تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-03-2013

شعبدہ باز

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ میڈیا اور عدالتوں کی آزادی کے بعد شعبدہ بازی بہت دن جاری نہیں رہ سکتی۔ خدا کی قسم، بربادی کی طرف وہ گامزن ہیں۔ یہی ان کا شعار رہا اور لگتا ہے کہ یہی رہے گا تو کوئی حادثہ انہیں آلے گا، جلد کوئی برباد کن حادثہ! اگر پختونخوا کا گورنر اعلان یہ کرتا ہے کہ طالبان سے بات کرنے کے لیے گورنر ہائوس رابطے کا کام کرے گا تواخذ یہی کرنا چاہیے کہ مولانا فضل الرحمن کو صدر زرداری کی کچھ نہ کچھ تائید ضرور حاصل ہے۔ میاں محمد نوازشریف مولوی صاحب کے نئے سرپرست ہیں مگر جیسا گہرا ذاتی تعلق ان کا زرداری صاحب کے ساتھ ہے، میاں صاحب سے کبھی ہو سکتا ہی نہیں۔ میاں صاحب اقتدار کے لیے اب اتنے ہی بے تاب ہیں، جتنا کوئی بھوک کا مارا، کھانے کے انتظار میںہوتا ہے۔ رئوف کلاسرا نے لکھا ہے کہ لندن میں ان کے ہاں سارا وقت مولوی صاحب کے بارے میں لطائف سنائے جاتے۔ گویا ہمہ وقت تحقیر کا ہدف تھے۔ اس سے مگر کیا ہوتا ہے۔ سیاست ایک کاروبار ہے، وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، جہاں منافع ملے، جہاں نقصان سے بچا جا سکے۔ آدمی اپنی عادات کا غلام ہوتا ہے۔ انسانوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ جن تعصبات اور آرزوئوں کے ساتھ وہ پروان چڑھتے ہیں، انہی کے ساتھ قبروں میں جا اترتے ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب میں لکھا ہے: ’’کثرت کی آرزو نے تمہیں ہلاک کر ڈالا حتیٰ کہ تم نے قبریں جا دیکھیں‘‘ خام جبلّتوں کی گرفت میں جو جیتے ہیں‘ اپنا تجزیہ کرنے کی جنہیں کبھی توفیق نہیںہوتی، خواہشات کی وحشت میں وہ بروئے کار رہتے ہیں۔ بدترین نشہ، آدمی جس کا شکار ہوسکتا ہے، اقتدار اور غلبے کی آرزُو ہے۔ اس کی ہر قیمت وہ ادا کرتا ہے، حتیٰ کہ رُسوا ہو کر گور کنارے جاتا ہے۔ عرب شاعر اعشیٰ کی عمر اسّی برس ہوگئی تھی جب نورِ نبوت کی خبر اس تک پہنچی۔ اعشیٰ نے کہ امرائو القیس کی طرح رندی و شاہد بازی کا شاعر اور عربوں کی تاریخ میں خُمریات کا بانی ہے، مدینہ کا قصد کیا اور سرکار ؐ کی شان میں ایک قصیدہ لکھا۔ آج کا قاری کسی طرح اندازہ نہیں کرسکتا کہ قدیم عرب معاشرے میں شاعر کا مقام کیا تھا۔ شاید ایک پورے ٹیلی ویژن نیٹ ورک یا ایک معتبر اخبار سے بھی زیادہ۔ راستے میں قریش کے ایک وفد نے اسے آ لیا۔ایک روایت کے مطابق ابو سفیان بھی اُس وفد کا حصہ تھے۔ بے پناہ وہ فکرمند تھے۔ کہا جاتا کہ اعشیٰ جس کی مدح کر دے، آسمان تک اُسے پہنچا دیتا ہے اور جس کی مذمت، وہ دیارِ عرب کی وسعتوں میں رُسوا۔ انہوں نے اس سے کہا کہ تم جانتے نہیں کہ اگر اسلام قبول کر لیا تو کیسی پابندیاں تم پر عائد کر دی جائیں گی۔ پوچھا تو جواب ملا، جس چیز کے سب سے زیادہ تم آرزو مند رہتے ہو، یعنی حسینائوں کا قُرب۔ اس کے جبڑے بیٹھ چکے اور بال سفید ہوگئے تھے۔ بولا: اگرچہ میں نے اس چیز کو ترک نہ کیا لیکن وہ خود مجھے چھوڑ چکی ہے۔ پھر کہا: بادہ نوشی، جس کے لیے عرب و عجم کی وسعتوں میں عمر بھر تم پابہ رکاب رہے۔ بولا: اچھا، گھر میں تھوڑی سی پڑی ہے، پی کر تمام کرتا ہوں، یثرب کا بہرحال قصد ہے۔ پلٹ کر پی لی، اونٹنی پہ سوار ہوا، اسے ٹھوکر لگی اور وہیں وہ مر گیا۔ رسول اکرمؐ سے منسوب ایک جملے کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے ایمان کو تقریباً پا لیا تھا۔ صدیوں سے اس پر بحث ہے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ نامور شاعر ابوالعلاء معریٰ کا خیال یہ ہے کہ جس محبت سے سرکارؐ کی مدح اس نے کی، رحمتہ اللعالمینؐ کی شفاعت اس پر واجب ہو گئی۔ کل شب ادبی جریدے ’’سویرا‘‘ میں اعشیٰ پر لکھے گئے ڈاکٹر خورشید رضوی کے شاندار مضمون کا مطالعہ کرتے ہوئے، دیر تک میں سوچتا رہا، کس چیز کے بدلے میں کیا اس شخص نے کھو دیا؟ کن چیزوں کے بدلے میں ہم احمق‘ کیا کھو دیتے ہیں؟ وہ کہ جسے عرب تاریخ کا چوتھا عظیم ترین شاعر مانا گیا۔ وہ کہ عرب سرداروں نے ایک سو اونٹ اس کی خدمت میں پیش کیے تھے کہ ان کی ایک بات مان لے۔ جو محض اپنے اشعار کے بل کئی بار مصائب سے نجات پا سکا، ایران کے کسریٰ سمیت جود و سخا کے اہل بادشاہوں کے دربار جس کا انتظار کرتے تھے۔ آدمیت کے اس ضیاع پر اقبالؔ آزردہ ہوئے۔ ع کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی؟ اور یہ کہا: ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن میں خیمۂِ گُل یہی ہے فصل بہاری؟ یہی ہے بادِ مراد؟ شاعر کا غم بجا۔ نقاد کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ کا یہ عظیم ترین شاعر درد کا بنا ہوا تھا۔ احساس کی ایسی شدت اس میں تھی کہ سوز و گداز گاہے بہا لے جاتے۔ یوں بھی شعر ایک لمحاتی کیفیت کا غماز ہوتا ہے، کم ہی کسی نقطۂ نظر اور فلسفۂ حیات کا مظہر۔ آدمی کو کیا مہلت نہیں دی جاتی؟ بار بار نہیں دی جاتی؟ کیا یہ وعدہ اس سے نہیں کیا گیا کہ اس کے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے۔ اس سے بھی بڑھ کر کیا سب سے سچا وعدہ کرنے والے کی یہ پیشکش ہمیشہ کے لیے موجود نہیں کہ تائب اگر اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو اس کے سب گناہ نیکیوں سے بدل دیے جائیں گے۔ فرمان مگر یہ ہے: لوگ سوئے پڑے ہیں، موت آئے گی، تب جاگیں گے۔ پاکستانی معاشرہ ادبار کے آخری مرحلے میں آ پہنچا۔ آصف علی زرداری جیسا آدمی، اس کا حکمران اور نوازشریف اس کا اپوزیشن لیڈر ہے۔ بیشتر لوگوں کے خیال میں ملک کا آئندہ وزیراعظم… اور یہ دونوں آدمی کون ہیں؟ عشروں تک دونوں ہاتھوں سے ملک کو لُوٹ لُوٹ کر جو کچھ انہوں نے جمع کیا، اس کا بیشتر حصہ بیرونِ ملک انہوں نے بھیج دیا۔ ملک کے مستقبل پر اظہارِ عدمِ اعتماد کر دیا۔ اغلب گمان یہ ہے کہ خدانحواستہ خطرات اگر اور بڑھ گئے تو اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر، ان دونوں سمیت سارے ارب اور کھرب پتی سمندر پار چلے جائیں گے۔ بہت سے جا بھی چکے۔ ہزاروں اپنا سب کچھ سمیٹ کر، اپنی اولادوں سمیت دور دیسوں میں جا بسے ہیں۔ کب اٹھے گی؟ خدا کی مخلوق کب اٹھے گی؟ کل جماعتی کانفرنس سے پہلے مولانا فضل الرحمن نوازشریف کے حلیف بن گئے اور کانفرنس کے بعد وہ امریکی سفیر سے ملے۔ چلیے، بدگمانی سے کام نہ لیجیے۔ اس کے باوجود کہ وکی لیکس کے مطابق موصوف نے ایک بار امریکی سفیر سے وزارت عظمیٰ بخشنے کی استدعا کی تھی۔ مان لیجیے کہ ہرگز انہوں نے کوئی قابلِ اعتراض بات نہ کی ہوگی۔ یہ تو مگر آشکار ہے کہ پاکستان کے فیصلے، پاکستان سے زیادہ واشنگٹن میں ہو رہے ہیں۔ امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کا آغاز کیا تو پاکستانی لیڈر بھی آمادہ ہو گئے۔ امن کا حصول اگر ممکن ہے‘ خوں ریزی اگر تھم سکتی ہے تو بات چیت ہونی چاہیے اور لازماً ہونی چاہیے۔ قیادت مگر پہل قدمی کا نام ہوتی ہے، پیروی کا نہیں۔ یکسوئی طلب کرتی ہے، بے دلی اور کاوشِ ناتمام نہیں۔ عمران خان تو ظاہر ہے کہ امریکہ کے لیے قابل قبول ہے اور نہ طالبان کے لیے کہ بہرحال مردِ آزاد ہے۔ صدر آصف علی زرداری اور میاں صاحب کیوں ذمہ داری قبول نہیں کرتے؟ وہ دونوں جنرل اشفاق پرویز کیانی سے کیوں بات نہیں کرتے؟ سرگرمیاں پسِ پردہ بھی ہونی چاہئیں مگر سب کی سب کیوں؟ قوم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا جاتا؟ پھر یہ گمان تو لازماً ہوگا کہ یہ محض وقت گزارنے کا منصوبہ ہے۔ فقط پُرامن الیکشن حاصل کرنے کی کوشش کی کہ ملک خواہ آگ میں جلتا رہے، کسی نہ کسی طرح اقتدار حاصل کر لیا جائے۔ اٹھارہ کے اٹھارہ کروڑ کیا اندھے ہیں؟ کیا اللہ نے اپنی کائنات شیطان کے حوالے کر دی ہے؟ کیا مکافاتِ عمل کا دائمی قانون پاکستانی سیاست دانوں کے لیے معطّل ہو چکا اور کیا وہ اپنے کیے کی سزا نہ پائیں گے؟ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ میڈیا اور عدالتوں کی آزادی کے بعد شعبدہ بازی بہت دن جاری نہیں رہ سکتی۔ خدا کی قسم، بربادی کی طرف وہ گامزن ہیں۔ یہی ان کا شعار رہا اور لگتا ہے کہ یہی رہے گا تو کوئی حادثہ انہیں آلے گا، جلد کوئی برباد کن حادثہ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved