تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     09-10-2017

شکست

انتہا پسندی کے خلاف ریاست اور سماج کی شکست کا اندیشہ بڑھ رہا ہے ہے۔سیاسی اور مذہبی انتہا پسند نیشنل ایکشن پلان کا منہ چڑا رہے ہیں اور ریاست بے بسی کی تصویر بن چکی۔ریاست تو ریاست،سماج بھی ایک بند گلی میں کھڑا ہے۔
کیا پاکستان کی پارلیمنٹ نے جھوٹ کو جائز قرار دے دیا ہے؟
کیا پارلیمنٹ نے یہ کہا ہے کہ خیانت اورچوری جائز ہے؟
کیا پاکستان کی پارلیمنٹ نے پوری انسانیت کا اصول بدل دیا ہے؟
کیا ہمارے پارلیمان کے ارکان غلیظ لوگ ہیں؟
کیا ہماری پارلیمنٹ کی بد بو سے رحمت کے فرشتے بھاگ گئے ہوں گے؟
مذہب کے بعض نمائندے ہمیں یہی بتارہے ہیں اور ہمارے نجی ٹی وی چینل ان کی آوازوں کو پورے اہتمام کے ساتھ پھیلا رہے ہیں۔ سیاسی انتہا پسندی اور مذہبی انتہا پسندی ہم آغوش ہیں۔اگر نوازشریف آپ کا ہدف ہے تو آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں۔چاہیں تو دوسروں کے کفر اسلام کا فیصلہ کریں۔چاہیں تو پوری پارلیمنٹ کے بارے میں وہ سب کچھ کہہ دیں جس کا میں نے حوالہ دیا ہے۔اگر یہ سب کچھ کہنا روا ہے تو پھر وہ کون سی انتہاپسندی ہے،ریاست اور سماج جس کے خلاف برسرِپیکار ہیں؟
پارلیمنٹ کے خلاف یہ مقدمہ اس قانون کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے جس کے تحت عدالت سے نااہل قرار دیا جانے والا شخص بھی پارٹی کا صدر بن سکتا ہے۔یہ معلوم ہے کہ پاکستان میں بننے والا یہ نیا قانون نہیں۔یہ ایک پرانے قانون کی بحالی ہے جو اس ملک میں پہلے سے رائج تھا۔ایک فوجی آمر نے اپنے سیاسی مخالفین کا راستہ روکنے کے لیے یہ قانون بنایاتھا جب عدالتیں اس کی گرفت میں تھیں اور وہ ان سے من مانے فیصلے لے رہا تھا۔یہاں تک کہ اسے آئین میں تبدیلی کا اختیار بھی دے دیا گیا۔
پارلیمنٹ نے جھوٹ کو جائز نہیں کہا۔اس نے خیانت کے حق میں کوئی قانون منظور نہیں کیا۔اس قانون کے تحت سیاسی عمل کو متنازعہ عدالتی فیصلوں سے آزاد کیا گیا ہے۔قانون میں تبدیلی کایہ عمل 2014 ء میں شروع ہوا اور اب پایۂ تکمیل کو پہنچا۔مہذب معاشروں میںعدالت کا فیصلہ نافذ ہو جا تا ہے مگر اس سے اختلاف کا حق باقی رہتا ہے۔عدالت نے بھٹو کو قاتل قرار دیا۔اہلِ پاکستان کی اکثریت آج بھی ان کو بے گناہ سمجھتی ہے۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت نے قتل کو جائز قرار دے دیا ہے؟ کیا پاکستانی عوام نے انسانیت کا اصول بدل دیا؟
جوصاحب پارلیمنٹ کے خلاف یہ مقدمہ پیش کررہے ہیں،وہ اپنے حق میں یہ دلیل لائے ہیں کہ سیدنا علیؓ بھی تو عدالت میں پیش ہوئے تھے اوران کے خلاف عدالت نے فیصلہ دیا تھا جسے انہوں نے قبول کر لیا۔یہ دلچسپ بات ہے کہ یہ واقعہ خود ان کے موقف کے غلط ہونے کی دلیل ہے۔مو صوف کے بقول حضرت علیؓ عدالت کے سامنے ثابت نہ کر سکے کہ زرہ ان کی ہے،اس لیے عدالت نے ان کے خلاف فیصلہ دے دیا۔اب دیکھیے کہ اس فیصلے کے باوجود، سیدنا علیؓ آج بھی مسلمانوں کے امام اور راہنما ہیں۔ان کی طرف جھوٹ کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔کیا اس بنیاد پر مسلمانوں کو یہ الزام دیا جائے گا کہ انہوں نے ایسی شخصیت کو اپنا امام مانا جس کے خلاف عدالت فیصلہ دے چکی ہے؟کیا مسلمانوں نے کائنات کا اصول بدل دیا؟
عدالت شواہدکی بنیا دپر فیصلہ دیتی ہے۔اس کا فیصلہ نافذ ہو جا تا ہے مگر اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔عدالت نے سیدنا علیؓ کے خلاف فیصلہ دیا لیکن ہم اسے غلط کہتے ہیں کہ ان کی طرف جھوٹ کی نسبت ممکن نہیں۔اسی طرح ہماری عدالت نے بھٹو کو قاتل قرار دیا۔ان پر قتل کی سزا نافذ کر دی گئی مگر لوگوں کی نظر میں وہ آج بھی شہید ہیں۔عدالت یہ فیصلہ بھی دے چکی کہ انہیں شہید کہنا توہینِ عدالت ہے اور نہ انہیں شہید کہنے والے کو کوئی سزا دی جا سکتی ہے۔آج پارلیمان نے جھوٹ کو جائز نہیں کہا،جھوٹ کی نسبت کو غلط قرارد یا ہے۔
اسی اصول پر بہت سے لوگ آج نوازشریف صاحب کو بے گناہ سمجھتے ہیں۔انہیں عدالتی فیصلے سے اتفاق نہیں اور اس کی جھلک ہمیں اس قانون میں دکھائی دیتی ہے جو پارلیمنٹ نے منظور کیا۔اسی رائے کی بنیاد پر مسلم لیگ کی جنرل کونسل نے انہیں اپنا صدر تسلیم کیا۔ اس کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ پارلیمنٹ نے جھوٹ کو جائز قرار دے دیا۔نہ ا س سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ن لیگ کی جنرل کونسل نے جھوٹ کے حق میں فیصلہ دیا۔ کسی مسلمان کے بارے میں یہ گمان نہیں کر نا چاہیے۔
انسان میں کمزوریاں ہوتی ہیں۔ہم غلطیاں کرتے ہیں۔اس کا یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ ہم نے اپنے خیر وشر کے پیمانوں کو بدل دیا ہے۔بہت سے مسلمان نماز نہیں پڑھتے لیکن شاید ہی کوئی اس کی فرضیت سے انکار کرتا ہو۔بہت سے لوگ روزہ نہیں رکھنے لیکن وہ یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیںاور نہ یہ مانتے ہیں کہ روزہ غیر ضروری ہے۔ 
یہی معاملہ سیاست کا بھی ہے۔سیاست میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ ہیں۔ہم اگر ان میں کوئی خرابی دیکھتے ہیں تو ہمیں حق ہے کہ ان کی نشان دہی کریں۔اگر عدالت کے کسی فیصلے میں سقم دیکھیں تو اس کا تذکرہ کریں۔علما کی روش میں کوئی بات قابلِ گرفت ہو تو انہیں متوجہ کریں۔عسکری قیادت کا کوئی فیصلہ درست نہیں تو ان کو متنبہ کریں۔میڈیا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تو اسے بتائیں۔یہ کام خیر خواہی اوراصلاح کی بنیاد پر ہو تو اس سے بہتری آتی ہے۔ہم سب ایک معاشرے کا حصہ ہیں۔یہ ممکن نہیں کہ ایک ادارے میں فرشتے جمع ہوں اور دوسرے میں شیاطین۔ 
بدقسمتی سے اب یہ نہیں ہو رہا۔لوگوں نے اپنے ہاتھ میں خدائی اختیارات لے لیے ہیں۔وہ لوگوں کی آخرت کا فیصلہ کرتے ہیں۔خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بن جا تے ہیں۔لوگوں سے وہ باتیں منسوب کرتے ہیں جو ان کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں ہوتیں۔پھر اس پر ہی اکتفا نہیں کیا جا تا ،انہیں اپنے قائم کردہ مفروضوں کی بنیاد پر مجرم قرار دیا جاتا ہے اور سزا کا مستحق بھی۔اسی کا نام انتہا پسندی ہے۔
آج ہمارا سماج سیاسی اور مذہبی انتہا پسندی کی گرفت میں ہے۔نوازشریف کے معاملے میں دونوں کو جس طرح یکجا کیا جا رہا ہے،اس سے ہمارا اجتماعی وجود ایک بارپھر خطرات میں گھر گیا ہے۔انتہا پسندی کی تازہ لہرسے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ چار سال میں دہشت گردی کم ہوئی ہے مگر انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔یہ نیشنل ایکشن پلان اور ریاست کی ناکامی کی دلیل ہے۔ 
جس طرح فوج کے بارے میں انتہا پسندانہ موقف ریاست کے لیے خطرناک ہے،اسی طرح پارلیمنٹ اور سیاست دانوں کے بارے میں انتہاپسندانہ خیالات بھی خطرناک ہیں۔نتائج کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں۔کفر اور ارتداد کے فتوے مذہبی انتہا پسندی کو پھیلارہے ہیں۔ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے خلاف مہم جوئی سیاسی انتہا پسندی کو ہوا دے رہی ہے۔انتہا پسندی کسی صورت میں ہو، خطرناک ہے۔شعلے اگلتی زبانیں اور قلم،وہ کسی کے خلاف بھی ہوں،معاشرے کو بر باد کر دیتے ہیں۔
خاکم بدہن،میں اس بر بادی کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ نوازشریف کو شکست دینے کے لیے ان کے خلاف ہر ہتھیار آزمایا جا رہا ہے،جس میں مذہبی انتہا پسندی بھی شامل ہے۔یہ ہتھیار ایک بار بھٹو صاحب کے خلاف بھی استعمال ہوا تھا۔ملک آج تک اس کی منفی نتائج سے باہر نہیں نکل سکا۔یاد رکھنا چاہیے کہ اس سے صرف نوازشریف نہیں،اور بہت کچھ بھی برباد ہوجا ئے گا۔
نوازشریف ایک سیاست دان ہیں۔درخواست ہے کہ ان کے خلاف سیاسی جنگ لڑی جائے۔اگر ریاستی اداروں اور لوگوں کے مذہبی جذبات کو اس کا ایندھن بنایا گیا توریاست اور سماج دونوں خطرات کی زد میں ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved