مقبول سیاسی قیادت سے نجات‘ اسے غیر موثر بنانا یا ''کٹ ٹو سائز‘‘ کرنا ڈکٹیٹرشپ کی فطری ضرورت رہا ہے۔ پاکستان کے پہلے ڈکٹیٹر فیلڈ مارشل ایوب خاں نے اس کے لیے ''ایبڈو‘‘ تخلیق کیا اور اپوزیشن کے مضبوط ترین سیاستدان‘ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے حسین شہید سہروردی سمیت متعدد لیڈر اس کی زد میں آئے۔ ایوب خانی آمریت کے ابتدائی ماہ و سال تھے جب سہروردی صاحب کی اچانک اور پُراسرار موت کی خبر آئی‘ تب وہ بیروت میں تھے۔ اپوزیشن نے ڈکٹیٹرشپ کے خلاف عوامی تحریک کا فیصلہ کیا تھا‘ آغاز ڈھاکہ کے پلٹن میدان سے ہونا تھا‘ نوابزادہ نصراللہ خاں‘ سہروردی صاحب کو لانے کے لیے بیروت پہنچے۔ نوابزادہ صاحب کی ملاقات ابھی نہیں ہو پائی تھی کہ سہروردی اگلے جہاں روانہ ہو گئے۔ جو خود کو مشرقی اور مغربی پاکستان میں اتحاد کی مضبوط ترین کڑی قرار دیتے اور ڈکٹیٹر جنہیں اپنی آمریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا تھا۔
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد بھٹو صاحب کے نئے پاکستان میں بھی اپوزیشن کو بے دست و پا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی‘ لیکن قائد عوام کی قسمت میں جو نیکیاں لکھی تھیں‘ ایوب خاں کے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 1962ء میں ترمیم بھی ان میں ایک تھی‘ سیاستدانوں کو نااہل قرار دینے والی شق کا خاتمہ...۔
پاکستان کی چوتھی فوجی ڈکٹیٹرشپ میں تاریخ پھر خود کو دہرا رہی تھی۔ بے نظیر بھٹو 12 اکتوبر 1999ء کی فوجی کارروائی سے بہت پہلے بیرونِ ملک جا چکی تھیں۔ طیارہ ہائی جیکنگ اور ہیلی کاپٹر کیس میں دو‘ دو بار عمر قید کا سزا یافتہ ''مجرم‘‘ جلا وطن ہونے کے بعد بھی ڈکٹیٹر کے اعصاب پر سوار تھا۔ ادھر اندرون ملک اے آر ڈی کے نام سے اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد تھا‘ نوابزادہ صاحب جیسے جہاندیدہ اور سرد و گرم چشیدہ سیاستدان جس کی قیادت کر رہے تھے۔ انہیں الیکشن سے باہر رکھنے کے لیے ڈکٹیٹر نے گریجوایشن کی شرط عائد کر دی اور نواز شریف والی مسلم لیگ میں نقب لگا کر قاف لیگ نکال لی۔ نواز شریف جلا وطنی کے وقت‘ جاوید ہاشمی کو اپنا جانشین بنا گئے تھے۔ ڈکٹیٹر نے پولیٹیکل پارٹنر ایکٹ میں ترمیم کرکے ''سزا یافتہ‘‘ نواز شریف کو پارٹی کی صدارت کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ بے نظیر بھٹو بھی اس کی زد میں تھیں۔ اکتوبر 2002ء کے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے ''پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کی جگہ مخدوم امین فہیم کی زیر صدارت ''پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز‘‘ وجود میں آ گئی۔ ڈکٹیٹر کہا کرتا‘ نواز شریف اور بے نظیر میری موجودگی میں تو واپس نہیں آ سکتے‘ اندیشہ ہائے دور دراز کے تحت اس نے دو بار سے زائد وزارتِ عظمیٰ پر پابندی عائد کر دی۔ مولانا مودودیؒ کہا کرتے تھے‘ ڈکٹیٹر ان تمام سوراخوں کو بند کرنے کی کوشش کرتا ہے جن سے اس کے پیشرو ڈکٹیٹروں کا زوال داخل ہوا تھا‘ لیکن اس دوران کئی نئے شگاف پیدا ہو جاتے ہیں‘ جن سے خود اس کا زوال در آتا ہے۔ پاکستان کے چوتھے ڈکٹیٹر کے زوال کے دن بھی آ گئے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اُسی کے دور میں واپس آ گئے۔ بے نظیر قتل کر دی گئیں۔ وطن واپسی کے ساڑھے پانچ سال بعد نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بن گئے۔ پھر 28 جولائی 2017ء کو تھرڈ ٹائم پرائم منسٹر قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل قرار پایا اور ساتھ ہی پرائم منسٹر شپ بھی ختم۔
2008ء میں شروع ہونے والے نئے جمہوری دور میں ڈکٹیٹر کے دور کی بیشتر آمرانہ شقیں ختم کر دی گئیں۔ ان میں گریجوایشن کی شرط بھی تھی اور تھرڈ ٹائم پرائم منسٹر والی شرط بھی۔ سترہویں آئینی ترمیم میں دیئے گئے صدارتی اختیارات 18ویں ترمیم میں ختم کر دیئے گئے۔ ان میں سروس چیفس اور گورنروں کے تقرر کے علاوہ حکومت اور اسمبلی کو برطرف کرنے کا صوابدیدی اختیار بھی تھا۔ ڈکٹیٹر کے دور کی ایک شق باقی تھی‘ پارٹی عہدے کے لیے بھی وہی شرائط جو سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی کی رکنیت کے لیے لازم تھیں۔ 28 جولائی کو وزارتِ عظمیٰ کے لیے نااہلی کے بعد نواز شریف قانونی طور پر مسلم لیگ نون کی صدارت کے اہل بھی نہیں رہے تھے۔ بھٹو صاحب کا پولیٹیکل پارٹنر ایکٹ 27 سال رو بہ عمل رہا تھا۔ وہ لاہور ہائیکورٹ سے قتل کے مجرم قرار پانے کے بعد بھی سزائے موت پر عملدرآمد تک (ایک سال سے زائد عرصہ) پارٹی کے چیئرمین رہے۔ سرحد کے اُس پار ''دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ میں اندرا گاندھی الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر وزارتِ عظمیٰ سے دستبردار ہوئیں لیکن کانگریس (آئی) کی صدر رہیں۔ اپنے ہاں نوابزادہ نصراللہ خاں گریجوایٹ نہ ہونے کے باعث پارلیمنٹ کی ممبرشپ کے اہل نہ تھے‘ لیکن اپنی پارٹی کے صدر رہے۔
نان گریجوایٹ ہونے کا معاملہ جنابِ زرداری کا بھی تھا۔ لیکن محترمہ کے لیے قرآن خوانی کے موقع پر ان کی جس وصیت کا انکشاف ہوا‘ اس میں وہ زرداری صاحب کو پارٹی کا عبوری چیئرمین مقرر کر گئی تھیں۔ جنابِ زرداری یہ منصب بلاول کے سپرد کر کے خود ''کو چیئرمین‘‘ ہو گئے۔ (تب بلاول بھی اپنی کم عمری کے باعث رکن پارلیمنٹ بننے کے اہل نہ تھے) جناب زرداری کی نظر پاکستان کی صدارت پر تھی‘ جس کیلئے پارلیمنٹ کی رکنیت کا اہل ہونا ضروری تھا۔ ایوانِ صدر تک زرداری صاحب کی راہ ہموار کرنے کے لیے گریجوایشن کی شرط ختم کر دی گئی۔
کینیڈا والے ''قائد انقلاب‘‘ اپنی دوہری شہریت کے باعث پارلیمنٹ کی رکنیت (اور اپنی سیاسی جماعت کی سربراہی) کے اہل نہیں۔ کراچی کے قاضی زاہد نامی کوئی صاحب پاکستان عوامی تحریک کے (کاغذی) صدر ہیں لیکن عملاً تمام اختیارات ''قائد انقلاب‘‘ کے پاس ہیں۔ اور خود سابق ڈکٹیٹر کی اپنی مثال‘ مئی 2013ء کے انتخابات کے لیے اس کے کاغذات نامزدگی مسترد کرتے ہوئے عدالت میں اسے تاحیات نااہل قرار دے دیا تھا‘ لیکن اس کے بعد بھی خود اپنے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وہ اپنی خانہ ساز جماعت کا سربراہ رہا۔
28 جولائی کے فیصلے پر عملدرآمد میں معزول وزیر اعظم نے لمحہ بھر تاخیر نہ کی۔ الیکشن کمشن سے نااہلی کے نوٹیفکیشن کے اجراء سے قبل ہی وہ پرائم منسٹر ہائوس سے پنجاب ہائوس منتقل ہو گئے تھے۔ وہ پارٹی کی صدارت سے بھی سبکدوش ہو گئے جس کے بعد سردار یعقوب خاں ناصر ان کے قائم مقام تھے۔ وہ چاہتے تو رسمی عہدے کے بغیر بھی پارٹی کی ''قیادت‘‘ پر فائز رہتے۔ (ہندوستان میں گاندھی جی کانگریس کے ''دو آنے کے ممبر‘‘ بھی نہ تھے) لیکن انہوں نے ''قانون کے ساتھ کھلواڑ‘‘ کے بجائے سیدھا اور شریفانہ راستہ اختیار کیا۔ ڈکٹیٹر کی آخری ''یادگار‘‘ کے خاتمے کا فیصلہ‘ بھٹو کے 1975/76ء والے قانون کی بحالی اور اس کے لیے آئینی طریقہ کار کے مطابق قانون میں ترمیم۔ ماہرین قانون میں بعض کا خیال تھا کہ ترمیم کے بعد انہیں دوبارہ صدر منتخب ہونے کی ضرورت نہیں‘ ان کی گزشتہ صدارت ہی بحال ہو گئی تھی‘ لیکن انہوں نے پارٹی کی جنرل کونسل سے دوبارہ منتخب ہونے کا صاف شفاف راستہ اختیار کیا۔ 3 اکتوبر کی سہ پہر وہ اپنی جماعت کے دوبارہ صدر منتخب ہو گئے‘ جو وفاق‘ پنجاب اور بلوچستان کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی برسر اقتدار ہے۔
اس حوالے سے بعض ناقدین کا تبصرہ دلچسپ ہے‘ انہیں اس سارے عمل کے آئینی و قانونی ہونے سے انکار نہیں‘ لیکن وہ ''اخلاقی‘‘ لحاظ سے اسے مناسب نہیں سمجھتے۔ سیاسی مخالفین اسے Person Specific قرار دیتے ہیں‘ لیکن تھرڈ ٹائم پرائم منسٹر والا معاملہ بھی تو Person Specific تھا۔ ڈکٹیٹر کے اس قانون کا اصل ہدف نواز شریف (اور محترمہ بے بظیر بھٹو) تھے۔ ڈکٹیٹر کے دور کے تمام ناپسندیدہ قوانین ختم ہو گئے تھے۔ اب یہ آخری قانون بھی (آئینی و قانونی طریق کار کے ساتھ) اختتام کو پہنچا تو اس پر اعتراض کا کیا جواز؟ اور یہ اداروں کے ساتھ تصادم والی بات بھی خوب ہے‘ نواز شریف نے آئینی و قانونی راستہ اختیار کیا تو اس میں اداروں سے تصادم کیسا؟ میرا نہیں خیال کہ ادارے اس معاملے میں فریق ہیں اور وہ کسی بھی صورت نواز شریف کی واپسی روکنے کے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔
سپریم کورٹ میں عمران خان کا کیس آخری مرحلے میں ہے۔ گزشتہ روز جناب چیف جسٹس کے ریمارکس تھے کہ یہ کیس بھی ''پاناما‘‘ کے ساتھ سننا چاہیے تھا کہ اس میں اور ''پاناما‘‘ میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ خدا نہ کرے کہ خان قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے نااہل قرار پائیں‘ لیکن اگر ایسا ہوا تو یہ نیا قانون ان کے کام بھی آئے گا‘ اور وہ پی ٹی آئی کی صدارت کے اہل رہیں گے۔