آج جب مَیں سوشل میڈیا پر نظر دوڑاتا ہوں، تو الیکٹرانک میڈیا، 'اولیا اللہ‘ کا اوطاق دکھائی دیتا ہے، جب الیکٹرانک میڈیا کو سوشل میڈیا سے الگ کر کے دیکھتا ہوں تو پرنٹ میڈیا کی قدرومنزلت کہیں بڑھ جاتی ہے... اور جب سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کو ایک طرف رکھ کر صرف پرنٹ میڈیا سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھئے کہ الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا کے مقابلے میں، اور پرنٹ میڈیا الیکٹرانک میڈیا کے مقابلے میں بڑے ذمہ دار قرار دیے جا سکتے ہیں، لیکن اگر انہیں الگ الگ دیکھا، سُنا یا پڑھا جائے تو بے ساختہ زبان پر آتا ہے کہ یہ درد سر ایسا ہے کہ سر جائے تو جائے درد نہ جائے۔
سوشل میڈیا کی ڈھیر ساری خوبیوں اور تمام تر برق رفتاری کے باوجود اسے پبلک ٹائلٹ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔ کچھ معلوم نہیں ہو پاتا کہ پیغام بر کون ہے، کہاں بیٹھا ہوا ہے، اور اس نے جو نام اختیار کر رکھا ہے وہ اصلی ہے یا جعلی... نئی دہلی، واشنگٹن اور تل ابیب میں بیٹھ کر بھی الفاظ کے تیر کراچی، لاہور اور اسلام آباد پر برسائے جا سکتے، اور قلب و جگر میں پیوست کیے جا سکتے ہیں۔ ایف آئی اے یا کوئی اور تفتیشی ادارہ ایڑی چوٹی کا زور لگائے تو نشاندہی ہو سکتی ہے، اور پیغام رساں تک قانون کا ہاتھ بھی پہنچ سکتا ہے، لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے (یا ہو سکتا ہے)... سوشل میڈیا کو مختلف ممالک کے خفیہ ادارے بھی دھڑلے سے استعمال کرتے ہیں، اور اپنے اپنے اہداف کے بارے میں وہ وہ کچھ لکھتے یا لکھواتے پائے جاتے ہیں کہ الحفیظ و الامان... ہر وہ الزام اور دشنام جسے کوئی شخص اپنے نام سے منسوب کرنے پر خفت محسوس کرتا ہے، اور اسے انسانیت سے گری ہوئی حرکت سمجھتا ہے، ٹویٹر یا فیس بُک کی نقاب اوڑھ کر اسے بلا تکلف سنایا، پھیلایا اور دہرایا جا سکتا ہے... جس طرح رات کی تاریکی میں نقاب اوڑھ کر ڈاکہ مارنے والا اِردگرد سے بے نیاز اپنے آپ میں محو ہوتا ہے، اسی طرح سوشل میڈیا کا صارف بھی اپنے اور اپنے ہدف کے کپڑے جس تعداد اور جس مقدار میں چاہے، اتار کر باچھیں کھلا اور کلکاریاں مار سکتا ہے۔ میری عادت ہے کہ سوشل میڈیا سے معلومات حاصل کرنے کے لئے اسے استعمال کرتا ہوں، کسی بحث میں پڑنے سے حتی الوسع اجتناب نہ صرف خود کرتا ہوں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتا رہتا ہوں۔ اگر آپ کسی بحث میں اُلجھے تو پھر طرح طرح کی مغلظات سننے کے لئے آمادہ و تیار رہنا ہو گا۔
الیکٹرانک میڈیا میں ہر بولنے والے کی آواز سنائی دیتی اور تصویر بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا ایک ایک لفظ ریکارڈ ہوتا، اور اسے ریگولیٹ کرنے والے ادارے ''پیمرا‘‘ کی فائلوں سے چپک جاتا ہے۔ انٹرنیٹ پر بھی کئی ادارے لفظوں اور تصویروں کو محفوظ کرنے پر رضاکارانہ یا غیر رضاکارانہ مصروف ہیں۔ وسیع لائبریریاں فضائوں میں تیرتی پھر رہی ہیں، اور جس پروگرام کو آپ جب چاہیں بادشاہوں کی طرح تالی بجا (یعنی بٹن دبا) کر طلب کر سکتے ہیں۔ یہاں مشقِ سخن فرمانے والوں میں سے بہت سے لاکھوں کماتے، اور لاکھوں اڑاتے ہیں۔ پروگرام کی ریٹنگ اینکر کی قدر و قیمت متعین کرتی ہے، اور آسمان سے لے کر زمین تک کہیں بھی پائوں ٹکائے جا سکتے ہیں۔ ایک ضابطہ اخلاق موجود ہے، اور پیمرا نامی ادارے کو اسے نافذ کرنے کی قانونی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے۔ ضابطہ ٔ اخلاق کی خلاف ورزی کی پاداش میں یہ اینکر کے خلاف بھی کارروائی کر سکتا ہے اور انتظامیہ کے خلاف بھی۔ لیکن یہ اختیار فائلوں میں دب کر رہ گیا ہے، جہاں کوئی پروانہ جاری ہوتا ہے، کسی نہ کسی عدالت کی طرف سے حکم امتناعی موصول ہو جاتا ہے، اور آزادیٔ اظہار کی قے بلکہ اسہال جاری رہتے ہیں۔ لفظوں کے انتخاب میں کسی احتیاط کی ضرورت سمجھی جاتی ہے، نہ واقعات کی تصدیق میں۔ ایسے اینکر کم نہیں ہیں، جو اپنے ناپسندیدہ حضرات و خواتین پر جتنا بھی وزنی پتھر اُٹھا سکیں اُٹھا کر مار سکتے اور دادِ شجاعت پر حق جتا سکتے ہیں۔ وہ لوگ جنہیں لاکھوں کیا کروڑوں ووٹروں کا اعتماد حاصل ہوتا ہے، جو حزب اقتدار یا اختلاف کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں، ان کے بارے میں ہر اے، بی، سی ہر طرح کا الزام لگا سکتا، اور انہیں منہ بھر کر گالیاں دے سکتا ہے۔ ان کی حب الوطنی کو موضوع بنایا جا سکتا ہے، ان کے نجی معاملات کے بارے میں تہمتیں لگائی جا سکتی ہیں، الزامات کو ثابت شدہ حقائق کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، پورے سسٹم پر لوگوں کا اعتماد کم کیا جا سکتا ہے، اور سسٹم کو دھکے دے کر رستم زماں کہلایا جا سکتا ہے۔
ایک زمانے تک مجھے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے مقتولین (یا مجروحین) سے ہمدردی رہی، کرائے کے قاتلوں پر غصہ بھی آتا رہا اور یہ اطمینان رہا کہ پرنٹ میڈیا کی دنیا مختلف ہے۔ سوشل میڈیا گمنام (یا نقاب پوش) عناصر کے تسلط میں ہے، الیکٹرانک میڈیا میں ایڈیٹنگ کا کوئی زیادہ اہتمام ہے نہ فرصت، لیکن پرنٹ میڈیا میں درجہ بدرجہ خیریت ہے۔ یہاں ایک عدد چیف ایڈیٹر موجود ہوتا ہے، ایڈیٹر کا منصب باقاعدہ پایا جاتا ہے۔ نیوز ایڈیٹر، سب ایڈیٹر، چیف رپورٹر سب اپنی اپنی جگہ بااختیار ہیں۔ ایک ایک خبر اور ایک ایک کالم کا ایک ایک لفظ پڑھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ یہاں کوئی رپورٹ ڈیسک پر آتے ہی کھٹ سے چھپ نہیں جاتی، کئی نظروں سے گزرتی اور کھنگالی جاتی ہے، اس لیے یہاں بے تکلفانہ نہ تو کپڑے اتارے جا سکتے ہیں، نہ گالیاں انڈیلی جا سکتی ہیں۔ اپنی پوری پیشہ ورانہ زندگی میں، سوچ سمجھ کر لکھا اور چھاپا، اور مجھے سینئرز کی طرف سے اس کی تلقین بھی کی گئی۔ اگر کوئی ایسی بات چھپ گئی جو اخلاق اور احتیاط کے تقاضوں کو پامال کرتی ہو تو اولین فرصت میں اس کی تردید (اور وضاحت) کی گئی یا (جہاں ضرورت تھی وہاں) معذرت کا اظہار کر دیا گیا۔ مَیں نے ذاتی طور پر ہتک عزت کا ایک ایسا مقدمہ کئی برس بھگتا ہے جو ایک ایسی رپورٹ پر قائم کیا گیا جس میں ایک سیاست دان پر الزام لگایا گیا تھا کہ ایک آئل ملز میں اُس کے حصص ہیں، جبکہ حقیقت میں ایسا نہ تھا۔ سول اور ہائی کورٹ میں درجنوںپیشیاں بھگتنے کے بعد شکایت کنندہ معذرت قبول کرنے پر آمادہ ہوا، اور اسے نمایاں طور پر شائع کر دیا گیا۔ لیکن اب کالموں اور مضامین میں حقائق کو توڑ مروڑ کر شائع کرنا، اپنے حریفوں کے خلاف مذہبی یا غیر مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا معمول بن چکا ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک بڑے اخبار کے صرف ایک گزشتہ شمارے کے ادارتی صفحہ کا مطالعہ کیا تو اس کے چھ میں سے چار کالم ایسے تھے، جن میں ہتک عزت پر مبنی مواد بھرا ہوا تھا۔ ان باتوں کو حقیقت کہنے پر اصرار کیا گیا تھا، جن کی واضح تردید ہو چکی تھی۔ قانون کی من مانی تشریحات کی گئی تھیں اور غلاظت کے ٹوکرے بھر بھر کر اپنے ''ممدوحین‘‘ پر انڈیل دیے گئے تھے۔ ایک عدد پریس کونسل قانونی طور پر موجود ہے، جس کا دروازہ کھٹکھٹا کر متعلقہ اخبار کو معذرت کا اظہار کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، لیکن اس تردد میں پڑنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ہتک عزت کا مقدمہ قائم کرنے اور لڑنے کی سکت کم رہ گئی ہے۔ وکیلوں کے اخراجات اٹھا لیے جائیں تو بھی عدالتوں کو ان معاملات پر ترجیحاً غور کرنے کی فرصت نہیں۔ مدعا علیہان مہینوں کیا برسوں عدالتی سمن کی تعمیل نہیں کرتے اور عدالتیں ان کا منہ دیکھے چلی جاتی ہیں۔ اخبارات کے کئی ایڈیٹر بھی ماحول سے متاثر ہو کر احتیاط اور آداب کے تقاضوں سے بے پروا ہو چکے ہیں، نتیجتاً میدان صحافت کو ایک ایسی منڈی کی شکل دی جا رہی ہے، جہاں عزت سنبھالنا اور بچانا ممکن نہ رہے ۔ اگر شب و روز یہی رہیں گے، منہ کالا کرنے والے دندناتے پھریں گے، تو پھر سفید اور سیاہ کا فرق کہاں باقی رہے گا؟ یہ آزادیٔ اظہار کی کون سی قسم ایجاد کی جا رہی ہے، جس کا اولین مقصد اپنے اپنے ناپسندیدہ لوگوں کی عزت کا شکار ہو۔ کیا اخباری ذمہ داران ایڈیٹر نامی شے کی ضرورت اور اہمیت کا کوئی احساس کر سکتے ہیں، کیا اس کی تلاش میں اپنے اپنے متاثرین کو کوئی مدد فراہم کر سکتے ہیں؟
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)