تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-10-2017

’’بھنڈ‘‘ بھی بے سبب نہیں صاحب!

اردو شاعری کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ صورتِ حال کیسی ہی ہو، ذرا سا متوجہ ہونے پر اُس سے مطابقت رکھنے والے درجنوں اشعار ذہن کے پردے پر نمودار ہونے لگتے ہیں۔ قدما و متاخرین ہر موضوع اور ہر معاملے پر کچھ نہ کچھ کہہ کر گئے ہیں۔ کسی نے دل توڑ دیا ہو تو اشعار حاضر ہیں۔ کسی کا دل توڑنے کی ٹھان لی ہے تو اشعار حاضر ہیں۔ دنیا سے دل لگانا ہے تو شاعری کا سہارا لیجیے اور اگر دنیا کو خیرباد کہنے یا اہلِ دنیا کو لتاڑنے کا موڈ ہے تب بھی شاعری کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی موقع ایسا نہیں جو اردو شاعری کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوسکا ہو۔ اور حد یہ ہے کہ اب میاں نواز شریف بھی حالات کی ستم ظریفی پر اپنے دل کی بات کہنے کیلئے اشعار کا سہارا لینے لگے ہیں! شہباز شریف کو تو داد دینا پڑے گی کہ وہ سُخن سے شغف اور اہلِ سُخن سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ کسی تقریر میں وہ غزل ٹانکتے ہیں تو پہلے کسی سے خوب مشورہ کرلیتے تاکہ کسی بڑی غلطی کا احتمال نہ رہے۔
آج کل مِنی اسکرین پر کرنٹ افیئرز کے نام پر جو کچھ پیش کیا جارہا ہے وہ ایسا زنّاٹے دار ہے کہ دس پندرہ منٹ بھی کسی کو سُنیے تو دل و دماغ کی چُولیں ہلنے لگتی ہیں، حواس مختل ہونے لگتے ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں کہ جب حالاتِ حاضرہ پر خود کو بے لگام کرتے ہیں تو غالبؔ کے دو مصرعے ملاکر نیا شعر تخلیق کرنے کو جی چاہتا ہے ؎ 
وہ کہیں اور سُنا کرے کوئی 
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی! 
کیمرے اور مائکروفون کے سامنے کوئی جب اپنی ہی رَو میں بہتا ہے تو اِس قدر دور نکل جاتا ہے کہ واپسی محال ہوجاتی ہے۔ اب اگر پوچھیے کہ بھائی، آسان آسان باتیں کیا کرو، اِس قدر مشکل پسندی کیوں اپنائی ہے تو جواب ملتا ہے ع 
اگر آسانیاں ہوں، زندگی دشوار ہوجائے! 
کرنٹ افیئرز کے پروگرام میں لوگ بتیانے کے نام پر ایسی نکتہ آفرینی فرماتے ہیں کہ سُننے والوں کو بات بات پر کرنٹ لگتا ہے اور پھر داد نکلے نہ نکلے، منہ سے اتنا تو نکل ہی جاتا ہے کہ ع 
تم بات کرو ہو کہ ''کمالات‘‘ کرو ہو! 
جسے مِنی اسکرین پر جلوہ گر ہوکر ''زحمتِ کلام‘‘ کی دعوت ملتی ہے وہ موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے دل و دماغ کو نچوڑ کر مخالفین و سامعین ... سبھی کے دانت کھٹّے کرنے پر تُل جاتا ہے! حالات کے تجزیے کی آڑ میں ایسی ایسی لایعنی باتیں کی جاتی ہیں کہ ع 
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا 
والی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے! کسی بھی موضوع پر رائے زنی کرتے ہوئے اس قدر آئیں بائیں شائیں کی جاتی ہے کہ سُننے والے عاجز آ جاتے ہیں۔ پون گھنٹے کی گفتگو سُن کر تجزیہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ بات تو ذرا سی تھی مگر یارانِ ستم پیشہ نے ع 
بڑھادیا ہے فقط زیبِ داستاں کے لیے 
اب اگر کوئی شکوہ سنج ہو کہ جناب، آپ نے دنیا بھر کی باتیں کیں مگر جو کچھ بیان کرنا چاہیے تھا بس وہی بیان نہ کیا تو ''سادگی و پُرکاری، بے خودی و ہُشیاری‘‘ سے مزیّن جواب ملتا ہے ع 
پھر دل میں کیا رہے گا جو حسرت نکل گئی! 
ہر زمانہ اپنے ساتھ کچھ نئے انداز لاتا ہے۔ گزرے ہوئے ادوار کے اطوار اُن ادوار کے پنجرے میں قید رہتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ نئے دور کے نئے اطوار اپنائے جائیں۔ جب کوئی زمانہ گزرتا جاتا ہے تو اُس کی اچھی باتوں کو بھی از کار رفتہ سمجھ کر بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ تیس چالیس سال پہلے گفتگو میں جو شائستگی عام تھی وہ تحریر و تقریر کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی کے ڈراموں اور فلموں میں بھی پائی جاتی تھی۔ وہ زمانہ کیا گیا، شائستگی بھی ساتھ لے گیا۔ اُس دور میں کسی سے قرض کی واپسی کیلئے بھی ویسی زبان استعمال نہیں کی جاتی تھی جیسی اب محبوب سے وصل کے تقاضے کیلئے استعمال کی جاتی ہے! 
زمانہ بدلا ہے تو بولنے کا انداز بھی یوں بدلا ہے کہ پہچانی ہوئی بات بھی پہچانی نہیں جاتی۔ یاروں نے طے کر رکھا ہے کہ بولنے کے نام پر ہر طرح کی مہم جُوئی کر گزریں گے اور شرمندہ بھی نہ ہوں گے۔ ''فن کی بلندی‘‘ یہ ہے کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا شغل جاری ہے مگر کہیں کیچڑ کے درشن نہیں ہو رہے! ع 
ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے! 
ٹی وی پر روزانہ شام کو دُکان سجانے والے اینکرز تو مجبور ہیں کہ اُن کی روزی روٹی یہی ہے مگر خیر، اُن کے لیے حدود و قیود کا تعین کردیا جاتا ہے۔ ہاں، جن مہمانوں کو اسکرین کی زینت بنایا جاتا ہے وہ البتہ باتوں باتوں میں کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں اور پھر اُنہیں اصل موضوع کے کھونٹے تک واپس لانا بے چارے (یا بے چاری) اینکرز کے بس کا معاملہ نہیں رہتا! 
گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے مخالفین کو لتاڑتے وقت کچھ زیادہ ہی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور سائیکل چور کے بعد بھینس چور کہنے کی کوشش میں کچھ اور ہی کہہ گئے! نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بڑی بڑی، زلزلہ برپا کردینے والی باتوں پر بھی ٹس سے مس نہ ہونے والی پیمرا کی غیرت جاگ اٹھی اور متعلقہ چینل کو نوٹس بھیج دیا! 
اب یہ تو کرے کوئی، بھرے کوئی والا معاملہ ہوا۔ کسی بھی چینل کی انتظامیہ اپنے ملازم یعنی اینکر کو پالیسی سمجھاکر کسی خاص حد کا پابند کرسکتی ہے۔ مہمان کی حیثیت سے بیٹھے ہوئے کسی سیاسی رہنما یا حکومتی عہدیدار کو کیسے سمجھایا جائے کہ مخالفین کی کِھنچائی کرتے وقت اُسے کس حد تک جانا ہے، شائستگی کا کتنا خیال رکھنا ہے! سوال کی حد تک تو معاملہ درست ہے مگر جواب بھلا scripted کیسے ہوسکتا ہے؟ اور پھر شائستگی کی بات کی جائے تو اچھی خاصی محنت فی زمانہ شائستگی کا مفہوم متعین کرنے پر کھپانا کرنا پڑے گی! 
مرزا تنقید بیگ بھی اُن پاکستانیوں کی صف میں شامل ہیں جو روزانہ شام کے حسین و دل نشیں لمحات کرنٹ افیئرز کے پروگرامز کی نذر کرکے خود سکون کا سانس لیتے ہیں نہ دوسروں کو لینے دیتے ہیں۔ طلال چوہدری کے ''بھنڈ‘‘ پر اُن کی ماہرانہ رائے یہ تھی کہ مملکتِ خداداد میں اب ایسا بھولا کوئی نہیں کہ بولتے وقت کچھ دھیان ہی نہ رہے! ہم نے وضاحت چاہی تو اُنہوں نے از راہِ تفصیل اپنے اشہبِ گفتار کو یوں بے لگام کیا ''جو کچھ طلال چوہدری کے منہ سے بھینس چور کی آڑ میں نکلا وہ بظاہر ساہ دِلی کی مثال تھا مگر اب ایسی سادہ دِلی از خود واقع ہونے والی بات نہیں۔ ہم بُھوسے میں چنگاری ڈال کر تماشا دیکھنے کے عہد میں جی رہے ہیں۔‘‘ 
گویا جوش و خروش کے عالم میں تُھوک اُڑاتے ہوئے مخالفین کو لتاڑنے والے بھی ایک حد تک ہوش میں ضرور رہتے ہیں اور بہت کچھ دانستہ بھی کہتے ہیں تاکہ اُن کا کہا موضوعِ بحث بنے۔ ع 
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا! 
اب اہمیت اس بات کی نہیں کہ کس نے کیا کہا بلکہ اس بات کی ہے کہ جو کچھ کہا گیا وہ موضوعِ بحث بن سکا یا نہیں، سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کی حیثیت اختیار کرنے میں کامیاب ہوا یا نہیں! سارا زور اِس بات پر ہے کہ کسی نہ کسی طور خبروں، تبصروں اور تجزیوں میں in رہا جائے۔ اِس کوشش میں زبان اگر شائستگی اور شرافت کے دائرے سے out ہوتی ہے تو ہوتی رہے، سُننے والے بے مزا ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved