تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     06-10-2017

کہاں قائداورکہاں … ؟

قیادت کے موضوع پر گنگو تیلی نے ''زیت العقل‘‘ میں بھگو کر یہ ارشاد فرمایا تھا۔ 
علامہ اقبال رخصت ہوئے۔ قائد اعظم بے وقت تشریف لے گئے۔ لیاقت علی خان کو بے رحم سازشیوں نے مار ڈالا اور پرسوں سے گنگو رام جی کو بھی زکام ہے۔
قائد اعظم ثانی نااہل کیا ہوئے ترقی کی منازل پر چھلانگیں مارتے جا رہے ہیں۔ ملک کی آخری عدالت سے ڈبل نااہلی کے بعد موصوف نے دو عدد مزید ریکارڈ توڑ کامیابیاں وصول کر لیں۔ 
پہلی کامیابی ن سے نااہل کو نون کا صدر بنانے والی۔ اور دوسری کھڑکی توڑ کامیابی نااہلی والے عدالتی فیصلے کو ''الیکٹورل ریفارمز‘‘ کہہ کر بلڈوز کرنے والی۔
قائد اعظم کا پاکستان واپس لانے کے لیے قائد اعظم ثانی سے بڑا دعوے دار صرف قائد اعظم لاثانی ہی ہو سکتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں قائد اعظم نے 23 مارچ 1940ء کے دن پاکستان بنانے کی بنیادی وجہ یوں ارشاد فرمائی:
''ہم مسلمان ہر لحاظ سے ہندوئوں سے مختلف ہیں۔ ہمارا کلچر، ہماری ثقافت، ہمارا رہن سہن، ہمارا کھانا پینا، ہماری تاریخ، ہماری اقدار، ہمارا معاشرہ اُن سے بالکل مختلف اور الگ ہے۔ ہم الگ قوم ہیں‘‘۔ 
قائد اعظم کا پاکستان قائد اعظم ثانی کے الفاظ میں سال 2011ء میں 13 اگست کے دن یہ ہے:
''ہم ہندو، مسلمان ایک ہی قوم ہیں۔ جس رب کو بھارتی پوجتے اسی کو ہم پوجتے ہیں۔ ہمارا کلچر، ہمارا بیک گرائونڈ، ہمارا رہن سہن، ہمارا کھانا پینا، سب ایک جیسا ہے، درمیان بس ایک لکیر (سرحد) آ گئی‘‘۔
قائد اعظم ثانی نے جو لاثانی ٹیم بنا رکھی ہے‘ اس کے خارجی وزیر نے 28 ستمبر 2017ء کے دن امریکہ بہادر کے چرنوں میں بیٹھ کر قائد اعظم کے پاکستان کے بارے میں یہ شریفانہ پلان پیش کیا:
''ہندو اور مسلمان ایک ہی تنے کی دو شاخیں ہیں۔ ہمارا خمیر ایک ہی ہے، درمیان میں ایک لکیر (سرحد) لگا دی گئی ہے، ہم ایک جیسے لوگ تھے۔ ''ہمیں الگ کرنے والوں نے‘‘ دو الگ الگ ملک بنا دیے‘‘۔ 
جس طرح کا سلوک بانیِ پا کستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے پاکستان کے ساتھ اوپر مذکور مالی مجاوروں نے اپنے بیانوں کے ذریعے کیا‘ بالکل ویسا ہی سلوک مختلف مذہبی عقیدت کے ایام پر مصورِ پاکستان حضرت علامہ اقبال کے اشعار سے ہو رہا ہے۔ جسے شک ہو وہ پچھلے 10 دن کی شاعری‘ جو کسی ستم گر نے علامہ صاحب کے نام پر اپنے اصولی مؤقف کے حوالے سے پھیلائی ہے‘ دیکھ لے۔ سوشل میڈیا پر علامہ اقبال کے یہ اشعار فکر سے عاری، خیال سے محروم اور پہلوانوں جیسا وزن رکھتے ہیں۔ بے اعتبار ٹانگیں، بھاری بھرکم پیٹ، لٹکے ہوئے کندھے اور پھولی ہوئی گردن۔ ایسے میں قائد اعظم ثانی کی وہ تقریر سُننے کے قابل ہے جس میں موصوف نے جشنِ نااہلی سے یومِ نجات مناتے وقت الم نشرح کیا۔ خطاب 3 ایکٹ پر مشتمل تھا۔ پہلا ایکٹ ٹریجڈی والا‘ جس میں نااہل وزیرِ اعظم نے کہا: میرا دل دُکھا ہوا ہے۔ جس شخص کی حفاظت کے لیے سرکاری پٹرول پر چلنے والی بم پروف گاڑیاں‘ 24 گھنٹے 200 سے زیادہ فُل ٹائم باڈی گارڈ، پنجاب کے غریبوں کے خرچے پر چلنے والے پنجاب ہائوس میں مفت کی روٹیاں‘ منجی بسترا اور بہت کچھ‘ جس کو بیان کرنے سے قلم کترا رہا ہے‘ اندرونِ مُلک لمبے چوڑے محلات اور سات سمندر پار آسمان کو ہاتھ لگاتے ہوئے ٹاورز ہوں‘ اس کا دل پھر کس بات پہ رنجور ہے؟ جنابِ والا! آپ کی نااہلی کو سلام۔ آپ اتنے اہل نکلے کہ اگلی 500 نسلوں کے لیے مُلک تا مُلک اور بینک تا بینک اپنے اہل ہونے کے جنگلے اور سریے گاڑ دیے۔ نااہل وزیر اعظم کی تقریر کا دوسرا پہلو بلا تبصرہ جانے دیتے ہیں۔ میرے خیال میں نااہل وزیرِ اعظم نے پہلی بار قوم کو بہترین مفت مشورہ عطیہ کیا ہے۔ نااہلی کے بارے میں 4 مصرعے ان کی اپنی زُبان سے سُن لیں۔
دل بغض و حسد سے رنجور نہ کر
یہ نورِ خُدا ہے اسے بے نور نہ کر
نااہل و کمینے کی خوشامد سے اگر
جنت بھی ملے تجھے تو منظور نہ کر
اس فرمانِ نااہلی پر داد نہ دینا بڑی بخیلی ہو گی۔ خاص طور پر نااہل کی خوشامد کرکے عہدے لینے والوں کے ساتھ۔ ہاں البتہ ایک قانونی نکتہ وضاحت مانگتا ہے۔ نااہل کا لفظ آئینی اور پارلیمانی طور پر تسلیم شدہ ہے۔ لیکن کسی کمینے کی خوشامد ابھی تک نہ آئینی طور پر منع ہے اور نہ ہی پارلیمانی ڈکشنری میں شامل۔ لہٰذا بہتر یہ ہو گا کہ نااہل وزیرِ اعظم نے یہ شعر جن کے لیے پڑھا ہے وہی اس پر لب کُشائی کریں یا خامہ فرسائی۔ مصورِ پاکستان نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا‘ اس میں میگا ٹھیکے یقینا نہیں تھے۔ اور بانیِ پاکستان نے جو پا کستان بنا کر ہم سب کے حوالے کیا‘ اس میں حُکمرانی بر وزنِ ذاتی کاروبار کا کوئی دخل نہ تھا۔ اس لیے کہ جمہوریت لوگوں کی حُکمرانی، لوگوں کے ذریعے اور لوگوں کے واسطے ہوتی ہے۔ اور لوگ یا عوام کی جتنی بھی فراخ دلی سے تشریح کر لیں‘ اس میں با پ بیٹا، دادا پوتا، بھا جی چھوٹو، سالا بہنوئی، سُسر داماد، ماں بیٹی، بھانجا ماموں، سمدھی سمدھی سمیت ان 36 رشتوں کو شامل نہیں کیا جا سکتا‘ جو نااہل جمہوریت کے بُنیادی ستون ہیں‘ تو ایسے میں وہ کون سا خفیہ نظام ہے جس کے ذریعے پچھلے 36 سال سے قائدِ اعظم ثانی قائدِ اعظم کا پاکستان تراشتے چلے آئے۔ لیکن ہر بار خفیہ طاقتیں نااہل وزیرِ اعظم کو قائدِ اعظم ثانی کے پاکستان پر خوشحالی کا لینٹر ڈالنے سے روک دیتی ہیں۔ اسی لیے بے چارے نااہل وزیرِ اعظم کو زکام ہو جاتا ہے۔60 سال کی عُمر کے بعد سینئر سٹیزن پر گرنے والے نزلے اور گنگو تیلی برانڈ زکام کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے فَلو سے بچنے کا حفاظتی ٹیکہ۔ قائدِ اعظم ثانی کی تازہ تیاریاں بتاتی ہیں کہ وہ حفاظتی ٹیکے کی تلاش میں ہیں۔ آپ اسے فونڈری والا نہیں عام سا اتفاق سمجھ لیں کہ فَلو سے بچانے والی ویکسین کا ٹیکہ ڈاکٹر لوگ دائمی نزلے کے مریضوں کو اکتوبر میں ہی لگاتے ہیں۔ اس پر اضافی اتفاق ہے کہ یہ اکتوبر کا مہینہ ہے۔ میں جان بوجھ کر 12 اکتوبر 1999ء کا ذکر نہیں کرتا۔ قلم اس قدر محتاط ہے کہ وہ 27اکتوبر 1956ء کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہ رہا۔ اس کی ایک وجہ علم الاعداد کہہ لیں۔ اس موسمی زُکام اور دائمی نزلے کے مُسلسل واقعات کا نمبر2 نہیں بلکہ 3 بنتا ہے۔ غا لباً اسی علم کی بنیاد پر نااہل وزیرِ اعظم نے 3 اداروں میں پہلے کولڈ سٹارٹ، پھر سرجیکل سٹرائیک اور اب گھمسان کی جنگ کا اعلان کر رکھا۔ لیکن اس گھمسان میں چند سرکاری مُلازموں، معدودے چند مُشیروں اور لا نگریوں کے علاوہ کوئی لشکری دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتا۔ ویسے ہی جیسے انگریزی میں غصہ خارج کرنے والے داخلی امور کے وزیر کا استعفیٰ۔ استعفے کے اعلان میں بھی 3 کا عدد موجود رہا۔ وزیر شذیر نے استعفے کی پہلی ڈیڈ لا ئن 3 گھنٹے رکھی۔ پھر استعفے کو خود ہی60 منٹ کا گریس پیریڈ دے دیا۔ ان 60 منٹ میں بھی 3 کا ہندسہ پھر وارد ہوا۔ اسی طر ح ڈار احتساب ٹرائل، شریف احتساب ٹرائل اور حُدیبیہ احتساب کیس 3 ایسے لینڈ مارک ہیں، جنھوں نے 2 سمدھیوں اور ایک خادم اعلیٰ سمیت ہر 3 کو گھیر رکھا ہے۔
دوسری طرف رہا فادر آف دی نیشن کا پا کستان‘ جس کی حکومت اس کا وارث بننے سے انکاری ہے۔ ایل او سی پر شہادتیں، راجگال پر حملے۔ بیرونی قرض کے بڑھتے ہوئے منحوس سائے۔300 روپے کلو ٹماٹر۔ ہر روز ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے ملازمت کی انڈسٹری میں داخل ہونے والے بے روزگار۔ یہ گنگو تیلی کا مسئلہ نہیں۔ گنگو رام جی کو دائمی نزلہ تڑپا رہا ہے۔ نہ گرتا ہے‘ نہ جان چھوڑتا ہے۔60 سے اوپر کی عُمر کو سٹھیا جانا بھی کہتے ہیں۔ لیکن قائدِ اعظم ثانی نے اپنے ہی قائد اعظم لاثانی کو شاعری میں جو مات دی اسے مکرر ارشاد کے طور پر پڑھ لینے میں قندِ مُکرر کا مزا ہے۔ آئیے قائدِ اعظم ثانی اور لاثانی کے نئے پاکستان میں اجتماعی لُطف لیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved