کچھ مدت سے قوم عجیب الجھن میں ہے۔ ہم سیاست کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ سیاست کا ذکر ہو تو ہم ''کچھ مدت‘‘ کی بات کیوں کہیں گے؟ یہ عذاب تو قوم سات عشروں سے جھیل رہی ہے۔ اہلِ سیاست بھی غضب ڈھاتے رہتے ہیں مگر کچھ مدت سے اشیائے صرف ہمیں صرف کرنے پر تُلی ہوئی ہیں۔ روزمرہ استعمال کی اشیاء کا معاملہ حدِ امکان سے دور ہوتا جارہا ہے۔
چند ماہ سے عام سی سبزیاں بھی قیامت ڈھانے پر تُلی ہوئی ہیں۔ گوشت پہلے ہی بہت مہنگا تھا (اور مزید مہنگا ہوتا جارہا ہے) جس کے باعث گھریلو بجٹ کا غیر متوازن رہنا حیرت کی بات نہیں۔ رہی سہی کسر سبزیوں کو میدان میں لاکر پوری کردی گئی ہے۔ پیٹ بھرنے میں کام آنے والی سبزیاں پیٹ پر لات مار رہی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ تمام سبزیوں کو زحمت دینے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر عوام کو پریشان ہی کرنا مقصود تھا تو اُن کے سَروں پر کدّو برسا دینا ہی کافی تھا! بھنڈی، گوار پھلی، بینگن، اروی اور آلو پیاز جیسی ذرا ذرا سی اشیاء ہماری بے بسی کا تمسخر تو نہ اُڑا رہی ہوتیں!
کسی بھی صارف معاشرے میں جو کچھ ہوسکتا ہے وہی کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ عشروں کے عمل یعنی مشق نے پاکستان کو خالص صارف معاشرے میں تبدیل کیا ہے۔ لوگ اب ذہن کو زحمت دیئے بغیر خرچ کرتے رہنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ خرچ کرتے رہنے کی عادت نے معاملات کو خطرناک، بلکہ تباہ کن حد تک بگاڑ دیا ہے اور مشکل یہ ہے کہ کوئی ایک معاملہ بھی درست ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
موازنہ کرنے سے دل کو سکون ملتا ہے۔ بعض ممالک میں سبزیاں بہت سستی ہیں۔ گندم، دال، چاول وغیرہ کے نرخ بھی کنٹرول میں ہیں مگر ہم محض دو تین معاملات میں موازنہ کرکے سُکون کا سانس نہیں لے سکتے۔ ہر ملک کے اپنے حالات ہوتے ہیں۔ اگر چند ایک چیزیں سستی ہوتی ہیں تو دوسری بہت سی چیزیں مہنگی ہوتی ہیں۔ چند ایک خدمات کم قیمت پر میسر ہوتی ہیں تو دیگر بہت سی خدمات کے ذریعے عوام کی جیب خالی کرنے کا خوب اہتمام کیا جاتا ہے۔ اگر کسی ملک میں پھل بہت مہنگے ہیں تو ہم اپنے ملک میں پھلوں کے سستے ہونے پر سُکھ کا سانس نہیں لے سکتے کیونکہ وہاں بہت کچھ سستا بھی ہوگا، حکومت سہولتیں بھی دیتی ہوگی۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ نرخ گرنے پر کسی چیز کو ٹھکانے تو لگادیا جاتا ہے، عوام کو کم نرخوں پر فراہم نہیں کیا جاتا!
چیزوں کو مہنگا کرتے رہنے کا ایک اچھا بہانہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کی کمی بیشی کی صورت میں ہاتھ لگا ہے۔ اگر پیٹرول کے نرخ دو یا تین روپے فی لیٹر بڑھادیئے جائیں تو کئی چیزیں خواہ مخواہ مہنگی کردی جاتی ہیں مگر جب پٹرولیم مصنوعات کے نرخ نیچے آجاتے ہیں تب اشیائے صرف کے نرخ نیچے نہیں آتے۔ یعنی ٹرینڈ یہ ہے کہ جو کچھ ایک بار مہنگا ہوجائے اُسے ہمیشہ کے لیے مہنگا رہنے دیا جائے۔ اور پھر اِسی مناسبت سے سب اپنی اپنی اشیاء و خدمات کے نرخ بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ سب ایک دوسرے کی جیب پر ڈاکے ڈال رہے ہیں اور کوئی بھی اس بات کے لیے تیار نہیں کہ اُسے اس معاملے میں کسی سے کمتر تصور کیا جائے!
ایک زمانے سے پاکستانی معاشرے کی روش یہ ہے کہ وسائل اور سکت سے کہیں آگے جاکر زندگی بسر کی جائے۔ لوگ جو معیارِ زندگی اپنانا چاہتے ہیں یا جسے اپنانے کے لیے بے تاب و بے قرار رہتے ہیں اُس سے مطابقت رکھنے والی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں نہ محنت کرنے سے کچھ لگاؤ ہے۔ خواہشات سے مطابقت رکھنے والی صلاحیت و سکت کا نہ ہونا زندگی کو عدم توازن سے دوچار کرتا ہے۔ آج بیشتر پاکستانی یہی چاہتے ہیں کہ صلاحیت اور سکت ہو یا نہ ہو، کسی نہ کسی طور اپنی ہر خواہش کو پروان چڑھاکر حقیقت کا روپ دیا جائے۔ ہر خواہش کے آگے سجدہ ریز ہونے کی روش نے ہمیں بہت سے معاملات میں غیر ضروری شدت اور عدم توازن کا اسیر بنادیا ہے۔ اب حال یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اُسے پانے کی تمنا کرتے ہیں۔ جو چیز اچھی لگے اُسے زندگی کا حصہ بنانے کے لیے ہم انتہائے بے صبرے اور اُتاؤلے ہو جاتے ہیں۔ اور اِس اُتاؤلے پن ہی کے نتیجے میں کنزیومر اِزم پروان چڑھتے چڑھتے ہمارے سَروں پر سوار ہوگیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اشیاء و خدمات کے حصول اور اُنہیں صرف کرنے کی روش نے ہمیں آمدن اور اخراجات کے توازن کے اعتبار سے بند گلی میں پہنچادیا ہے۔ اِس بند گلی میں پہنچ کر ہمارے اجتماعی حواس مختل ہوچکے ہیں اور کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ اب یہاں سے کیسے نکلیں، ایسا کیا کریں جو ہماری زندگی کو راہِ راست پر ڈالے۔
دو عشروں کے دوران عالمی سطح پر ٹیکنالوجی میں غیر معمولی پیش رفت نے ہمیں بھی انتہائی متاثر کیا ہے۔ ''انتہائی‘‘ اِس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے موزوں ترین لفظ ہے کیونکہ ہم سوچے سمجھے بغیر ہر معاملے میں انتہا کو پہنچ گئے ہیں اور وہاں سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ موبائل فون ہی کی مثال لیجیے۔ پاکستانیوں کی اکثریت ضرورت اور عدم ضرورت کی بحث میں پڑے بغیر موبائل فون کی اِس قدر عادی ہوچکی ہے کہ بہت سے دوسرے اہم معاملات سرد خانے کی نذر ہوکر رہ گئے ہیں۔ کنزیومر اِزم کا یہی تو ''کمال‘‘ ہے کہ اِس کے شکنجے میں پھنسا ہوا انسان اہم ترین معاملات کو بالائے طاق رکھ کر اُن تمام معاملات کو حرزِ جاں بنائے رکھتا ہے جن سے زندگی میں برائے نام بھی معنویت پیدا نہیں ہوتی۔
دو وقت کی روٹی کا اہتمام ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہم دن رات محنت اِسی لیے تو کرتے ہیں کہ اچھا کھائیں، جسم و جاں کا رشتہ ڈھنگ سے برقرار رکھیں۔ مگر اِس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بہت سے دوسرے معاملات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی معاملے کے لیے کسی اور معاملے کو مکمل طور پر بالائے طاق رکھنا دانش مندی کی علامت نہیں۔ ہوش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سوچے سمجھے بغیر زیادہ سے زیادہ کمانے اور پھر ذہن کو زحمتِ کار دیئے بغیر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی ذہنیت کے جال سے نکلیں۔ زندگی کو معنویت درکار ہے۔ معنویت توازن سے پیدا ہوتی ہے۔ اشیائے خور و نوش کا اہتمام لازم ہے مگر اِن کے حصول کی خاطر دیوانگی اختیار کرنا کسی بھی طور درست ہے نہ لازم۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا ہماری بنیادی ضرورت سہی مگر کسی کو اِس بات کی ذہنیت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ ہمارا پیٹ بھرنے کے نام پر زندگی ہی کو کھوکھلا کرنے پر تُل جائے! زندگی کی کوئی بھی بنیادی ضرورت اپنی جگہ اٹل حقیقت سہی، مگر دوسری حقیقتوں کو نظر انداز کرکے ہم متوازن رہ سکتے ہیں نہ خوش حال۔
کنزیومر اِزم کی جس بند گلی میں ہم پھنسے ہوئے ہیں اُس سے نکلنا اِس وقت ہماری انتہائی بنیادی ضرورت ہے۔ ہم نے آمدن اور اخراجات کے درمیان عدم توازن پیدا کرکے اپنے سامنے جو دیوار کھڑی کی ہے وہ بہت مضبوط ہے۔ اِس دیوار کو توڑنا، گرانا لازم ہے۔ اِس دیوار سے سَر ٹکرانا مسئلے کا حل نہیں۔ اگر دیوار کو گرانا آسان نہ ہو تو اُس میں دَر کرکے نکلنے کی سبیل کی جاسکتی ہے۔ اِس وقت ہمیں یہی کرنا ہے۔