تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     04-10-2017

جسمانی و ذہنی صحت

''زندگی کی نقالی‘‘ کے عنوان سے جو دو کالم گزشتہ ہفتے لکھے، ان میں بیمار طرزِ زندگی سے صحت مندی تک کا سفر درج تھا۔ اگر آپ صحت مند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ۔ وہ غذا کھانے کی کوشش کریں ، جو کسی processسے نہ گزری ہوئی ہو۔ جس میں کیمیکل اور چینی وغیرہ کی آمیزش نہ ہو۔ مثلاً آپ ریت والی چھلی یانمک میں پکے ہوئے اس کے دانے کھائیں۔ انگور اور دیگر پھل کھائیں۔ ان چیزوں میں اس قدر لذت ہے کہ جو ایک بار ان کاعادی ہو جائے، وہ انہیں چھو ڑ نہیں سکتا۔ یہ چیزیں جسم کے لیے بے حد مفید ہیں ۔ بیکری سے خریدے گئے بسکٹ ، کیک ، saladاور ڈبوں میں بند چیزیں کسی لحاظ سے بھی جسم کے لیے مفید نہیں ۔ نہ ہی '' فاسٹ فوڈ ‘‘ کے نام سے ملنے والے برگراور تلا ہوا گوشت یا چپس مفید ہے ۔کاربونیٹڈ کولڈ ڈرنکس کو آپ اپنے جسم کے لیے زہر سمجھیں۔ یہ جسم کے لیے ایک slow poisonکا کا م کرتی ہیں ۔ آہستہ آہستہ یہ جسم کو موٹا کرتی ہیں ۔ پھر انسان شوگر اور بلڈ پریشر کا مریض بن جاتا ہے ؛حتیٰ کہ وہ دن بھی آتا ہے ، جب اس کی انگلیاں اور حتیٰ کہ ٹانگیں کاٹ دینا پڑتی ہیں ۔ زخم بھرتے نہیں اور انسان تڑپتا رہتا ہے ۔ اگر آپ عبرت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہسپتال جا کر ایسے مریضوں کو اپنی آنکھ سے دیکھیں۔ اس کے بعد سوچیں کہ اپنے جسم کے ساتھ آپ کیا کر رہے ہیں۔ آپ اگر بیس لاکھ روپے کی گاڑی خریدیں تو اس کے انجن اور پیٹرول ٹینک میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ڈالیں گے ،جو معیار میں کمتر ہو۔ صرف بیس لاکھ روپے کی گاڑی کو آپ اس قدر حفاظت سے رکھتے ہیں ۔ اس میں کبھی کمتر انجن آئل بھی نہیں ڈالتے لیکن جس جسم کی قیمت اربوں روپے ہے ۔ جس کا ایک ایک عضو انمول ہے ، اس میں آپ ہر وہ چیز ڈالتے رہتے ہیں ، جس کا ذائقہ اچھا ہو ۔ یہ اپنے ساتھ ظلم ہے اور اس کی قیمت ایک دن انسان کو چکانا پڑتی ہے ۔
آپ اپنے جسم کی حفاظت نہیں کریں گے تو یہ جلد بوڑھا ہو جائے گا۔ پچاس سالہ عمر کے دو افراد کبھی بھی برابر نہیں ہوتے ۔آپ نے کئی افراد ایسے دیکھے ہوں گے جو ستر برس کی عمر میںبھی نوجوانوں کی طرح کام کر رہے ہوں گے اور40، 45سالہ ایسے لوگ بھی ، جو کام کاج کرنے کے قابل نہیںہوں گے ۔عمر بڑھنے کی رفتار ، انگریزی میں جسے aging کہاجاتا ہے ، مختلف افراد میں مختلف ہوتی ہے ۔ یہ ان کی خوراک اور ان کی جسمانی بھاگ دوڑ پہ منحصر ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ حالات کا دبائو، Stressیا anxietyایک ایسی چیز ہے کہ جو انسان کی صحت پر بری طرح اثر انداز ہوتی ہے ۔پریشانی کے شکار لوگوں کو حل تلاش کرنا چاہئے ۔ اگر خودنہیں کر سکتے تو کسی سمجھدار شخص یا psychiatristکو اپنے مسائل بتا کر ان سے counselingکروانی چاہئے ۔ ایسے لوگوں کے لیے بعض اوقات دوا (medication) بھی ضروری ہوتی ہے اوراس کے بغیر صحت مند زندگی کی طرف ان کی واپسی ممکن نہیں ہوتی ۔ ظاہر ہے کہ خدا کی یاد تو بہت ضروری ہے اور اسی سے دلوں کو سکون نصیب ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ علم میں اضافہ ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو صبر کی دولت سے نواز دیتا ہے ۔
قرآن مجید میں جہاں حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت خضر ؑ کی ملاقات اور ا کٹھے سفر کا واقعہ درج ہے ، وہاں بار بار خضرؑ حضرت موسیٰ سے یہ کہتے تھے کہ آپ میرے ساتھ نہیں رہ سکتے ۔ بار بار یہ فرماتے تھے کہ جس بات کا آپ کو علم نہیں ، آپ اس پر کیسے صبر کریں گے ؟ اور ہوا بھی بالکل ویسا ہی ۔ تیسری دفعہ جب موسیٰ ؑ نے اعتراض کیاتو خضرؑ نے اپنا راستہ الگ کر لیا۔ جانے سے پہلے وہ انہیں اپنے ہر عمل کی وجہ بتا کر گئے، جس میں ایک لڑکے کو قتل کرنا بھی شامل تھا ۔فرمایا: اس کے ماں باپ نیک ہیں مگر اس لڑکے نے بڑا ہو کر انہیں سخت تکلیف پہنچانا تھی ۔ یہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نیک ماں باپ کو بھی اس بات کا علم تو نہیں تھا کہ خدا کی کس مصلحت کے تحت ان کا بیٹا ان سے ہمیشہ کے لیے چھن گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس قتل میں ماں باپ کے لیے آزمائش تھی ۔ انہیں غم برداشت کرنا تھا اور اس کے بدلے میں پھر انہیں نیک اولاد ملنا تھی ۔
ایک چیز میں لکھنا بھول گیا ، جو صحت کے لیے انتہائی مفید ہے ، وہ تیز رفتار حرکت ہے ۔ جب آپ دوڑ لگاتے یا کوئی ایسی ورزش کرتے ہیں ، جس میں سانس پھولے اور دل کی دھڑکن تیز ہو تو یہ جسم اور دماغ کے لیے انتہائی مفید ہے ۔یہ ایک طرح کا بہت اچھا anti depressantبھی ہے ۔ اس طرح کی ورزش میں ایک طرح کا نشہ (Addiction) بھی ہوتا ہے ۔ جو لوگ اس کے عادی ہو جاتے ہیں، وہ ورزش کیے بغیر رہ ہی نہیں سکتے ۔ دوڑ لگانا پورے جسم کے لیے ، دل اور نظامِ انہضا م کے لیے اور حتیٰ کہ دماغ کے لیے بھی انتہائی مفید ہے ۔ کھانا کھانے کے بعد ایسی ورزش سے پہلے دو گھنٹے کا وقفہ ضروری ہے ۔ ایک دم سخت ورزش سے گریز کرنا چاہیے ، خاص طور پر چالیس سال سے زیادہ عمر والوں کو۔ پہلے تیز رفتار چہل قدمی وغیرہ سے جسم کو warm upہونے کا موقع دینا چاہئے ۔ پھر ورزش شروع کرنی چاہیے ۔ بتدریج اس کا دورانیہ بڑھانا چاہیے۔
صحت کے حوالے سے علاج کی اپنی ایک اہمیت ہے ۔ مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آتا ہے ۔ میرے دوست کی بہن سخت بیمار تھی اور وہ ایک بہت بڑے ہسپتال میں داخل تھی ۔وہاں ایک شخص ملا، جس کی عزیزہ بھی اسی وارڈ میں داخل تھی ۔ اس نے میرے دوست سے پوچھا کہ آپ کی بہن کو کیا بیماری ہے ۔ اس کے گردے کام کرنا چھوڑ چکے تھے (ایک حکیمی دوا کی وجہ سے ، جس میں چاندی کے ورق کوٹ کر ڈالے گئے تھے)۔ دوست نے اسے بیماری کی تفصیل بتائی تو اس نے کہا کہ گردے کے بہت سے مریض وہ صحت یاب ہوتے دیکھ چکا ہے ۔ اس نے میرے دوست کو ایبٹ آبا دسے آگے ایک مزار کا پتہ بتایا۔ اس نے کہا کہ وہاں سے بابا جی دوا دیں گے اور کچھ ہی دنوں میں آرام ہو جائے گا۔ میں نے اس شخص سے پوچھا کہ وہ خود اسلام آباد کے اس ہسپتال میں کیا کر رہا ہے ۔ اس نے کہا ، میری بہن کے گردے میں پتھری ہے ۔ میں نے پوچھا ، کیا اآپ کی بہن کو ان باباجی کی دوا سے آرام نہیں آیا ؟۔ اس نے کہا، ہاں ویسے تو سب کو وہاں سے آرام آجاتا تھا لیکن اس بار میری بہن کو آرام نہیں آیا تو یہاں آنا پڑا۔ دل ہی دل میں ، میں نے سوچا ، جب پتھری خود ہی حرکت کرنا چھوڑ دیتی ہے اور ساکن ہو جاتی ہے تو درد ختم ہو جاتا ہے ۔ ایسے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ بابا جی کی کرامت سے آرام آگیا ہے ۔ جب دو چار مہینوں یا ایک دو سال کے بعد پتھری دوبارہ ہلتی ہے تو دوبار ہ درد شروع ہو جاتاہے۔ دعا کی اپنی اہمیت ہے لیکن علاج تولازم ہے ۔ علاج وہ ، جس کی پشت پر چالیس ہزار سالہ انسانی تجربہ اور علم کھڑا ہو ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved