تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-10-2017

ہم نے کیا سیکھا؟

دنیا کو آخرت کی کھیتی کہا جاتا ہے۔ یعنی جو کچھ یہاں بویا جائے گا وہی وہاں، عُقبٰی میںکاٹا جائے گا۔ ہم دارالعمل میں جی رہے ہیں۔ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی عمل ہے جو کرنا ہے۔ کبھی کبھی کسی عمل کا نہ کرنا بھی عمل ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ اور جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں (یا نہیں کرتے) اُس کا حساب کتاب اُس دن ہوگا جو دین کا دن ہے ... یوم الدین! 
اب سوال یہ ہے کہ ہم نے اب تک کیا سیکھا ہے۔ اعمال کو غیر جانب داری سے دیکھیے، حقیقت پسندی کی کسوٹی پر پرکھیے تو یہ دل خراش حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم بحیثیتِ مجموعی ایسی زندگی بسر کر رہے ہیں جو حقیقی مقصدیت اور لذّت دونوں ہی سے محروم ہے۔ ایک طرف تو کوئی مقصد دکھائی نہیں دیتا اور دوسری طرف مسرّت کا تصوّر بھی کھوکھلا ہے۔ کسی بھی معاملے سے لذّت کشید کرنے کے لیے لوگ ایسے بھونڈے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ اشرف المخلوق ہونے کا شرف سرمسار سا ہو جاتا ہے! لوگ یُوں جوش و جذبہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جیسے زندگی کی معنویت کو سمجھنے والا اُن سے بڑا کوئی نہیں مگر جب افکار و اعمال کو حقیقت پسندی کی کسوٹی پر پرکھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُن کی زندگی میں اور تو سب کچھ ہے، مقصد اور مفہوم ہی عنقا ہے! شادؔ عارفی نے شاید اِسی کیفیت کی طرف یُوں اشارا کیا ہے ؎ 
چمن سے آج کل یُوں نکہتِ معلوم غائب ہے 
کہ جیسے فی زمانہ شعر سے مفہوم غائب ہے! 
پاکستانی معاشرے کو اللہ نے دین کی دولت سے نوازا ہے۔ مگر یہ معاملہ بس یہیں تک ہے۔ بات کو یُوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ دولت خود کوئی مقصد نہیں ہوتی بلکہ مقصد یا مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اگر کسی کے بینک اکاؤنٹ میں لاکھوں یا کروڑوں روپے پڑے ہوں اور وہ اُنہیں بروئے کار لانے سے گریز کرے تو اُس کے حالات میں کوئی بڑی اور مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوگی اور وہ کس مپرسی کی حالت ہی میں زندگی بسر کرتا رہے گا۔ دولت کا محض تصرّف میں ہونا کوئی مفہوم نہیں رکھتا۔ سوال یہ ہے کہ ہم دولت کو خرچ کس طرح کرتے ہیں، اُس کی مدد سے زندگی کا کیسا رُخ متعین کرتے ہیں اور اپنے لیے آسانیوںکا اہتمام کس طور کرتے ہیں۔ ہمارے لیے دین کا معاملہ اب کچھ ایسا ہی ہوگیا ہے۔ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کی ہدایات اللہ کے آخری پیغام اور اُس کی تشریحات کی شکل میں ہم تک پہنچی ہیں مگر ہم نے اُن کے ساتھ وہی سلوک کیا ہے جو بہت سے لوگ ڈھیروں دولت کے ساتھ روا رکھتے ہیں یعنی بینک اکاؤنٹ میں ڈال دیتے ہیں یا پھر گھر کی تجوری میں رکھ چھوڑتے ہیں۔ دولت جب بروئے کار نہیں لائی جاتی تو بہت سے مسائل حل نہیں ہو پاتے اور زندگی کو غیر ضروری الجھنوں اور پریشانیوں سے دوچار رکھنے والے حالات برقرار رہتے ہیں۔ یہی حال ہمارا ہے۔ ہم نے دین کی دولت کو بے عملی کے اکاؤنٹ یا لاکر میں ''محفوظ‘‘ کر رکھا ہے! 
خِسّت کے آغوش میں پلنے والے کم ہو جانے کے خوف سے دولت کو خرچ کرنے سے ڈرتے ہیں اور اِسی طور بہت سے بے وقوف اِس خیال سے ذہن استعمال نہیں کرتے کہ کہیں ''خراب‘‘ نہ ہو جائے! وہ زندگی بھر بے ذہنی کا ساتھ نبھاتے رہتے ہیں اور اپنے ذہن کو'' ڈبّا پیک‘‘ حالت میں اِس دنیا سے واپس لے جاتے ہیں! ہم بھی شاید اِس خوف میں مبتلا ہیں کہ خرچ کرنے یعنی عمل پذیر ہونے سے دین کی دولت کم نہ ہوجائے، ہاتھ سے جاتی نہ رہے! 
دینی معلومات کا بنیادی مقصد ایک دوسرے کے مسائل اور دُکھ کو سمجھتے ہوئے زندگی کو آسان سے آسان تر بنانا ہے مگر ہم نے ایسی روش اپنا رکھی ہے کہ زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جاتی ہے۔ دینی معلومات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہمارے دِلوں میں وہ سختی باقی نہ رہے جو اِس دارِ فانی کی پیچیدگیوں میں الجھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم غیر ضروری باتوں میں جس قدر الجھیں گے اور غیر اہم معاملات کو جس قدر حرزِ جاں بنائیں گے ہمارے دِل نرمی سے اُسی قدر دور ہوتے جائیں گے۔ 
مصیبت میں کسی کی مدد کرنا اللہ کو بے حد پسند ہے۔ کسی بے سہارا کو سہارا دینے والوں کے لیے حقیقی جزا کا معاملہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ یہ دُنیا اُنہی لوگوں کے دم سے چل رہی ہے جو دوسروں کا بھلا سوچتے ہیں اور اپنے مفادات کو دوسروں کی بھلائی پر قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ کسی کی وقتی مدد تو ہم کردیتے ہیں مگر اُس کا ہاتھ اِس طور تھامنے سے گریز ہی کرتے ہیں کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو اور ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائے۔ جن والدین نے شیر خوارگی سے جوانی تک بھرپور خیال رکھا ہو، جی بھر کے خرچ بھی کیا ہو، تعلیم بھی دی ہو، شوق بھی پورے کرائے ہوں اُنہیں یُوں نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ دیکھنے والے شرما جاتے ہیں۔ 
اور اِسی دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو غیروں کو یُوں اپناتے ہیں کہ اجنبیت شرم کے مارے سات پردوں میں منہ چُھپائے پھرتی ہے۔ چین کا ایک قصہ اِس قابل ہے کہ یہاں بیان کردیا جائے۔ 1987 میں چین کے شہر چانگ کنگ میں ذرا سے متموّل تاجر لی شاؤ گوانگ کو اپنے نواسوں کی دیکھ بھال کے لیے آیا کی ضرورت پڑی۔ اُنہوں نے وانگ شُنجیان کو معقول معاوضے پر یہ خدمت سونپی۔ وانگ نے تین سال تک بچوں کی خوب دیکھ بھال کی، اُن کے آرام اور تربیت کا پورا خیال رکھا۔ اِس دوران اُس نے اپنے بھرپور اخلاص سے گھر کے ہر فرد کا دل جیت لیا۔ 1990 میں وہ ہوا جس نے وانگ کی زندگی کا رُخ بے بسی کی طرف موڑ دیا۔ اُس پر فالج گِرا جس کے نتیجے میں وہ کام کاج سے لاچار ہوگئی! کسی نہ کسی طور چل پھر تو وہ سکتی تھی مگر کوئی وزن اٹھانا، گھر کے چھوٹے بڑے کام کرنا اُس کے لیے انتہائی دشوار ہوگیا۔ 
وانگ کا کوئی رشتہ دار تھا نہ مال و متاع۔ وہ بھری دنیا میں تنہا تھی۔ لی شاؤ گوانگ کا گھرانہ ہی اُن کا گھر بھی تھا، ٹھکانہ بھی تھا۔ لی نے جب دیکھا کہ وانگ کے لیے بھری دنیا میں کہیں کوئی ٹھکانہ نہیں تو اُنہوں نے اپنی بیوی اور بیٹی سے مشورہ کیا اور وانگ کو ہمیشہ کے لیے گھر کا حصہ بنالیا۔ لی اور اُن کی بیوی نے وانگ کی دیکھ بھال 2012 تک کی۔ اس کے بعد لی اور اُن کی بیوی میں اِتنی ہمت نہ رہی کہ وانگ کا خیال رکھ سکیں اس لیے اُن کی بیٹی نے وانگ اور والدین کی دیکھ بھال کے لیے ایک عورت رکھ لی۔ 
لی 91 سال کے ہوچکے ہیں۔ وانگ اب بھی اِس گھرانے کا حصہ ہے اور اُس کی دیکھ بھال میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی جاتی۔ اِسے کہتے ہیں انسانیت۔ انسان دوستی کی ایسی مثالیںکم ہی ملیں گی۔ ہم اُس عہد میں جی رہے ہیں جس میں لوگ والدین سے جان چُھڑانے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ ایسے میں کسی غیر کو گھر کے فرد کا درجہ دینا اور وہ بھی اِس حالت میں کہ وہ خود بے بس ہو اور اُس کا خیال رکھنا پڑے ... انسان دوستی اور کیا ہوتی ہے! 
اِس دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ہمیں کچھ نہ کچھ سیکھنے کی دعوت دیتا ہے اور جو کچھ ہم سیکھتے ہیں اُس پر عمل کرنے ہی سے زندگی کی رگوں میں معنویت کا خُون دوڑتا ہے۔ معاشرے کی مجموعی روش پر نظر ڈالیے اور پھر وانگ کے کیس پر غور کرکے بتائیے کہ ہم نے اب تک کیا سیکھا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved