تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     07-10-2017

آخری کوشش

جب میں غور کرتا ہوں کہ میرے اردگرد کیا ہورہا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ایک مکمل منصوبے کے تحت ہم سب کو کام کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا گیا ہے ۔ گزشتہ چند کالموں میں ، میں نے یہ لکھا تھا کہ ہم کیا کھا رہے ہیں اور کس طرزِ زندگی کے ہم عادی ہو چکے ہیں ۔ ہم وہ چیزیں کھارہے ہیں ، جن میں غذائیت سرے سے ہے ہی نہیں اور جوتیس کے پیٹے میں ہی ہمیں موٹاپے اور بیماریوں کی طرف لے جاتی ہے ۔ برگر، تلے ہوئے آلو، مایونیز ، بیکری آئٹمز ، کولڈ ڈرنکس ، چینی اور میدہ ۔ ہمارے معاشرے میں، بالخصوص پنجاب میں بڑھا ہوا پیٹ طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ پرانی فلموں کے ہیرو دیکھ لیں ۔ شاید ہی کوئی ایسا نظر آئے جس کا پیٹ بھرپور باہر نکلا ہوا نہ ہو اور ایک کی جگہ دو ٹھوڑیاں نہ ہوں ، جس کا پیٹ اندر ہو ، اسے تو شریف مسکین بندہ کہا جاتا اور اس پر پھبتیاں کسی جاتی تھیں ۔ 100، 110کلو سے کم کا ہیرو قابلِ قبول ہی نہ تھا ۔ اب ہماری زندگیوں میں یہ خوراک شامل ہو گئی ، جس کے بعد ہر گلی کوچے میں پرانی فلموں کے یہ ہیرو نظر آرہے ہیں ۔جسمانی کام کاج مکمل طور پر ختم ہو گیا۔فٹ بال اور دوسرے کھیل اگر بہت کم رہ گئے تو اس کی وجہ یہ ماڈرن طرزِ زندگی ہے۔اس کا سب سے بڑا مظہروہ سمارٹ موبائل فون اور لیپ ٹاپ ہیں ، جن میں ہمارے بچّے دن رات مگن رہتے ہیں ۔ 1سال کی عمر میں ہی وہ سمارٹ فون سے کھیلناشروع کر دیتے ۔اس کے بعد وہ اس قابل ہی نہیں رہ جاتے کہ موبائل سے باہر کی دنیا سے اپنا رابطہ برقرار رکھ سکیں ۔ وہ گیمز کھیلتے رہتے ہیں ، بھارت سے بنے ہوئے ہندی کارٹون دیکھتے رہتے ہیں ۔ آہستہ آہستہ ان کی زبان تبدیل ہو تی جاتی ہے ۔ آخر ایک دن وہ آپ کو کہتے ہیں ''بابا آج بڑی پرم پرا ہو گئی‘‘ یا ''دعا کریں ، میری اِچھا پوری ہو جائے ‘‘ انسان حیرت سے دیکھتا رہ جاتا ہے کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے ۔بھارت کے بعد اب پاکستانی لڑکیاں برائے نام لباس میں ''آئٹم سانگ ‘‘ پر ناچتی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ ہمارے بچّے ہمارے ساتھ بیٹھ کر یہ سب دیکھتے ہیں ۔ 13، 14سال کی عمر میں انہیں بلوغت سے گزرنا ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اگر وہ مکمل طور پر بگڑ نہ جائیں تو اور کیا ہو ؟ 
پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ خود ہمارے پاس اتنا وقت کہا ں کہ اپنے بچوں میں پیدا ہونے والی ان تبدیلیوں پر غور کریں ۔ ہماری اپنی زندگیاں مکمل طور پر بدل چکی ہیں ۔ فیس بک ، واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا ایپلی کیشنز نے بے مقصد چیزوں میں ہمیں اس قدرمگن کردیا ہے کہ ہم توجہ سے کام کرنے کے قابل ہی نہیں رہے۔ ایک بار دانتوں کی صفائی کے لیے ایک کلینک جانا ہوا۔ جو ہیلپر عمر رسیدہ ڈاکٹر کی مدد کر رہی تھی ، اسے آلات پکڑا رہی تھی ، اس کے گائو ن کی دونوں جیبوں میں ایک ایک موبائل تھا ۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ کام کے دوران، اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران ان دونوں موبائل فونز پرپیغامات کے جواب دے رہی تھی ۔ کسی ایک شخص کا نہیں ، ہم سب کا حال یہی ہے ۔ ہم سب کو جو وڈیوسبق آموز لگتی ہے یا جس جس لطیفے پر ہمیں ہنسی آتی ہے، وہ ہم اپنے سب واٹس ایپ contactsکو ارسال کرنا نہیں بھولتے ۔یوں پورا دن پیغامات موصول ہوتے اور بھیجے جاتے ہیں ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ دورانِ ڈرائیونگ ہم یہ ایپلی کیشنز دھڑلے سے استعمال کرتے ہیں ۔ ہمارے سر 
مستقل طور پر سامنے کی طرف کچھ نیچے جھکے رہتے ہیں ۔ لیپ ٹاپ کر کام کریں تو فیس بک کام سے فرار کا ایک عمدہ راستہ ہے ۔ جیسے ہی کوئی توجہ طلب کام شروع کریں ، جس میں ذہنی ارتکاز ضروری ہو، ساتھ ہی دماغ فیس بک کی شکل میں راہِ فرار اختیار کرتا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ سے زیادہ ہم اپنی توجہ برقرار نہیں رکھ سکتے ۔ ان حالات میں کون سا سائنسدان کوئی نئی ایجاد کرے گا ۔ سائنسدانوں کو چھوڑیے، ہمارے کتنے فیصد کام درست طور پر اور اعلیٰ معیار کے مطابق تکمیل پاتے ہیں ؟اگر آپ نے فیس بک اور واٹس ایپ مسنجرز بھی انسٹال کر رکھے ہیں تو پھر آپ کا اللہ ہی حافظ ہے ۔ قیمتی وقت ضائع ہو تا جا رہا ہے ۔ وہ قیمتی وقت ، جو غور و فکر میں صرف ہو سکتا تھا اور وہ قیمتی وقت جو خام سے کندن بننے میں صرف ہو سکتا تھا ۔ ایک بار پھر غور کیجیے ، قیمتی وقت ضائع ہوتا جا رہا ہے ۔ بار بار اس بات کو دہرائیے ''قیمتی وقت ضائع ہوتا جارہا ہے ‘‘۔
گاڑی چلاتے ہوئے ، کلاس میں لیکچر سنتے ہوئے ، بچوں کو سکول کا کام کراتے ہوئے اور کھاناکھاتے ہوئے ، یہ سمارٹ فون اور اس میں موجود سوشل میڈیا ایپلی کیشنز میری زندگی کا وہ حصہ بن چکی ہیں، چاہتے ہوئے بھی میں جس سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا۔ میں گھڑی کی ٹک ٹک سن سکتا ہوں لیکن کچھ کرنے سے قاصر ہوں ۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں اپنی مرضی کی زندگی نہیں گزار رہا ۔ میرا زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر لوگوں کو اپنی ذات میں موجود کمالات کا یقین دلاتے ہوئے گزرتا ہے۔ ریاکاری میری زندگی کا ایک نہ الگ ہونے والا حصہ بن چکی ہے ۔لیکن کب تک ؟ کیا میں اس دنیا میں فیس بک اور واٹس ایپ کے تماشے سے لطف اندوز ہونے آیا تھا یا اپنے بچوں کو ہندی تہذیب و تمدن اوڑھتے دیکھنے آیا تھا ۔ کیا سوشل میڈیا کی یہ دنیا کھیل تماشا نہیں ؟کیا میری حالت اس بچّے کی سی نہیں ، جسے گھر سے سودا سلف لانے بھیجا گیا تھا اور وہ رک کر میلہ دیکھنے لگا۔ اب بار بار اسے یاد آتا ہے کہ گھر والے انتظار کر رہے ہیں ۔ وہ جانا چاہتا ہے لیکن جا نہیں سکتا؛حتیٰ کہ وہ ان پیسوں کو میلے ہی میں خرچ کر دیتا ہے ۔میلہ ختم ہو چکا اور اب خالی ہاتھ گھر جاتے ہوئے اسے ڈر لگتا ہے ۔ ایک دفعہ یاد تو کیجیے کہ آخر میں جان خدا کو دینی ہے ، مارک زکربرگ کو نہیں ۔ 
آئیے اب ایک ایسا موبائل فون خریدیں ، جسے ultra power savingموڈ پر لگا کر callاور messagingکے علاوہ ہم اس کی سب ایپلی کیشنز بند کر دیا کریں ۔ کم از کم کام کے وقت ۔ دن میں ایک گھنٹہ اپنے بچّوں کو فٹ بال کھیلنا سکھائیں ۔ شام کو ایک گھنٹہ تیز واک کریں اور دوڑ لگائیں ۔ 24گھنٹوں میں سے پندرہ منٹ غور وفکر کے لیے بھی رکھیں۔ کچھ وقت مطالعے اور عبادت کے لیے ۔ آئیے تیراکی کرنا سیکھیں ۔ آئیے سائیکل چلائیںاور کراٹے سیکھیں ۔ آئیے ایک فہرست بنائیں اور اپنے پاس لکھ کر رکھ لیں کہ کون سی چیزیں جسم کے لیے مفید ہیں اور کون سی مضر ۔ آئیے اپنے بڑھے ہوئے پیٹوں کے خلاف اعلانِ جنگ کریں ۔ اس سے پہلے کہ یہ ہمارے دلوں کو ناکارہ کر دیں اور نسوں کو تنگ ۔ اس سے پہلے کہ ہم مکمل طور پر ناکارہ ہو جائیں ، ایک دفعہ اس خوبصورت Digitalجال کو توڑنے کی کوشش کریں ۔ اس سازش کو سمجھنے کی کوکشش کریں ، جس کے تحت ہمیں مکمل طور پر ناکردہ کار بنا دیا گیا ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved