تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     11-10-2017

نواز شریف ( سب کے ساتھ) حاضر ہوں!

چند دن پہلے کی بات ہے کہ میں اسلام آباد میں ایک سے دوسری جگہ جاتے ہوئے راستہ بھٹک گیا۔ اجنبی شہر میں راستہ تھوڑا سا بھی نامانوس لگے تو مسافر فوری طور پر کسی سے رہنمائی کا طلب گار ہوتا ہے، سو میں نے سامنے نظر آنے والے بس سٹاپ پر گاڑی روکی اور وہاں کھڑے ایک بزرگ سے زیرو پوائنٹ کا راستہ پوچھا۔ انہوں نے پہلے مجھے راستہ سمجھایا اور پھر کہا: اگر آپ کو ناگوار نہ ہو تو مجھے بھی ساتھ لے چلیے۔ میں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور وہ حضرت ساتھ بیٹھ گئے۔ بیٹھنے کے بعد ایک لمحہ میرا چہرہ دیکھا اور ذرا مسرت سے بولے، ''ارے آپ تو حبیب اکرم ہیں، دنیا ٹی وی والے‘‘۔ میں نے رسماً پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں‘ تو انہوں نے راولپنڈی میں کسی دکان کا ذکر کیا جہاں وہ سیلزمین کے طور پر کام کرتے تھے‘ اور یہ بھی بتایا کہ وہ میٹرو بس کے سٹیشن پر اتر کر راولپنڈی جانے والی بس پکڑیں گے۔ میٹرو بس کا ذکر کرتے ہوئے وہ کچھ پُرجوش ہو گئے اور بتانے لگے کہ جب سے میٹرو بس بنی ہے انہیں اس کا کتنا فائدہ ہوا اور یہ سہولت دینے پر نواز شریف کی حمایت میں ایک چھوٹی سی تقریر بھی فرما دی، عدالت سے ان کی نااہلی پر کچھ تاسف کا اظہار کیا اور پھر مجھ سے وہی سوال کیا جو ہر صحافی سے بار بار کیا جاتا ہے یعنی ''اب کیا ہو گا؟‘‘۔ میں نے کوئی جواب دینے کی بجائے ان سے درخواست کی کہ وہ اپنا تجزیہ پیش کریں۔ اس پر فرمایا، اگر تو نواز شریف اور ان کے بچے عدالت اور عوام کو اپنی دولت کے ذرائع کے حوالے سے مطمئن کر گئے تو آئندہ الیکشن میں انہیں جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا، اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر یہ خاندان اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ماضی کا حصہ بن جائے گا۔ میں نے فیصلے پر نواز شریف کے اٹھائے ہوئے سوالات و خدشات کا ذکر کیا تو کہنے لگے، ''میں انیس سو اٹھاسی سے نواز شریف کو ووٹ دیتا آ رہا ہوں، یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ان کے ساتھ کچھ زیادتی ہوئی ہے لیکن میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ نواز شریف اور ان کے بچوں کی دولت کے بارے میں مجھے مکمل معلومات ہوں۔ میں نواز شریف کو سچا ثابت ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ میں نے پوچھا: کیا نواز شریف کو انصاف مل جائے گا؟ تو وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بولے، تو پھر عوام ہیں ناں جو کبھی ناانصافی نہیں کریں گے۔ ان کی بات ختم ہوئی تو ہم میٹرو سٹیشن تک پہنچ چکے تھے؛ چنانچہ وہ خدا حافظ کہہ کر گاڑی سے اتر گئے۔ 
یہ بزرگ واحد آدمی نہیں ہیں جو نواز شریف سے محبت کے باوجود انہیں عدالت میں پیش ہو کر اپنی معصومیت ثابت کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ پچھلے کچھ دنوں میں پاکستان کے جس شہر کے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی انہوں نے نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی پر ان کی توصیف بھی کی اور ان کے بچوں کی عدم پیشی پر تنقید بھی۔ حیرت انگیز طور پر وہی لوگ جو چند دن پہلے تک نواز شریف کی نااہلی پر جزبز تھے، آج انہیں ملک کے قانونی نظام سے گزر کر سرخرو ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ مجھے رائے عامہ کی پیمائش کے طریقِ کار معلوم نہیں مگر ایک صحافی کے طور پر میرا مشاہدہ ضرور ہے کہ جب معاشرے کے فعال طبقات کسی ایک بات پر یکسو ہو جائیں تو اسے آوازِ خلق بنتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ نواز شریف کی نااہلی اور پھر احتساب عدالت میں پیشی نے پاکستان میں ایک دوسرے سوال کو بھی جنم دیا ہے کہ کیا صرف سیاستدان ہی نظام کی چکی میں پیسے جائیں گے یا کبھی
کچھ دوسرے صاحبانِ قوت و جبروت بھی کٹہرے میں کھڑے ہوں گے؟ یہ سوال اتنا اہم ہے کہ خود نواز شریف نے چند صحافیوں کے سامنے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ پاکستان میں قانون کی سو فیصد حکمرانی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور اس کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔ ظاہر ہے نواز شریف اسی صورت میں عوام کو اپنے موقف سے ہم آہنگ کر سکیں گے جب وہ خود عدالتی نظام سے گزر کر مثال قائم کریں گے۔ اگر انہوں نے اپنے خاندان کی دولت کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کو انتقام قرار دینے پر اصرار جاری رکھا تو شاید انہیں اپنے عزم کو عمل میں لانے کے لیے مطلوب عوامی پذیرائی میسر نہ آ سکے۔ 
ممکن ہے نواز شریف اور ان کا خاندان اپنے خلاف قائم کردہ احتساب ریفرنس میں لگائے گئے الزامات پر اتفاق نہ کرے۔ اس بات کا امکان بھی ہے کہ دی گئی دستاویزات عدالتوں میں قابل قبول نہ ہوں۔ یہ ساری بحث اپنی جگہ لیکن یہ طے ہے کہ عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی صورت میں نواز شریف کی ایمانداری پر ایک ایسا سوالیہ نشان لگا دیا ہے‘ جسے مٹانے کے لیے انہیں اپنے بچوں سمیت نہ صرف عدالت کے سامنے پیش ہونا ہو گا بلکہ اس سوال کا قائل کرنے والا جواب عوام کو بھی دینا ہو گا۔ اگر انہوں نے یا ان کے بچوں نے اس سوال کا جواب دینے کی بجائے قانونی کمزوریوں کے پیچھے چھپے رہنے کو ترجیح دی تو پھر مقدمات میں پڑا یہ سوال آئندہ الیکشن میں بھی ان کا پیچھا کرے گا۔ بلاشبہ نواز شریف نے بڑی مہارت سے سپریم کورٹ کی طرف سے ملنے والے نااہلی کے داغ کو تمغہء جمہوریت بنا کر سینے پر سجا لیا ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کی نااہلی کے بارے ان کا ترتیب دیا گیا بیانیہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات تک بھی قائم رہے گا۔ اگر ان کے دونوں بیٹے پاکستان کی عدالت میں پیش ہونے کی بجائے لندن میں بیٹھ کر ٹویٹر کے ذریعے اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کریں گے تو اس کا انہیں کوئی فائدہ ہو گا۔ نہ خود نواز شریف یا مریم نواز کو۔ نواز شریف نے نااہلی کا فیصلے پر تحفظات کے باوجود اس کا احترام کر کے اور اعتراضات کے باوجود احتساب عدالت میں پیش ہو کر جو
مثال قائم کی ہے، اس کی پیروی انہیں اپنے بیٹوں سے بھی کرانی ہے۔ یہ برطانیہ نہیں جہاں باپ بڑی سہولت کے ساتھ بیٹوں سے کنارہ کش ہو سکتا ہے، یہ پاکستان ہے جہاں بیٹے اور باپ ایک دوسرے کا عکس ہوتے ہیں۔ شاید پاکستان کے لوگوں کو یہ بات پسند نہ آئے کہ نواز شریف یہاں تو عدالت میں پیش ہوں مگر لندن میں اپنے اشتہاری بیٹوں کے گھر میں قیام رکھیں۔ یوں بھی جب سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی میں نواز شریف پیش ہوئے تھے تو انہوں نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ ''میرے بچوں نے جو کچھ آپ کے سامنے کہا ہے، مجھے اس کی تفصیل نہیں معلوم لیکن انہوں نے جو کچھ بھی کہا ہے، میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں‘‘۔ اس لیے جب ان کا چھوٹا بیٹا حسن نواز کہتا ہے کہ ''میں بائیس سال سے لندن میں ہوں اس لیے مجھے اشتہاری قرار نہیں دیا جا سکتا‘‘ تو اس کی ذمہ داری بھی انہیں ہی لینا ہو گی۔ اگر نواز شریف اپنے بچوں کے ساتھ احتساب کے اس امتحان سے گزر گئے تو پھر وہ پاکستانی تاریخ کے طاقتور ترین سیاستدان بن کر ابھریں گے اور اگر ان کے بچوں نے اس موقع پر ان کا ساتھ نہ دیا تو نہ صرف ان کی کمزوری عیاں ہو جائے گی بلکہ ان کی سیاسی وارث مریم نواز کا مستقبل بھی مخدوش ہو جائے گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved