بہت سوں نے طے کر رکھا ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ایسا کر گزریں گے کہ دنیا دیکھے اور شرمندہ ہو۔ یعنی اُنہوں نے دوسروں کو شرمندہ کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہوتا ہے یا بیڑا اُٹھا رکھا ہوتا ہے۔ بہار کے راج کمار نے بھی شاید کچھ ایسی ہی ذہنیت پائی ہے۔ موصوف 98 سال کے ہیں اور اب بھی سُکون کا سانس نہیں لے رہے یا شاید اب سُکون کا سانس لے لیا ہو۔ خبر یہ ہے کہ اِن بزرگ نے عمر کی سینچری مکمل کرنے کے لیے چَھکّا دے مارا ہے۔ ''نروس نائنٹی‘‘ سے جان چُھڑانے کے لیے راج کمار صاحب نے ایک سُپر ہٹ لگائی ہے یعنی ایم اے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
راج کمار صاحب نے بہار کی نالندہ اوپن یونیورسٹی سے معاشیات کے مضمون میں سیکنڈ ڈویژن میں ایم اے کیا ہے۔ وہ اس بات پر بہت خوش ہیں کہ زندگی بھر محض گریجویٹ رہے مگر اب پوسٹ گریجویٹ کہلائیں گے!
ہم جب بھی اِس قسم کی کوئی خبر پڑھتے ہیں فوراً مرزا تنقید بیگ کے گھر کا رُخ کرتے ہیں تاکہ تھوڑی ہی دیر کے لیے سہی، اُنہیں شرمندہ تو کریں، وہ (اپنے) گریبان میں جھانکنے پر مجبور تو ہوں! مگر مرزا بھی ایک ڈھیٹ ہڈّی ہیں۔ اُنہوں نے بھی شاید قسم کھا رکھی ہے کہ کسی بھی کام کی بات کا کوئی اثر قبول نہیں کریں گے! ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مرزا کی تعلیم بس واجبی سی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ طویل مدت تک سرکاری نوکری کیسے کر پاتے! ایک تو یہ بات ہے کہ مرزا زیادہ پڑھ نہیں سکے اور جو کسر رہ گئی تھی وہ سرکاری دفتر کے خالص علم مخالف ماحول نے پوری کردی! علم کے حوالے سے بے سر و سامانی کچھ اِس انداز سے دو آتشہ ہوئی کہ مرزا کو مزید پڑھنے پر مائل کرنا تو کیا، یہ سمجھانا بھی انتہائی دشوار ہوگیا کہ معقول حد تک پڑھے لکھے ہونے کا کوئی فائدہ بھی ہے!
جب ہم نے مرزا کو راج کمار صاحب کے بارے میں بتایا تو وہ چند لمحات کے لیے دم بخود رہ گئے۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ ہم سمجھے وہ شاید اپنی علمی کم مائیگی کو یاد کرکے کچھ پچھتاوا محسوس کر رہے ہیں۔ مگر معاملہ کچھ اور ہی نکلا۔ مرزا نے کہا ''پاکستان اور ہندوستان کا معاشرہ کیسا ہی گیا گزرا سہی، بزرگوں کا تھوڑا بہت احترام ضرور باقی ہے۔ لوگ کسی بھی بزرگ کو تکلیف دینے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ ایسے میں راج کمار صاحب کو بھلا کیا ضرورت پڑی تھی کہ اِس عمر میں اپنے آپ کو اس قدر تکلیف دی!‘‘
ہم نے یاد دلایا کہ راج کمار صاحب کو اس بات کی زیادہ خوشی ہے کہ اب وہ محض گریجویٹ نہیں بلکہ پوسٹ گریجویٹ ہیں۔ مرزا بولے ''آدمی موقع اور محل تو دیکھے۔ پوتوں اور نواسوں کو پوسٹ گریجویشن کی منزل سے گزرتے دیکھنے کی عمر میں موصوف کو اپنی پڑی ہے۔ اب جبکہ اس دنیا سے 'پوسٹنگ‘ کی منزل قریب آئی ہے تو راج کمار صاحب کو مہا راجا بننے کی سُوجھی ہے یعنی پوسٹ گریجویٹ کہلوانے میں مسرّت محسوس کر رہے ہیں۔ اب سارے رشتہ دار متوجہ ہوں اور اُنہیں روکیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح ہمارے ہاں بہت سے لوگ قبر میں پیر لٹکائے تیسری، چوتھی شادی کا سوچتے رہتے ہیں بالکل اُسی طرح راج کمار صاحب اپنے سورگ باشی پِتا کو یاد کرکے چِتا کو ہاتھ لگاتے ہوئے پی ایچ ڈی کرنے کی ٹھان لیں! کیا پتا اُن کے دل میں یہ آرزو بھی پنپ رہی ہو کہ پوسٹ گریجویٹ تو کہلائیں گے ہی، مرتے مرتے نام کے ساتھ 'ڈاکٹر‘ کا دُم چَھلّا بھی لگوا لیا جائے!‘‘
ہم نے کہا یہ تو اچھی مثال ہے کہ کوئی اِتنی عمر میں بھی پڑھنے لکھنے کی طرف مائل ہے۔ نئی نسل کو راج کمار صاحب سے کچھ نہ کچھ تحریک تو پانی ہی چاہیے، کچھ نہ کچھ تو سیکھنا ہی چاہیے۔
مرزا آگ بگولہ ہوگئے اور بھڑکتے ہوئے بولے ''ارے کیا خاک سیکھنا چاہیے؟ کیا پاکستان اور کیا بھارت، دونوں ہی معاشروں میں مزے اُن کے ہیں جو کم پڑھے لکھے رہ جاتے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں تم نے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہوں گی۔‘‘ اتنا کہہ کر مرزا نے ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے اُنہیں تقریباً گھورتے ہوئے کہا بالکل درست فرمایا آپ نے! یہ سن کر مرزا ایک آدھ لمحے کے لیے جھینپ گئے مگر پھر سنبھل گئے اور تعلیم و تعلّم کے خلاف دل کی بھڑاس نکالنے کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے بولے ''اِتنی عمر میں انسان کو ایک طرف بیٹھ کر اپنی زندگی بھر کی کمائی یعنی فکر و عمل کا حساب کرنا چاہیے۔ راج کمار صاحب بہار کے ہیں۔ اِسی بہار میں گوتم بُدھ کو برگد کے درخت کے سائے تلے گیان دھیان کی حالت میں بیٹھ رہنے پر 'نروان‘ عطا ہوا تھا۔ راج کمار صاحب کو بھی گوتم بُدھ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کسی درخت کے نیچے آلتی پالتی مار کر دُھونی رماتے ہوئے دھیان کی حالت اختیار کرنی چاہیے تھی تاکہ زندگی کی شب کا آخری پہر سُکون سے مزیّن ہو۔ 98 سال کی عمر میں کتاب، کاپی، قلم ... یہ سب جی کا جنجال ہے۔‘‘
ہم سن رہے تھے اور مرزا بولے جارہے تھے ''راج کمار صاحب کو اِتنی بڑی عمر میں ایم اے کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ،یہ بات ہم اب تک سمجھ نہیں پائے۔ لوگ پچاس ساٹھ سال کے ہوتے ہیں تو زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کے لیے درکار حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں۔ اور ستر پچھتر سال کے ہوتے ہوتے تو وہ اَدھ موئے ہوچکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں راج کمار صاحب نے 98 سال کی عمر میں ایم اے کرکے پتا نہیں کیا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ارے بھئی جب ایم اے کیے بغیر اِتنا لمبا جی چکے تھے تو اب اِس تکلّف کی کیا ضرورت تھی! کیا یقین نہیں تھا کہ ایم کیے بغیر وہ مزید جی سکیں گے! پاکستان اور بھارت دونوں کی سیاسی اور معاشی ہی نہیں، اخلاقی حالت بھی یکساں ہے۔ ہمارے ہاں کم پڑھے لکھے یا بالکل ان پڑھ رہ جانے والے خوش حالی کی دوڑ میں کہیں سے کہیں جا نکلتے ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ یکسر ناخواندہ و جاہل جس طرح 'ترقی‘ کرتے ہیں اُسے دیکھ کر پڑھے لکھے اپنا سا منہ لے کر نہیں رہ جاتے بلکہ اپنی اسناد پر لعنت بھیجتے ہوئے آرزو کرتے ہیں کہ ناخواندگی و جہالت لَوٹ آئے! سرحد کے اُس طرف بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ وہاں بھی جو جتنا کم پڑھا لکھا ہے وہ اُتنا ہی زیادہ با اثر، مالدار اور صاحبِ توقیر ہے۔ بھارت میں ایم اے کیا، پی ایچ ڈی کرنے والے بھی سڑکیں ناپتے پھرتے ہیں اور چپڑاسی کی اسامی کا اعلان ہو تو درخواست گزاروں میں پی ایچ ڈی کی سند رکھنے والے بھی دکھائی دیتے ہیں! ایسے میں راج کمار صاحب نے اِس بڑی عمر میں اپنے آپ کو، بظاہر، ناحق تکلیف دی۔‘‘
ہمیں یقین تھا کہ مرزا دوسرے بہت سے مواقع کی طرح اِس موقع پر بھی اپنی علمی کم مائیگی پر پردہ ڈالنے کے لیے راج کمار صاحب کو ''خراج ِتحسین‘‘ پیش کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ اور یہی ہوا۔ مگر خیر، آپ بے مزا نہ ہوں۔ راج کمار صاحب نے ہم سب کے لیے ایک مثال پیش کی ہے کہ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ اور یہ بات بھی کہ جو کچھ سیکھنا ہے اُسے عمل کی دنیا میں آزمانے کا وقت نہ بچا ہو تب بھی سیکھنے میں کوئی حرج نہیں! جس عمر میں لوگ باتھ روم تک جانے کے لیے بھی دوسروں کی مدد کے محتاج ہوتے ہیں اُس عمر میں راج کمار صاحب نے ایم اے کرکے اُنہیں آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے جو ہاتھ پیر سلامت ہوتے ہوئے بھی جہالت یا کم علمی کو بہترین آپشن کی حیثیت سے حرزِ جاں بنائے رکھتے ہیں!