تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-03-2013

دہشت گردی کے خلاف فتح کی رات

سب دوستوں کا خیال تھا کہ میں حماقت کر رہا ہوں لیکن میں مطمئن تھا۔ ہر دوست نے مجھے روکنے کی کوشش کی مگر میں جب ارادہ کر لیتا ہوں تو پھر اللہ کے بھروسے اُس پر قائم رہتا ہوں۔ جو بھی دوست ملتا فکرمندی کا اظہار کرتا تھا لیکن مجھے اُوپر والے پر پُورا یقین تھا کہ وہ حفاظت کرنے والا ہے اور یقیناً حفاظت کرے گا۔ میں حیران تھا‘ یہ وقت بھی آنا تھا کہ لوگوں نے یہ سمجھانا تھا کہ ہمیں پاکستان کے اندر کس شہر میں جانا ہے اور کس میں نہیں جانا۔ سبّی جانے کے معاملے میں بھی یہی مرحلہ درپیش تھا۔ میرے تمام دوست اور میری بیٹیاں مجھے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں مگر میرا موقف تھا کہ اگر ہم اس مرحلے پر ڈر گئے اور گھر بیٹھ گئے تو یہ دہشت گردوں کی فتح اور ہماری شکست ہو گی۔ سبّی میلہ بڑی پُرانی روایت اور پُورے ملک میں اپنی نوعیت کا منفرد میلہ ہے۔ میں تقریباً آٹھ نو سال پہلے سبّی میلے کے مشاعرے میں شرکت کر چُکا ہوں۔ تب لاہور سے جہاز پر میرے ساتھ امجد اسلام امجد اور انور مسعود بھی تھے۔ کوئٹہ سے سبّی بذریعہ سڑک بڑا خوشگوار سفر تھا۔ سنگلاخ پہاڑ، میل ہا میل تک پھیلے میدان، سڑک کے ساتھ ساتھ بچھی ہوئی ریلوے لائن اور جگہ جگہ بنی سرنگیں، کہیں کہیں سڑک کے ساتھ سبز پانی والی ندیاں اور میلوں بعد نظر آنے والے اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ۔ یہ سب کچھ اتنا خوبصورت تھا کہ سفر یادوں میں ثبت ہو کر رہ گیا۔ تب یہی سوچا تھا کہ موقع ملا تو کوئٹہ سے سبّی بذریعہ سڑک کم از کم ایک بار اور سفرکروں گا۔ راستے میں رُک کر مَچھ جیل دیکھوں گا۔ سڑک کے ساتھ ساتھ بنی کوئلے کی کانوں میں جائوں گا۔ ندی نالوں کے اوپر سو سال پُرانے لوہے کے پُلوں کے ساتھ کھڑے ہو کر تصاویر کھنچوائوں گا۔ ندی میں گُھٹنے گُھٹنے پانی کے اندر جائوں گا۔ دُنیا کی قدیم ترین تہذیب مہر گڑھ جائوں گا۔ قلعہ چاکر کی سیر کروں گا۔ مگر اس بار سارا سفر ایک بے یقینی‘ افراتفری اور کسی حد تک گھبراہٹ میں گزرا۔ نو سال پہلے تصوّر میں بھی نہ تھا کہ اگلی بار کا سفر اتنا بے کیف ہو گا کہ انجوائے کرنے کے بجائے خوف کے سائے میں اور محافظوں کے پہرے میں طے ہو گا۔ پندرہ بیس دن پہلے سبّی سے عظمی جان کا فون آیا کہ سبّی میں کئی سال کے بعد میلہ ہو رہا ہے‘ مشاعرہ بھی رکھا گیا ہے اور اس میں مجھے بھی شریک ہونا ہے۔ مجھے اُسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ایک مشکل مرحلہ ہو گا لیکن میں نے ایک لمحے ہی میں فیصلہ کر لیا کہ کم از کم مجھے اس مشاعرے میں سبّی جانا ہو گا۔ میں نے عظمی سے پوچھا کہ اور کون کون آ رہا ہے؟ اُس نے چار پانچ نام بتائے کہ یہ لوگ آ رہے ہیں۔ دو چار روز بعد عظمی نے دوبارہ فون کیا اور پوچھا کہ میں کس طرح اور کب آرہا ہوں؟۔ میں نے بتایا کہ مشاعرے والے دن صبح کی فلائٹ سے لاہور سے کوئٹہ جائوں گا اور وہاں سے بذریعہ سڑک سبّی پہنچوں گا۔ مشاعرہ پڑھوں گا اور اگلے روز صبح واپس کوئٹہ جائوں گا اور شام کی فلائٹ سے واپس لاہور پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ میں نے پوچھا: ’لاہور سے کون کون آ رہا ہے تاکہ میں ان کے ساتھ ہی کوئٹہ آ جائوں‘۔ عظمی نے بجھے ہوئے لہجے میں بتایا کہ لاہور سے کوئی نہیں آ رہا۔ میں نے کہا: ’پہلے تو آپ نے کہا تھا کہ دو تین لوگ آرہے ہیں‘۔ عظمی کہنے لگا: ’پہلے آ رہے تھے اب نہیں آ رہے‘۔ پھر کہنے لگا: ’میرا مطلب ہے جنہوں نے وعدہ کیا تھا اب نہیں آ رہے‘۔ مجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ تو آ رہے ہیں؟۔ میں نے کہا: ’جب آپ سے ایک بار کہہ دیا کہ آ رہا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ آرہا ہوں‘۔ عظمی کہنے لگا:’ بس کنفرم کر رہا تھا‘۔ میری دونوں بیٹیاں کوئٹہ کا سُن کر کہنے لگیں کہ آپ نہیں جا سکتے۔ میں نے ہنس کر کہا: ’میں آپ کو صرف بتا رہا ہوں کہ میں کوئٹہ جا رہا ہوں۔ آپ سے پوچھ نہیں رہا کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ مجھے جانا ہے کہ نہیں‘۔ پھر میں ہنسا اور کہا: ’بیٹا ! ہمت اُن لوگوں کی ہے جو ان حالات میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ یہ میلہ نہیں دہشت گردی کے خلاف مزاحمت ہے۔ یہ مشاعرہ نہیں ہے بندوق اور بارود کے خلاف اعلانِ جنگ ہے‘ ہمیں اس جہاد میں حصہ ڈالنا ہو گا۔ مشاعرے میں شرکت سے انکار دراصل دہشت گردوں سے ہار ماننے کے مترادف ہو گا۔ آج ہم سبّی نہیں جائیں گے‘ کل کوئٹہ نہیں جا سکیں گے۔ پرسوں لاہور جاتے ہوئے سوچنا پڑے گا اور خدانخواستہ اسی طرح مراجعت کرتے رہے تو ایک دن گھر سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ کب تک پیچھے ہٹتے رہیں گے؟ کب تک ڈرکر بھاگتے رہیں گے؟‘ بڑی بیٹی کہنے لگی: ’جب باقی نہیں جا رہے تو آپ کو کیا پڑی ہے؟آپ بھی دوسروں کی طرح انکار کر دیں‘۔ میں نے کہا: ’آخر کوئی تو ہمت کرے گا۔ کوئی تو بارش کا پہلا قطرہ بنے گا۔ خود ڈر جانے کے بعد دوسروں سے بہادری کی توقع رکھنا نہایت ہی گھٹیا حرکت ہے اور کم ازکم میں تو یہ نہیں کر سکتا‘۔ لاہور ایئرپورٹ پر گیٹ نمبر گیارہ کے سامنے کوئٹہ جانے والے مسافر جہاز میں سوار ہونے کے منتظر تھے۔ وہاں ایک دو لوگوں نے مجھے پہچان کر پوچھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں۔ میں نے بتایا کہ سبّی میلے کے مشاعرے میں جا رہا ہوں۔ کوئٹہ میں تعینات ایک اعلیٰ سرکاری افسر میرے ساتھ بیٹھ گیا اور کہنے لگا: ’آپ کوئٹہ سے سبّی جاتے ہوئے پینٹ کوٹ کی جگہ شلوار قمیص پہن کر جائیں‘۔ میں نے بتایا کہ میرے پاس تو شلوار قمیص نہیں ہے۔ کہنے لگا:’ آپ کوئٹہ اُتر کر میرے ساتھ گھر چلیں‘ وہاں کپڑے تبدیل کر لیں‘۔ میں ہنسا اور کہا کہ ایسے ہی چلے گا۔ کوئٹہ ایئرپورٹ پر اے ڈی سی جی کوئٹہ عظیم انجم مجھے لینے کے لیے موجود تھا۔ مجھے کوئٹہ سے سبّی روانہ کرتے ہوئے عظیم کچھ پریشان تھا۔ میرے ساتھ دو کلاشنکوف بردار محافظ تھے۔ ڈرائیور نے روانگی سے پہلے گاڑی کی چھت پر لگی ہوئی نیلی بتی اتار دی۔ کوئٹہ سے نکلے تو مشہورِ زمانہ سریاب روڈ سے گزرتے ہوئے محافظ چوکنے ہو کر بیٹھ گئے۔ چار کلومیٹر لمبی اور بیس میٹر چوڑی یہ سڑک اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا گڑھ ہے اور شہر کے درمیان سے گزرتی ہے۔ کوئٹہ سے نکلنے کے چند کلومیٹر بعد مستونگ کا ضلع شروع ہو جاتا ہے۔ یہ اسلم رئیسانی کا ضلع ہے اور اغوا برائے تاوان کا بہت بڑا مرکز ہے۔ دشت سے ڈھاڈر تک کا سفر نہایت خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ یہاں موبائل فون کا نظام کام نہیں کرتا۔ درمیان میں صرف مَچھ میں چند کلومیٹر کے لیے سگنل آتے ہیں۔ دشت سے آگے بڑھتے ہی ہماری گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا۔ میں باہر نکلنے لگا تو محافظوں نے منع کر دیا کیونکہ میں پینٹ کوٹ میں تھا۔ گاڑی ڈیڑھ گھنٹہ دشت کے میدان میں کھڑی رہی۔ ڈھاڈر پہنچے تو عظمی کا فون آیا وہ تاخیر پر بہت پریشان تھا۔ ہمارے پہنچنے پر اُس کی جان میں جان آئی۔ مشاعرہ باوجود اس کے کہ صرف دو مہمان شاعر بلوچستان کے باہر سے آئے تھے (ایک میں اور دوسرا کراچی کا سلیم فوز) بڑا کامیاب تھا ۔ سبّی کے سامعین نے صاحبِ ذوق ہونے کا پُورا ثبوت دیا۔ مشاعرے کے دوران میں تھوڑی سی ہلچل محسوس ہوئی۔ یہ تین مسلسل دھماکوں کا نتیجہ تھا۔ پتہ چلا کہ تین راکٹ فائر کیے گئے ہیں جو سبّی کے ہوائی اڈے کے قریب گرے تھے۔ تین چار منٹ کے بعد حالات معمول پر آ گئے۔ مشاعرہ رات ایک بجے کے بعد ختم ہوا مگر سامعین کی داد کی آواز ابھی تک کانوں میں گونج رہی ہے اور اُن کی محبت اب تک مزا دے رہی ہے۔ وہ رات بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف لڑنے والوں کی فتح کی رات تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved