مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر احتساب عدالت میں پیشی کے لیے ہی لندن سے روانہ ہوئے تھے نصف شب بیت چکی تھی جب وہ اسلام آباد ائرپورٹ پر اترے۔
مریم کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا کہ ان کے وارنٹ گرفتاری قابل ضمانت تھے۔ البتہ صفدر کا معاملہ مختلف تھا کہ ان کے وارنٹ ناقابل ضمانت تھے۔ ملزم عدالت میں پیشی کے لیے سات سمندر پار سے چلا آیا تھا تو ائرپورٹ پر اس کی گرفتاری سے صرف نظر بھی کیا جا سکتا تھا لیکن قانون پر سختی سے عملدرآمد کا تقاضا تھا کہ اسے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے۔ چنانچہ یہی ہوا (یہ الگ بات کہ ناقدین کو یاد دہانی کا ایک اور موقع مل گیا کہ اسی شہر کی ایک عدالت‘ اسی شہر کے ایک باسی کو‘ جو خیر سے انصاف نامی ایک تحریک کا سربراہ بھی ہے‘ اشتہاری قرار دے چکی‘ وہ شہر شہر انصاف کا پرچم اٹھائے پھرتا ہے‘ خود اس شہر میں بھی اجتماعات سے خطاب کرتا ہے‘ ٹی وی ٹاک شوز میں سیاسی مخالفین کو چور‘ ڈاکو‘ بے ایمان اور بدعنوان کے خطابات سے نوازتے ہوئے قانون کی عملداری کی دہائی دیتا ہے لیکن خود اپنی ذات کے حوالے سے قانون کے تقاضوں کوکوئی اہمیت دیتا دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن معاملے کا دوسرا پہلو بھی ہے۔ عدالت (اشتہاری قرار دینے کا) اپنے حصے کا کام کر چکی۔ اب اس پر عملدرآمد کا کام قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کی پولیس براہ راست وفاقی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔ چوہدری نثار علی خان نے وزارت داخلہ سے رضاکارانہ سبکدوشی اختیار کر لی۔ اب ان کی جگہ جناب احسن اقبال ہیں اور آئینی و قانونی تقاضوں کے حوالے سے ان کی حساسیت کا یہ عالم دو اکتوبر کو معزول وزیراعظم کی پیشی کے موقع پر رینجرز والے ناخوشگوار واقعہ پر انہیں ''ریاست کے اندر ریاست‘‘ اور ''بناناری پبلک‘‘ والی بات کہنے‘ اور بلند آہنگ میں پوری شدت کے ساتھ کہے‘ میں بھی کوئی تامل نہ تھا۔ ''اشتہاری‘‘ ملزم کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنا کیا ان کی پولیس کی ذمہ داری نہیں؟ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس میں خود حکومت کی مصلحت آڑے آ جاتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالف کو ''ہیرو‘‘ بنانا اور اسے ہنگامہ آرائی کا ایک اور بہانہ فراہم نہیں کرنا چاہتی)۔
بات سوموار 9 اکتوبر کو عدالتی کارروائی کی ہو رہی تھی۔ مریم اور صفدر کو پچاس پچاس لاکھ روپے کے مچلکے داخل کرنے کا حکم صادر ہوا۔ انہیں الزامات کی کاپیاں بھی مہیا کر دی گئیں اور صفدر کو یہ ہدایت بھی کہ ان کی آئندہ بیرون ملک روانگی عدالت کو اطلاع دیئے بغیر نہیں ہو سکتی۔ عدالت نے میاں صاحب کی 9اکتوبر کی حاضری سے استثنا کی درخواست قبول کر لی لیکن فاضل وکیل کی یہ استدعا منظور نہ کی کہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ کی علالت کے باعث آئندہ پیشی کے لیے پندرہ روز بعد کی تاریخ دے دی جائے۔ حسین اور حسن کی مسلسل عدم حاضری کے باعث ان کا کیس الگ کر دینے اور انہیں اشتہاری قرار دینے کا عمل شروع کرنے کا حکم جاری ہوا اور میاں صاحب سمیت مریم اور صفدر باقی دو ملزموںکے خلاف فرد جرم کے لیے جمعہ 13 اکتوبر کی تاریخ دیدی گئی۔
سپریم کورٹ نے 28 جولائی کے فیصلے میں چھ ہفتوں میں ریفرنسز پیش کرنے اور چھ ماہ میں احتساب عدالت کی کارروائی مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ ''نیب‘‘ کو اس ٹائم شیڈول کا بخوبی احساس تھا چنانچہ چھ ہفتوں میں ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کر دیئے گئے (اس کے لیے نیب کے انویسٹی گیشن اور پراسیکیوشن والوں کو زیادہ محنت کی ضرورت نہیں تھی کہ خود عدالت عظمی کے فیصلے کے مطابق اس کے لیے ''بنیادی مواد‘‘ پاناما جے آئی ٹی کی نو دس جلدوں پر مشتمل رپورٹ میں موجود تھا) اب احتساب عدالت بھی چھ ماہ کے طے شدہ ٹائم فریم کے اندر اس کارروائی کو نمٹانے کے لیے مقدور پھر سرعت سے کام لے رہی ہے۔ نارمل پریکٹس یہ ہے کہ الزامات کی تفصیل مہیا کرنے کے بعد فرد جرم کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا جاتا ہے۔ اسحاق ڈار کو اس کے لیے شاید تین دن کی مہلت دی گئی۔
اس کے باوجود ہمارے دانشور دوست کے خیال میں احتساب عدالتیں کچھوے کی رفتار سے بھی زیادہ سست ہیں۔ وہ اس کے لیے فرانسیسی اور روسی انقلاب نہ سہی‘ ایرانی انقلاب ہی سے کچھ سیکھ لینے کا مشورہ دیتے ہیں جہاں عدالتی کاروائی صبح کو شروع ہوتی‘ شام تک فیصلہ آ جاتا اور رات گئے جیل میں عملدرآمد بھی ہو جاتا۔ فوری انصاف کی خواہش میں دانشور بزرگ اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کرا کے اپنے ہاں خمینی طرز کا انقلاب نہیں آیا‘ چنانچہ یہاں کسی ''آیت اللہ‘‘ کو اس برق رفتاری کے ساتھ فیصلے کرنے کا اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اس کے خلاف کسی ایک اپیل کا حق بھی نہ ہو اور اسی شب اس ''آسمانی‘‘ فیصلے پر عملدرآمد بھی ہو جائے اور یہ بھی کہ اپنے ہاں یہ ''آیت اللہ‘‘ کون ہو؟ وہاں تو بعض معاملات میں ایسا بھی ہوا کہ صبح سماعت شروع ہوئی نماز ظہر سے پہلے فیصلہ ہو گیا اور وہیں اور اسی وقت (There and Then) اس پر عملدرآمد بھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ فوری انصاف کا یہ معاملہ انقلاب دشمنوں اور شاہ کے وفاداروں کے ساتھ مخصوص نہ تھا۔ اخلاقی جرائم کے ملزموں کا معاملہ اس سے بھی بدتر تھا۔ ہمارے دانشور دوست سے زیادہ اس حقیقت سے کون آگاہ ہو گا کہ اپنے ہاں سیاسی مخالفین کے خلاف اخلاقی جرائم کے جھوٹے الزامات لگانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔
انقلابی خواہشات اپنی جگہ‘ لیکن معاف کیجئے‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اپنا آئینی نظام ہے‘ اپنا نظام قانون اور عدالتیں اس کے مطابق فیصلے صادر کرتی ہیں۔
ویسے اپنے ہاں بھی آئین کا آرٹیکل 184/C ہے‘ جس میں سپریم کورٹ پبلک انٹریسٹ میں کوئی کیس براہ راست سن سکتی ہے اور اس کے خلاف اپیل بھی نہیں ہوتی۔ نوازشریف کے خلاف پاناما کیس کی سماعت اسی آرٹیکل کے تحت ہوئی)۔
...اور اب لاہور میں ایک یادگار تقریب کا احوال : خادم اعلی پنجاب جسے پورے پاکستان کے لیے یادگار قرار دے رہے تھے۔ اورنج لائن کے نام سے میٹرو ٹرین کے عظیم الشان منصوبے کا 75 فیصد کام مکمل ہو چکا‘ 27کلومیٹر کے علاقے میں 27 میٹرو ٹرینیں چلیں گی۔ ہر ٹرین میں ایک ہزار افراد کی گنجائش ہو گی۔ پانچ بوگیوں پر مشتمل پہلی ٹرین چین سے لاہور پہنچ چکی۔ اتوار کی سہ پہر یہ اسی اولین ٹرین کی رونمائی کی تقریب تھی۔ ہمیں بھی ٹرین کے اندر جانے اور اس کی آرام دہ بوگیوں میں مسافروں کو دستیاب سہولتوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ برسوں پہلے ہم یورپ اور امریکہ میں ان ٹرینوں میں سفر کر چکے تھے۔ یوں لگا جیسے ایک بار پھر ترقی یافتہ دنیاکے کسی جدید ترین شہر میں ہوں۔ خادم اعلی پنجاب میٹرو بس کی صورت میں لاہور کے علاوہ راولپنڈی اسلام آباد اور ملتان کے عوام کو بھی آرام دہ باعزت اور باوقار سفر کی سہولت بہم پہنچا چکے۔ منصوبوں کی برق رفتار تکمیل میں وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ہمارے چینی دوست اسے ''پنجاب سپیڈ‘‘ یا شہباز سپیڈ کا نام دیتے ہیں۔ لاہور اورنج لائن کا یہ منصوبہ 25 دسمبر 2017ء تک مکمل ہونا تھا لیکن شہریان لاہور کے بعض مہربان تاریخی ورثے کے نام پر گیارہ مقامات کے لیے حکم امتناعی لے آئے۔ شہباز صاحب کو امید ہے کہ عدالت عظمی ان سٹے آرڈر پر فیصلے میں مزید تاخیر نہیں کرے گی۔ انہیں اعتراف تھا کہ تاخیر اتنی ہو چکی ہے کہ 25 دسمبر تک وہ یہ ٹرین نہیں چلا سکیں گے‘ تاہم انہیں یہ ''لیٹ نکالنے‘‘ کے لیے الٹا بھی لٹکنا پڑا تو وہ گریز نہیں کریں گے۔ انہوں نے اس ''اشرافیہ‘‘ کو آڑے ہاتھوں لیا جو خود تو قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتی ہے لیکن عوام کے لیے آرام دہ اور باعزت سفر کے راستے میں روڑے اٹکاتی ہے۔