تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     07-10-2017

بحران کا حل ناگزیر

اب تو روایتی بے عقلوں پر بھی عیاں ہو گا کہ زیادہ دیر حالات ایسے نہیں چل سکتے۔ مملکت بحرانی کیفیت میں ہے، حکومت ہے بھی اور نہیں بھی۔ ایک ایس ایچ او کی اپنے تھانے میں زیادہ اتھارٹی ہو گی بہ نسبت وزیر اعظم کے اپنے دائرہ اختیار میں۔ وزراء ہیں تو ملک کے خلاف ہی ایف آئی آر کٹاتے پھر رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم ہیں تو ان کے دل میں سلگتی آگ بتاتی ہے کہ قومی بحران ٹلنے کی بجائے مزید گہرا اور گمبھیر ہو تاکہ کہا جا سکے کہ اُن کے بغیر کچھ ممکن نہیں۔ احتساب عدالتیں ہیں تو کچھوے کی رفتار سے سست۔
انقلا ب کی بات ہم بڑی کرتے ہیں حتیٰ کہ میاں نواز شریف بھی وقتی جوش میں انقلاب کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ فرانسیسی اور روسی انقلاب کے بارے میں بیشتر پاکستانیوں کی معلومات زیادہ نہ ہوں گی۔ ایرانی انقلاب سے ہی ہم کچھ سیکھ لیں۔ انقلاب کے بعد وہاں جب عدالتیں سجیں تو کارروائی اگر صبح شروع ہوتی تو شام تک فیصلہ آ جاتا اور ایویآن جیل میں رات گئے اس پر عمل درآمد بھی ہو جاتا۔ ہمارے قوانین ایسے بنے ہیں کہ اُن کا مقصد ہی تاخیر لگتا ہے۔ انصاف کیا آیا، آتا ہی نہیں اور وہ رہنما جن کا شمار دنیا کے کرپٹ ترین حکمرانوں میں ہوتا ہو‘ قوم کو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے درس دیتے تھکتے نہیں۔ پاناما پیپرز کہیں اور افشاء ہوتے تو کب کا قصہ تمام ہو گیا ہوتا۔ یہاں پر ڈیڑھ سال بیتنے کو ہیں، تفتیش بھی ہوئی اور فیصلے بھی آئے لیکن کٹہرے میں کھڑے مجرم قوم سے پوچھتے ہیں 'مجھے کیوں نکالا؟‘
اور کچھ نہ ہوتا تو جاتی عمراء کے گرد ہزار کی تعداد سے زائد حفاظت پہ مامور پولیس اہلکار ہی ہٹا لئے جاتے۔ اس کی بجائے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال نااہل وزیر اعظم کے حوالے سے اب بھی جاری ہے۔ پنجاب ہاؤس اسلام آباد پر تو مستقل قبضہ لگتا ہے۔ یہ تماشا بھی جاری ہے کہ کٹھ پتلی وزیر اعظم اپنا، پنجاب کی حکمرانی اپنی اور قومی اداروں کو للکار بھی یہیں سے۔ ن لیگ خود دو خیالوں میں بٹی ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے گرد ٹولہ محاذ آرائی سے پرہیز چاہتا ہے۔ نواز شریف کے گرد نعرہ باز جذبات اُبھارنے پہ تُلے ہوئے ہیں۔ نہ صرف محاذ آرائی کے خواہاں ہیں بلکہ اس سے بھی آگے‘ ان کی باتوں سے پتا چلتا ہے کہ ان کے ارمان تب ٹھنڈے ہوں گے جب ملکی حالات میں مزید افراتفری پیدا ہو۔
یہ کیفیت زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ کوئی ملک کمزوری اورکنفیوژن کا متحمل نہیں ہوتا۔ ہمارے مسائل ہی اور نوعیت کے ہیں۔ یہاں کنفیوژن کی ماری حکمرانی کی قطعاً گنجائش نہیں۔ اس صورتحال کا واحد حل فوری انتخابات ہیں۔ پر کون کرائے گا؟ کٹھ پتلی وزیر اعظم تو خود سے یہ فیصلہ کرنے سے رہے اور نواز شریف کے مفاد میں نہیں کہ قومی اسمبلی تحلیل ہو اور نئے انتخابات منعقد ہوں۔ وہ تو بحران کی شدت میں اضافے کے متمنی لگتے ہیں۔
کسی کو یہ اقدام کرنا پڑے گا۔ 1917ء میں روسی انقلاب کے بعد جب روس کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس منعقد ہوا تو لینن نہیں چاہتے تھے کہ یہ اسمبلی وجود میں رہے۔ بے معنی تقریروں کے قائل نہ تھے۔ طاقت اُن کے ہاتھوں میں آ چکی تھی اور بجائے کھوکھلی بحث و مباحث کے اُس طاقت کو استعمال کرنا چاہتے تھے۔ شام ڈھلے اسمبلی کے گرد متعین محافظوں نے سپیکر کو پیغام پہنچایا کہ وہ تھک چکے ہیں (The guard is tired) اور اسمبلی کے دروازے بند کرنا چاہتے ہیں۔ ممبران مجبوراً باہر آئے اور آئین ساز اسمبلی تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو گئی۔ اگلے روز سابق وزیر اعظم ظفراللہ جمالی نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی دلی آرزو ہے کہ اُن کی موت سے پہلے (وہ خاصے علیل ہیں) موجودہ بیکار اسمبلیوں کی موت واقع ہو۔ انہوں نے یہ کہا تو ہال میں سناٹا چھا گیا۔
موجودہ بحران کا ایک ہی حل ہے کہ کٹھ پتلی وزیر اعظم کو دن کے اُجالے کی بجائے رات کے اندھیرے میں سمجھایا جائے کہ ملکی مفاد میں قومی اسمبلی کا تحلیل ہونا ضروری ہے۔ سمجھایا اس اندازے سے جائے کہ بات کی گہرائی کو ٹال نہ سکیں اور صبح ہوتے ہی سمجھائی گئی بات پر عمل پیرا ہوں۔ قومی اسمبلی تحلیل ٹھہرے اور عبوری حکومت معرضِ وجود میں آئے۔ اگلے روز ہی تعلیم بالغاں کے دوسرے سبق کے طور پر چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کو مشورہ دیا جائے کہ وہ بھی اپنی اپنی اسمبلیاں تحلیل کریں۔ یہ صائب مشورہ متعلقہ کور کمانڈرز بہتر طریقے سے دے سکتے ہیں۔ اہم مسئلہ پنجاب کا ہو گا لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ جب لاہور کے نئے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض قومی مفاد کے تقاضے وزیر اعلیٰ کے سامنے رکھیں تو دلائل کی طاقت خادم اعلیٰ جھٹلا نہ سکیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان فوجی مشوروں کو ویسے ہی بہت اہمیت دیتے ہیں۔ عمران خان کا مطالبہ بھی نئے انتخابات کی طرف ہے۔ لہٰذا پشاور میں فیصلہ سازی کا مسئلہ پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ آصف علی زرداری عملیت پسند انسان ہیں۔ ہوا کا رُخ بہتر سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ غلطی کی‘ جب فوج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ پھر کبھی ایسی غلطی نہ دہرائی۔ اس لئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ قومی مفاد کے تقاضوں کو سمجھنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔
البتہ اِس مَشق کے لئے ضروری ہے کہ عبوری وزیر اعظم کوئی خاقان عباسی جیسا ڈمی نما نہ ہو۔ دَم خم رکھنے والا شخص ہو، ایسا شخص جو اتھارٹی کا استعمال جانتا ہو۔ جو آتے ہی حکومتی کل پرزوں کو اپنے تابع کر سکے اور عبوری عرصے میں فیصلہ کن اقدام سے نہ ہچکچائے۔ جنرل راحیل شریف کی شروع کی کامیابیوں میں دو جرنیلوں کا کردار اہم تھا: ایک جنرل اشفاق ندیم جو تب چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ دوئم‘ جنرل عامر ریاض‘ حال کور کمانڈر لاہور‘ جو تب ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز تھے۔ عسکری حلقوں میں کہا جاتا تھا کہ جنرل راحیل شریف کے پیچھے ان دو جرنیلوں پہ مشتمل تھنک ٹینک ہے۔ عامر ریاض حاضر سروس جرنیل ہیں۔ ان کے مشوروں سے خادم اعلیٰ پنجاب نے مستفید ہونا ہے۔ جنرل اشفاق ندیم ریٹائر ہو چکے ہیں۔ تقریباً تمام عسکری حلقے بشمول جنرل قمر جاوید باجوہ اس بات پہ متفق ہیں کہ جنرل اشفاق ندیم کامیاب جنرل رہے۔ شاید موجودہ بحران کا تقاضا ہو کہ عبوری حکومت کی سربراہی اُن کو سونپی جائے۔ ایسا ہو تو مفلوج زدہ حکومتی مشینری میں ایک دم جان آ جائے اور الیکشنوں تک عبوری حکومت کا دور پاکستان کی تاریخ میں شاید یاد رکھا جائے۔
ملک اور قوم کی خوش قسمتی ہے کہ صدر ممنون حسین سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ان تمام اقدامات کو نہ صرف بخوشی قبول کریں بلکہ نئے سیٹ اپ کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازیں۔ پیرِکامل کا درجہ انہوں نے متعدد حلقوں میں پہلے ہی پا لیا ہے۔ جب بیشتر قوم پاناما پیپرز کی اہمیت سے ناآشنا تھی تو انہوں نے پیش گوئی کی کہ یہ قہر آسمانوں سے اُترا ہے اور بڑے بڑے لوگ اس کی زد میں آئیں گے۔ یہ تقدیر کے فیصلے ہوتے ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ وہ صدر پاکستان ہوں گے اور کون کہہ سکتا ہے کہ اُن کے مزید عروج کے دن ابھی باقی نہیں۔
ڈھیل بہت ہو چکی۔ قانونی اور آئینی مباحث بہت ہو چکے۔ وقت آن پہنچا ہے عملی اقداما ت کا، اقبال کی شاعری کو نہ صرف پڑھنے بلکہ اس پر عمل کرنے کا۔ کہاں ہیں وہ چٹانیں، کہاں وہ شاہین اور لہو گرم رکھنے کے بہانے؟ یقینا آئین میں رہتے ہوئے سب کچھ ہونا چاہیے۔ مشورے اور قائل کرنا اور بات ہے اور یہ سب آئین میں رہتے ہوئے ہو سکتا ہے۔ چیئرمین ماؤ کے قول کو دہرانے کی ضرورت نہیں کہ طاقت بندوق کی نالی سے بہتی ہے۔ بندوق کا کمال ہے کہ مشورے جب وہاں سے آئیں تو پُراثر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ نوبت نہ آتی اگر سیاستدان کچھ ڈھنگ کے ہوتے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved