگا۔ آخری لمحات وہ تھے جب دونوں صوبوں میں پیدا شدہ تضادات‘ اپنی انتہاکو پہنچ گئے۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمن‘ اپنے صوبے کے انتظامی امور اور وسائل میں حصہ‘ آبادی کے تناسب سے مانگنے لگے۔انہوں نے ایک بزرگ سیاست دان ‘نورالامین کی ایک نشست پر اپنا امیدوار کھڑا نہ کیا جس کی وجہ سے‘ وہ منتخب ہو گئے ۔ باقی تمام سیٹیں شیخ مجیب الرحمن نے جیت لیں۔اب اس نے اقتدار میں اپنی آبادی کے تناسب سے حصہ طلب کیا۔اگر مغربی پاکستا ن کے نافہم سیاست دان ‘ اس وقت بھی بنگالیوں کے مطالبات مان جاتے تو آج مغربی پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ شیخ مجیب الرحمن اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں لاہور آئے تو وہ اپنے وقت کے نامور وکیل‘ برکت علی سلیمی کی قیام گاہ پر ٹھہرے۔ شیخ صاحب کے ساتھ ‘ان کی ساری متوقع کابینہ آئی تھی۔شیخ مجیب الرحمن ‘صدارتی نظام کے خواہش مند تھے جبکہ تاج الد ین کو وزیراعظم بنانے کا پروگرام تھا۔
موجودہ حکمران باقی سارے صوبوں کے سیاست دانوں سے زیادہ متکبر اور صاحب جائیداد بن چکے ہیں۔تخت لاہور نے سارے پاکستان کے قابل ذکر سیاست دانوں اور تاجروں کو کمتر سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ جو سیاست دان حکمرانوں کے برابر بیٹھنے کی جسارت کرتا ہے‘ اسے ایسی غضب ناک نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے جیسے وہ کوئی کمی کمین ہو۔پیسے کے لالچی اور تعلیم سے محروم یہ نام نہاد سیاست دان‘ اپنے آقا کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ مغربی پاکستانیوں کی وہ تمکنت جس سے وہ مشرقی پاکستانیوں کو دیکھا کرتے تھے‘ اسی حقارت کو اب تخت لاہور کے حکمران دیکھتے ہیں۔محروم اور چھوٹے صوبوں کے جذبات کی گرمی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘ جو کسی وقت بھی لاوے کی طرح پھٹ کر ابل پڑے گا۔بلوچستان اور خیبر پختونخوا اپنی محرومیوں سے بیداری کی انتہا تک پہنچ چکے ہیں۔ سندھ‘ قدرتی دولت سے مالا مال ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو قدرت نے انتہائی قیمتی معدنیات اور جغرافیائی خوش نصیبی سے نوازا ہے۔پنجاب کے مغرور حکمران‘ پسماندہ طبقوں کو جتنی نفرت سے دیکھیں گے ‘ گلگت بلتستان‘ آزاد کشمیر‘ خیبر پختونخوا‘ بلوچستان‘ سندھ‘ جنوبی پنجاب اوراس کے بعد جو پنجاب بچے گا ‘ اس کے پسماندہ اور غریب عوام ‘اپنی زرخیز مٹی سے نہ صرف گزر اوقات کے قابل ہو جائیں گے بلکہ مشرقی پاکستانیوں کی طرح ‘ محنت اور وسائل سے بھری زندگی گزاریں گے۔ جو سیاست دان ‘مال و زر سمیٹ کے دوسرے ملکوں کا رخ کریں گے‘وہ منہ کے بل گریں گے۔انشا اللہ وہ دن دور نہیں ‘جب ہمارا وطن‘ خوش حال‘ سرسبز اور بہاروں کے پھولوں سے مہکتا نظر آئے گا۔