تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     07-10-2017

دائرے

تاریخ بتاتی ہے کہ اداروں اور سیاستدانوں کی لڑائی میں فتح مند کوئی نہیں ہوتا بس ملک کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ پاکستان میں اہلیت، نااہلیت، مقدمے، احتساب جیسی تمام اصطلاحیں لغتِ غریب سے نکل نکل کر سیاستدانوں پر چسپاں ہوتی رہی ہیں‘ مگر یہ لوگ پھر کسی نہ کسی طرح راستہ بنا کر اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں اور اختیار کی جہدوجہد میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ سازش، متوازی حکومت، ریاست کے اندر ریاست جیسی پھبتیاں قابل احترام اداروں پر کسی جاتی ہیں مگر یہ بھی اپنے حال میں مگن اور کام کی دھن میں کبھی بڑے بڑے طوفانوں کو پیالیوں میں محدود کر ڈالتے ہیں اور کبھی مارگلہ کے اُس پار پھینک دیتے ہیں۔ نجانے کیوں سیاستدانوںکو یہ سمجھ نہیں آتی کہ تنہا ان کی امنگیں ایک وفاقی ریاست کو بدلنے کے لیے کافی نہیں، اور نجانے کیوں اداروں کو سمجھ نہیں آتی کہ صرف ان کی پیشہ ورانہ فراست ہی پاکستان جیسے پیچیدہ ملک کے مسائل کا واحد حل نہیں۔ دنیا بھر کے جمہوری ملک ریاستی نظام سے متعلق جو معاملات دہائیوں پہلے طے کر چکے ہیں‘ وہ ہمارے ہاں دہائیاں گزرنے کے بعد وہیں کے وہیں ہیں۔ ساٹھ برس پہلے حسین شہید سہروردی اپنی نااہلی کو اہلیت میں بدلنے کے لیے دہائی دے رہے تھے۔ آج نواز شریف اپنی نااہلی کو اہلیت میں بدلنے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔ باسٹھ برس پہلے مولوی تمیزالدین خان عدالت سے مقننہ کی برتری مانگ رہے تھے، آج پھر مقننہ اپنی طاقت منوانے کے درپے ہے۔ پینسٹھ برس پہلے جمہوریت کے خلاف سازش کے بارے میںجو سرگوشیاں شروع ہوئی تھیں وہ آج بھی جاری ہیں۔انیس سو ستتر میں بھی کوئی فوج کو ملک بچانے کی آواز دے رہا تھا آج بھی دے رہا ہے۔ یہ دائرے کا سفر ہے، جہا ں سے آغاز ہوتا ہے وہیں ختم ہوتا ہے اور جہاں ختم ہوتا ہے وہیں سے شروع ہوجاتا ہے۔ 
اس دائرے کے سفر کا آغاز گورنرجنرل غلام محمد نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی توڑ کر کیا۔ جب یہ معاملہ عدالت میں پہنچا تو قانون و دستوری روایات کو چھوڑ کر جسٹس منیر نے کسی گمنام کتاب میں دیے گئے نظریہ ضرورت کی پیروی کی اور یوں عدلیہ پاکستان میں طاقت کے ڈھانچے کی اہم فریق بن کر ابھری جبکہ سیاستدان کمزورترین فریق کے طور پر انیس سو اٹھاون تک حصے دار بنے رہے۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء کے ذریعے اس کمزور ترین فریق کو بھی گھر بھیج دیا تو پھر اگلے گیارہ سال انہوں نے خود کو مقتدر منوانے کے لیے خرچ کیے۔ گیارہ سالوں کی رسہ کشی میں آدھا ملک ہاتھ سے نکل گیا مگر اقتدار بڑی حد تک سیاستدانوں کے پاس واپس آگیا اور ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بن گئے۔ انہوں نے دستور کے ذریعے عدلیہ کو اتنا کمزور کردیا کہ اس سے یہ توقع ہی نہ رہی کہ وہ کسی بڑے فیصلے کے ذریعے اپنا تحکم قائم کرسکے۔ اپنی عوامی مقبولیت کے زور پر انہوں نے فوج کا اثر بھی اتنا کم کردیا کہ یوں لگنے لگا جیسے اب پاکستان میں جو کچھ بھی ہوگا پارلیمنٹ کے ذریعے ہو گا۔ بھٹو نہیں جانتے تھے کہ وہ دائرے میں سفر کررہے ہیں ۔ انیس سو ستتر میں حالات اسی جگہ پہنچ گئے جہاں انیس سو اٹھاون میں تھے۔ ایک بار پھر مارشل لگا ، عدلیہ اتنی طاقتور ہوگئی کہ اس نے بڑی سہولت سے بھٹو کو پھانسی چڑھانے کا فیصلہ کرلیا اور سیاستدان ایک بار پھر کھیل سے باہر ہوگئے۔ 
جنرل ضیاء الحق بندوق کے زور پر حکومت کرتے رہے اور اس دوران بھی سیاستدان اپنی کھوئی ہوئی طاقت کی بحالی میں لگے رہے۔ گیارہ سال بعد جنرل صاحب بھٹو کی طرح غیر فطری موت کا شکار ہوئے تو سیاست کے میدان میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی صورت میں نئے کھلاڑی آچکے تھے۔ یہ دونوں اتنے کمزور تھے کہ ان کی آدھی توانائی سرپرستی حاصل کرنے میں باقی آدھی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے میں خرچ ہوجاتی تھی۔ اسی دورِ سیاست میں پہلی بار پاکستانی سیاست اخلاقی حوالوں سے بھی کمزور ہوگئی۔ پارٹی بدلنے یا اپنی وفاداری قائم رکھنے کے لیے معاوضہ طلب کرنے کی روایت اسی دور میں پڑی ۔ پھر جنرل ضیاء الحق نے اسمبلی توڑنے کا اختیار صدر کو دے کر سازشی ماحول کو جو دوام بخشا تھا اس نے بھی سیاست کو برباد کیے رکھا۔ بہت کچھ تباہ کرکے ان دونوں سیاستدانوں نے سمجھ لیا کہ ان کی بقا انیس سو تہتر کے اصل دستور کی بحالی میں پوشیدہ ہے، سو وزیراعظم نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی مدد سے صدر سے اسمبلی توڑنے کا اختیار اور اسمبلیوں کے اراکین سے پارٹی بدل لینے کا اختیار چھین کر اسٹیبلشمنٹ کو انیس سو تہتر کی صورتحال میں پہنچا دیا۔ اس وقت نواز شریف بھی بھٹو کی طرح فراموش کرگئے کہ وہ دائرے میں سفر کررہے ہیں۔ ان کے ساتھ وہی ہوا جو پاکستان میں ہوا کرتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آگئے اور نواز شریف طیارہ اغوا کرنے کے کیس میں سلاخوں کے پیچھے پہنچ گئے۔ دائرہ مکمل ہوگیا، سفر پھر سے شروع ہوگیا۔
جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو سیاست سے باہر رکھنے کا ہر ممکن جتن کیا۔ اس کے لیے انہوں نے احتساب کے زور پر ق لیگ بنائی، پھر اسی ہتھیار سے پیپلزپارٹی کو توڑا اور آرام سے حکومت کرتے رہے۔ ہمیشہ کی طرح سیاستدان پھر سے اپنا کھویا ہوا اقتدار تلاش کرنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور آخرکار میثاقِ جمہوریت کرکے اٹھے۔ پرویز مشرف نے عدلیہ کا احتساب کرنا چاہا تو ساری سیاسی قوتیں عدلیہ کے ساتھ جا کھڑی ہوئیں اور جنرل صاحب کمزور ہوتے چلے گئے۔ جمہوریت کی اس جدوجہد میں بے نظیر بھٹو جان ہار گئیں اور کسی بھی سیاسی عہدے کے لیے نااہل قرار دیے گئے نواز شریف جلاوطنی کاٹ کر واپس آگئے۔ آمریت کا دائرہ مکمل ہو ااور جمہوری دائرے میں سفر کا آغاز ہوا تو پھر صدر سے اسمبلی توڑنے کا اختیار واپس لیا گیا، دستور کے رخنے بند کیے گئے، صوبوں کو بااختیار بنایا گیااور یوں لگا معاملات آگے کی طرف بڑھنے لگے ہیں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی نااہلی نے بتایا کہ نہیں، معاملات آگے نہیں بڑھے بلکہ وہیں کے وہیں ہیں ۔ یہ معلوم کرنا کہ مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ کی حدود کہاں سے کہاں تک ہیں ، مشکل سے مشکل ہوتا چلا گیا۔ جو بات تندوتیز ریمارکس سے شروع ہوئی تھی وہ ایک وزیراعظم کی نااہلی سے ہوتی ہوئی دوسرے وزیراعظم کی نااہلی تک آن پہنچی۔ دستورکے تحت وزیراعظم پر اسمبلی کا اعتماد بے معنی ہوگیا اور تشریحات کی روشنی میں اس کی اہلیت ہی حکومت کا مدار ٹھہری۔ یوسف رضا گیلانی اور ان کی جماعت نے ان کی نااہلی برداشت کرلی مگر نواز شریف اور ان کی جماعت نااہلی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ نواز شریف خود پر لگے اس داغ کو دھونے کے لیے ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہوچکے ہیں۔ 
پہلے قدم کے طور پر اٹھائیس جولائی کے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں مکمل اور تاعمرنااہل ہونے والے نواز شریف قانون کو بدل دینے کے بعدکم ازکم اپنی جماعت کے سربراہ بننے کے اہل ہوچکے ہیں۔اس طرح جہاں اپنی پارٹی کے اندر آئندہ قیادت کے حوالے سے ہونے والی بحث ختم کردی ہے وہاں اپنی پارلیمانی طاقت پر بھی اختیار حاصل کرلیا ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جو آئندہ احتساب قوانین میں تبدیلی اور دستور میں ترمیم کرنے کے لیے ان کے کام آئے گی۔وہ جس راستے پر چل پڑے ہیں اس کا اگلا سنگ میل احتساب قوانین میں تبدیلی ہے اور آخری منزل دستور میں ترمیم۔احتساب قوانین میں تبدیلی نواز شریف کو احتساب عدالت سے نجات دلا دے گی اور دستور میں ترمیم انہیں ایک بار پھر وزارت عظمیٰ کے لیے اہل بنا دے گی۔نواز شریف اپنی دانست میں اپنے خلاف سازش ناکام بنا دیں گے لیکن انہیں منظر سے ہٹانے کے خواہش مند کوئی نیا منصوبہ لے آئیں گے اور پاکستان ایک بار پھر اسی دائرے کاسفر شروع کردے گا جس کا آغاز ہی اس کا انجام ہے۔ دائرے کے اس سفر میں کوئی نہیں جیتے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved