تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     05-10-2017

احسن اقبال کیا کرتے؟

سیاست تو بے رحم ہوتی ہے۔ اُس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ کیا صحافت کو بھی بے رحم ہونا چاہیے؟ اہلِ سیاست نے وہی کچھ کہا جس کی ان سے توقع تھی مگر میڈیا؟
احسن اقبال نے کیا کہا؟ ایک بار پھر دھراتے ہیں۔ یہ کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں ہونی چاہیے۔ آئینی ریاست میں حکومت ایک ہی ہوتی ہے۔ پاکستان 'بنانا ریپبلک‘ نہیں ہے۔ ان جملوں میں کیا بات ہے جو قابلِ اعتراض ہے؟ کیا ریاست کے اندر ریاست ہونی چاہیے؟ کیا کسی ملک میں دو یا دو سے زیادہ حکومتیں بھی ہوتی ہیں؟ کیا پاکستان کو 'بنانا سٹیٹ‘ ہونا چاہیے؟
اب آئیے رویے کی طرف۔ وزیرِ داخلہ کو اطلاع ملتی ہے کہ عدالت کے احاطے میں لوگوں کو داخلے سے روکا جا رہا ہے۔ وہ موقع پر پہنچ کر جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی اس کی بات سنتا ہے نہ دروازہ کھولتا ہے۔ اس پر ایک وزیرِ داخلہ کا فطری ردِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ اگر وہ غصے کا اظہار کرتا ہے تو کیا یہ ڈرامہ ہے؟ کیا یہ ردِ عمل غیر فطری ہے؟ حکومت اور ن لیگ کی کارکردگی اور حکمتِ عملی میں بہت سے خلا ہیں۔ ان پر تنقید کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے۔ کیا لازم ہے کہ جوشِ تنقید میں عزتِ سادات بھی داؤ پر لگا دی جائے؟ 
اداروں میں تصادم نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے تصادم میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ شاید ہی کوئی اس مقدمے سے اختلاف کرے۔ سوال مگر یہ ہے کہ اس تصادم سے کیسے بچا جائے؟ پھر یہ نشان دہی بھی لازم ہے کہ کون کون اس کا ذمہ دار ہے اور کتنا؟ اہم تر سوال یہ ہے کہ تصادم ہوتا کیوں ہے؟ اہلِ دانش کے ذمے ہے کہ وہ ان معاملات میں قوم کی راہنمائی کریں۔ اس بحث میں ماضی کے حوالے اکثر بے محل ہوتے ہیں۔ انسان بدلتے ہیں اور اگر اس کے برخلاف کوئی دلیل نہ ہو تو اس کلیے کو تسلیم کرنا چاہیے۔ اس لیے لازم ہے کہ تجزیہ حال کے واقعات کی بنیاد پر ہو۔ قائد اعظم مسلم شناخت کا عَلم لے کر اٹھے تو اعتراض ہوا: کل تو آپ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے: کہا؛ کل تو میں پرائمری سکول میں بھی پڑھتا تھا۔ جوش سے اسی طرح کا سوال ہوا تو انہوں نے کہا: کل تو میں ایک قمیض میں پھرا کرتا تھا۔
2008ء سے پاکستان کی تاریخ کا ایک نیا عہد شروع ہوا جو تدریجاً جمہوری اقدار کے استحکام کی ضمانت بنتا جا رہا تھا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد، ہر قابلِ ذکر سیاسی جماعت کہیں نہ کہیں اقتدار کا حصہ تھی۔ کسی صوبائی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی اور انتخابی نتائج کی بنیاد پر حکومتیں قائم ہو گئیں۔ سال پورا نہیں ہوا کہ دھرنا سیاست کا آغاز ہو گیا۔ یہ دھرنا کیوں ہوا؟ کون اس کے پیچھے تھا؟ وقت نے ہر سوال کا جواب دے دیا ہے۔ مرکزی حکومت کو کمزور یا ختم کرنے کے لیے یہ پہلی مہم جوئی تھی جس میںعوامی تائید کو بطور قوت استعمال کیا گیا۔ وہ نوجوان اس کا ایندھن بنا جس میں ہیجان بھر دیا گیا تھا۔ یہ اقتدار کے مراکز میں ایک نئے تصادم کا آغاز تھا۔
عوامی تائید کی بنیاد پر مرکزی حکومت کو ختم یا ناکام کرنے کی یہ کوشش اس وقت دم توڑ گئی‘ جب عوام نے اسلام آباد کے گھیراؤ کے لیے ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ لوگوں نے اس پر ہمت نہیں ہاری۔ اب اس مہم جوئی کو سڑکوں سے عدالتی ایوانوں میں منتقل کر دیا گیا۔ وٹس ایپ سے جے آئی ٹی کے 'ہیروں‘ کے انتخاب اور پھر اقامہ کی بنیاد پر نواز شریف صاحب کی نااہلی تک، دوسرا دور ہے جس میں تصادم کا عمل اپنے عروج کو پہنچ گیا۔ یہ اہم بات ہے کہ پاناما کے معاملے میں نواز شریف کی نااہلی نہیں ہوئی، اقامہ کی اساس پر ہوئی ہے۔
واقعات کا یہ تسلسل اِن سوالات کے شافی جواب دیتا ہے کہ تصادم کا آغاز کہاں سے ہوا؟ کون اس کا ذمہ دار ہے؟ کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں جس کی بنیاد پر نواز شریف صاحب کو تصادم کا ذمہ دار قرار دیا جائے۔ اگر ایک وزیر اعظم کسی آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع نہیں کرتا تو کیا یہ تصادم کی کوشش ہے؟ جنرل راحیل شریف صاحب قانون کے مطابق ریٹائر ہوئے۔ وزیر اعظم نے ان کی خدمات کا اعتراف کیا اور انہیں وزیر اعظم ہاؤس کی ایک پُروقار تقریب میں رخصت کیا گیا۔ 
بطور وزیر اعظم اور سیاست دان نواز شریف صاحب کی کارکردگی پر بہت سے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ اس حیثیت میں ان پر جو تنقید کی گئی اس میں وزن بھی ہو گا۔ ایک منتخب عوامی وزیر اعظم پر اہلِ سیاست اور میڈیا کی تنقید کو کسی طرح ناجائز نہیں کہا جا سکتا۔ مگر یہ کہ وہ اداروں میں تصادم کے مرتکب ہوئے ہیں، اس الزام کے حق میں کوئی ایک دلیل پیش نہیں کی جا سکتی۔
اپنے خلاف فیصلہ آنے پر نواز شریف صاحب کا ردِ عمل شدید تھا۔ یہ عدالت کے خلاف بھی تھا۔ اس ردِ عمل کو جتنا بے جا قرار دیا جائے، کم از کم تصادم کا سبب نہیں کہا جا سکتا۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ یہ تصادم کی وجہ نہیں، اس کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک ایسے آدمی کا ردِ عمل ہے جس کی تذلیل کی انتہا کر دی گئی۔ جسے عدالتی فیصلوں میں 'گاڈ فادر‘ کہا گیا۔ جس کا شخصی اقتدار ہی نہیں، اس کے خاندان کی سیاست کو ختم کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ جسے دیوار سے لگا دیا گیا۔ اس سلوک پر گوشت پوست کے ایک انسان کا ردِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ کیا وہ اظہارِ مسرت کرتا اور ان عدالتی فیصلوں پر تالی بجاتا جنہیں بہت سے قانون دان بھی متنازعہ کہتے ہیں؟
میں پھر عرض کرتا ہوں کہ لوگوں کو اس ردِ عمل پر بھی تنقید کا حق ہے۔ سوال تنقید کا نہیں، تصادم کا ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اس سارے عمل میں کسی طرح نواز شریف صاحب کو تصادم کا ذمہ دار نہیں قرار دیا جا سکتا۔ جو لوگ اداروں کے مابین تصادم کو ختم کرنا چاہتے ہیں، کیا وہ اس سلسلہء واقعات سے صرفِ نظر کر سکتے ہیں؟ ان سے سوال کیا جانا چاہیے کہ اس پس منظر میں وہ نواز شریف سے کیا توقع رکھتے تھے؟ انہیں کیا کرنا چاہیے تھا؟
تصادم کی اس بحث سے یہ تو واضح ہے کہ اس میں ایک سے زیادہ فریق ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو تصادم کا یہ مقدمہ ہی بے بنیاد ہے۔ ایک فریق تو نواز شریف صاحب ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دوسرا فریق کون ہے؟ کیا کوئی تیسرا فریق بھی ہے؟ دھرنا کیوں ہوا؟ نواز شریف کے خلاف مہم جوئی کا میدان ڈی چوک اور سڑکوں سے عدالت کے ایوانوں میں کیسے منتقل ہوا؟ کیا یہ سب خلا میں ہوا؟ 
اس پس منظر میں احسن اقبال کے ردِ عمل کو دیکھیے۔ کیا یہ واقعہ ناطق نہیں ہے کہ عوامی حکومت کے علاوہ بھی طاقت کا کوئی مرکز ہے جو خود کو حکومت کا پابند نہیں سمجھتا؟ کیا تصادم کے خاتمے کے لیے اس کی بھی کوئی ذمہ داری ہے؟ کیا ہم درد مندی سے اس سے بھی کوئی درخواست کر سکتے ہیں؟ ڈان لیکس پر‘ جس میڈیا نے ذمہ داران کے تعین کے لیے بہت شور مچایا، کیا وہ اب مطالبہ کرے گا کہ اس واقعے کا بھی نوٹس لیا جائے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے؟ 
میڈیا اقتدار کی کشمکش میں فریق نہیں ہوتا۔ اس کا جھکائو کسی ایک فریق کی طرف ہو سکتا ہے لیکن وہ خود اقتدار کا طالب نہیں ہوتا۔ رائے سازوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اداروں کے مابین تصادم کے بڑھتے امکان کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ انہیں متعین طور پر بتانا چاہیے کہ اس تصادم کا ذمہ دار کون ہے؟ اس میں کون کون فریق ہے؟ کس فریق کو کیا کرنا چاہیے؟ خلطِ مبحث سے مزید الجھاؤ پیدا ہوتا ہے۔ میری طرح، بزعمِ خویش راہنمائی کے منصب پر فائز لوگوں کو ان سوالوں کے واضح جواب دینا چاہیے اور دلیل کے ساتھ۔
سیاست تو بے رحم ہوتی ہی ہے کہ اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ صحافت کو تو بے رحم نہیں ہونا چاہیے؟ کیا فی الواقع احسن اقبال کا ردِعمل ایک ڈرامہ تھا؟ آپ ان کی جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved