بھارت کی تاریخ سے مسلمانوں کے کردار کو نکالنا‘ آزادی کے ستر سال بعد بھی ہندو لیڈروں کے لئے مشکل نظر آتا ہے۔مسلمان حکمرانوں کی چھوڑی ہوئی یادگاریں‘ آج بھی ہندوئوں کے لئے درد سر ہیں۔ تاج محل‘ دنیا کاآٹھواں عجوبہ‘ جو محبت کی لافانی مثال بن کر دنیا کو ‘بھارت کی طرف کھینچ رہا ہے۔ جس کو دیکھئے وہ چند لمحے بھارت میں گزارنے کے لئے بے چین ہے۔ دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کو‘ سب سے زیادہ ‘تاج محل ہی اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔بھارت کی تاریخی اور دیومالائی کہانیاں‘ آج بھی سیاحوں کے دل موہ لیتی ہیں۔تنگ نظر سرکردہ ہندو ‘ایڑی چوٹی کا زور لگا کر تھک گئے کہ تاج محل جیسے محبت کے عظیم سرمائے کو‘ اپنا قومی سرمایہ منوا سکیں۔ تنگ دلی اوریک رنگی سیاست کے تحت‘ تاج محل کو سیاحت کی فہرست سے خارج کر دیا جاتا ہے لیکن یہ بھی اہل سیاست‘ اقتدار اور حکومت کے منہ پر‘ ایک زبردست طمانچہ ہے کہ جتنی دوری پیدا کرنے کی سیاست ہو رہی ہے‘ تاج محل دیکھنے والوں کی تعداد اتنی ہی بڑھتی جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ملک کی عظیم تاریخ‘ خصوصاًمسلم حکمرانوں کے دور اقتدار کو‘ تاریخ کے نہاں خانوں میں گم کرنے سے‘ مسلم فرما ںروائوں کی اہمیت ختم ہو جائے گی؟ ہندوستان میں ان کی خدمات اور محبت کا باب بند ہو جائے گا؟ اکبر کو مفتوح‘ مہارانا پرتاب کو فاتح قرار دینے سے تاریخ بدل جائے گی۔ کیا دنیا بھر کی لائبریریوں میں موجود تاریخی کتابیں‘ اس جھوٹ کی تائید کرسکیں گی ؟ ٹیپو سلطان کو کٹر ہندو دشمن حکمران ثابت کرنے والے کیا لندن کی لائبریریوں میں موجود تاریخی کتابوں سے‘ ٹیپو کے گرا ںقدر کارنامے حذف کر سکیں گے؟وہاں کے میوزیم میں موجودہ ٹیپو کی یادگار اشیا سے منکر ہو جائیں گے؟ جو شیر میسور کی بہادری اور اس دور کی ترقی کی یادگار ہیں ۔ سوال تو یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کے کارناموں کو نصاب سے ہٹانے والے‘ واشنگٹن اور نیویارک کے میوزیم میں موجود ‘ٹیپو سلطان کے دور کی اس پینٹنگز کو بنائیں گے جس میں مصور نے‘ ٹیپو کو انگریزوں کے خلاف لڑتے ہوئے دکھایا ہے۔ اور ٹیپو کو اس جنگ میں راکٹ استعمال کرتے ہوئے اجاگر کیا ہے۔ا س تصور کا ذکر سابق بھارتی صدر ‘ عبدالکلام نے بھی اپنی کتاب میں کیا او ر اعتراف کیا ہے کہ'' ٹیپو سلطان پہلا ہندوستانی حکمران تھا جس نے جنگ میں راکٹ کا استعمال کیا ‘‘۔کاش! زندگی ٹیپو سلطان کوکچھ اور مہلت دیتی تو ہندوستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ اقتدار و سیاست نے جس حکمت عملی کے ساتھ نصاب سے‘ مسلم حکمرانوں کے نام حذف کرنے‘ مغل سرائے سٹیشن کا نام بدلنے‘ تعلیمی اداروں میں بندے ماترم‘ سوریہ نمسکار‘ یوگا نے جو کھڑاک پھیلایا ہے وہ اپنی جگہ لیکن اب راشٹریہ گان یعنی قومی ترانہ اور قومی پرچم کے احترام کو لے کر‘ جس طرح مدارس پر نشانے باندھے جا رہے ہیں۔ یہ سیاست کامیاب ہو گی یا نہیں ؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت کے اندر‘ مدارس کی جوعظیم تاریخ رہی ہے کیا اسے مٹایا جا سکا؟ اس مٹی کے بطن سے اٹھنے والی صدائے حب الوطنی‘ جنگ آزادی کے سورمائوں کو طاقت دیتی رہی ہیں۔ درختوں پر لٹکائے گئے لاکھوں مسلمانوں کے سر‘ اس بات کے گواہ ہیں‘ وطن سے محبت مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ وہ جان دے سکتا ہے ایمان نہیں۔ لیکن ملک کا جو دل سوز منظر نامہ ہے‘ اس کے تناظر میں ‘بہت سنبھل کر بولنے‘ رہنے‘کھانے پینے حتیٰ کہ لباس پہننے اور حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف جذباتی مسائل کے تحت‘ ملک کا رنگ روپ بدل رہا ہے تو دوسری طرف نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے عام لوگ اور تاجر بے حد پریشان ہیں۔ ملک کی ترقیاتی شرح گھٹتی جار ہی ہے۔روزگار کے مواقع مفقود ہو رہے ہیں۔مہنگائی نے جان کو عذاب میں ڈال رکھا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ عوام میں حکومت کی مقبولیت بھی
ختم ہوتی جا رہی ہے۔ شاید اسی زوال کے پیش نظر‘ عوام کے ذہن کو موڑنے کے لئے‘ جذباتی مسائل کی بساط بچھائی جا رہی ہے۔رام مندر تعمیر‘ لو جہاد‘ تین طلاق‘ گئو کشی وغیرہ‘ اسی حکمت عملی کے تانے بانے ہیں لیکن اب لگتا ہے کہ یہ سب کمزور پڑ رہے ہیں۔2019ء کے عام انتخابات تک‘ ان مسائل کے اثرات قائم رہیں گے اس پر بھی شک و شبہ ہے۔ لہٰذا اب زعفرانی سیاست کے کرتا دھرتائوں کو بھی تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ آئندہ سال گجرات میں اسمبلی الیکشن ہونے والے ہیں۔ وہاں کے عوام بھی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے بے حد پریشان ہیں۔ حکومت کی کارکردگی کے خلاف پٹیل سماج‘ مسلسل احتجاج پر آمادہ ہے۔ اس بات کا رنگ روپ‘ بر قرار رہے گا یا نہیں؟ ایک سروے کے مطابق گجرات میں بی جے پی کے اقتدار کا سورج طلوع ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پچھلے دنوں بی جے پی کے رہنما کا ایک رپورٹر کو درخت سے باندھ کر‘ پٹائی کرنے کا وائرل ویڈیو‘دیکھ کر عوام کے غم و غصے اور اشتعال کو ابھارتا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ مرکز کے ذریعے‘ گجرات میں بڑے بڑے منصوبوں کا اعلان ہو رہا ہے۔ وزیراعظم کے ذریعے‘ ان کی بنیاد بھی رکھی جا رہی ہے۔ مودی‘گجرات کے خصوصی سہ روزہ دورے پرہیں لیکن چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اب گجرات میں مسلمانوں کے بھائو بڑھنے والے ہیں۔ مسلم رائے دہندگان کو رجھانے کے لئے‘ بی جے پی نئے حربے استعمال کر رہی ہے۔ مسلم ٹوپی پہننا جہاں کسر شان سمجھی جاتی رہی ‘ اب اسی گجرات میں مسلم ووٹر‘ بی جے پی کی کشتی پار کرانے کا ذریعہ نظر آرہے ہیں۔بہر حال بات کچھ بھی ہو لیکن اچانک مسلمانوں کی خدمات کے اعتراف کی وجہ‘ سیاست ضرور ہے۔ شاید ارباب سیاست کو بھی یہ سمجھ آگئی ہے کہ جذباتی مسائل دیرپا نہیں ہو تے ۔ ہندوستان کی مٹی میں نفرت کا بیج پنپ نہیں سکتا۔ اگر پودا لگ بھی جائے تو اس پر پھل نہیں لگتے۔ گجرات میں سیاست کا یہ نیا رنگ روپ‘ بلاشبہ سیکولر اذہان ا ور ہندوستانی اقدار کی رگوں میں دوڑتی تشویش‘ کی لہروں کو زائل کر سکتا ہے؟