تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     11-10-2017

انسان کی کوتاہ بینی

انسانوں کی غالب اکثریت بد عملی اور گناہوں کے نتائج سے بے پروا ہو کر وقتی مفادات اور خواہشات کو پورا کرنے کے پیچھے لگی رہتی ہے۔ انسان اپنے تئیں یہ گمان کرتا ہے کہ شاید وہ ہمیشہ اس دنیا میں رہے گا اور دنیا کی تمام نعمتیں اور عروج ہمیشہ اس کے ساتھ ہی رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کے دلائل کتاب وسنت اور تاریخ میں اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو نظر انداز وہی آدمی کر سکتا ہے جو عقل اور بصیرت سے محروم ہوچکا ہو ۔ افراد اور اقوام کے عروج کے بعد ان کا زوال انسانوں کے لیے باعث عبرت ہے اور اس میں ایک پیغام ہے کہ حقیقی بادشاہت فقط اللہ ہی کی ہے اورا س کی نافرمانی بالآخر انسانوں کی دنیا اور آخرت کی تباہی پر منتج ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جب ابلیس مسلسل بندگی اور عبادت کی وجہ سے فرشتوں کا ہم نشیں ہو چکا تھا۔ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ ہو گیا اور قیامت تک کے لیے لعنتیں اس کا مقدر ٹھہریں۔ 
اللہ تعالیٰ نے سورہ ہود میں ان اقوام کا ذکر کیا جو دنیا میں تباہی اور بربادی کا نشانہ بنیں۔ ان کی تباہی کا بڑا سبب یہ تھا کہ انبیائے سابقہ ان کو متواتر اللہ تعالیٰ کا پیغام سناتے رہے لیکن وہ اللہ کے پیغام اور انبیاء علیہم السلام کی نصیحت آموز گفتگو کو سن کر بھی اصلاح پر تیار نہ ہوئے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے قوم نوح کا ذکرکیا۔ اس کے پاس حضرت نوح ؑ تشریف لائے اور اُن کو 950 برس تک اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے۔ لیکن قوم نوح ؑکے لوگ اپنی اصلاح پر تیار نہ ہوئے۔ حضرت نوح ؑصبح وشام ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے۔ وہ آپ کی بات سن کر اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ڈال لیتے اورآپ کو (معاذ اللہ) دیوانہ اور مجنون کہتے اور ظلم کی انتہا یہ کہ آپ کو پتھر مارنے سے بھی گریز نہ کرتے تھے ۔ ان کی سر کشی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک طوفان ان پر مسلط کر دیا اور پوری کی پوری قوم ‘سوائے ان چند لوگوں کے جو حضرت نوح ؑکی کشتی میں سوار ہو گئے، اس طوفان کا نشانہ بن گئی۔ اسی طرح قوم عاد کے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے۔ قوم عاد کے لوگ اپنی طاقت اور صلاحیتیوں پر گھمنڈ کرتے اور اللہ تعالیٰ کی توحید سے انکار کیا کرتے تھے۔ حضرت ہود ؑ تواتر سے ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے، لیکن انہوں نے حضرت ہود ؑکی دعوت کو قبول نہ کیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کا ذکر کیا جن کے پاس حضرت صالح ؑ آئے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی۔ قوم کے لوگوں نے حضرت صالح ؑکی دعوت کو ٹھکرایا پھر آزمائش کے طور پر ان سے نشانی کا سوال کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے ایک اونٹنی اور اس کے بچے کی شکل میں قوم ثمود کے لیے ایک نشانی کو ظاہر فرمایا۔ اونٹنی پوری بستی کی چراگاہوں میں چرتی اور اتنا دودھ دیتی کہ پوری بستی کے لوگ اس کے دودھ سے سیراب ہو جاتے۔ قوم ثمود نے بغیر ماں باپ کے پیدا ہونے والی اونٹنی اور بغیر باپ کے پیدا ہونے وا لے اونٹنی کے بچے جیسی نشانی کو دیکھ کر بھی اپنی حرکات اور اپنے طرز عمل کو نہ بدلا تو اللہ نے ان پر ایک چنگھاڑ کو مسلط کیا اور وہ اس کے نتیجے میں تباہی اور بربادی کا نشانہ بن گئے۔ اسی طرح اللہ نے قرآن مجید میں قوم لوط کا ذکر کیا۔ حضرت لوط ؑاپنی قوم کے لوگوں کی اصلاح کے لیے ان کو تواتر کے ساتھ سیدھے اور حلال راستے کی طرف آنے کی دعوت دیتے رہے، لیکن انہوں نے حضرت لوط ؑ کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور ہم جنسیت جیسے قبیح فعل پر اصرار کرتے رہے۔اللہ نے بدکرداروں کی پوری بستی کو اُلٹا دیا اور پتھروں کے ذریعے مجرموںکے چہروں اور جسموں کو مسخ کردیا اور ان کو رہتی دنیا تک کے لیے سامان عبرت بنا دیا۔ مدین کے لوگ توحید سے اعراض کرنے کے ساتھ ساتھ ماپ تول میں کمی کیا کرتے اور اس کو اپنے کاروبار کے لیے ضروری خیال کرتے تھے۔ حضرت شعیب ؑ ان کی اصلاح کے لیے ان کو بڑے خلوص اور تحمل کے ساتھ اللہ کا پیغام سناتے رہے لیکن انہوں نے حضرت شعیب ؑکی نصیحت کو قبول نہ کیا اور آپس میں اس طرح کی باتیں کرتے کہ اگر تم نے حضرت شعیب ؑکی نصیحت کو مان لیا تو تمہارا کاروبار خسارے کا شکار ہو جائے گا۔ اللہ نے ایک چنگھاڑ کو ان پر مسلط کیا اور وہ اسی طرح تبارہ وبرباد ہو گئے جس طرح قوم ثمود کے لوگ تباہ وبرباد ہوئے تھے۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑکے دور کے نافرمان بادشاہ کا ذکر کیا ہے جو اپنے آپ کو رب سمجھتا تھا۔ ابراہیم ؑنے اس کے سامنے اللہ کی ذات کے حوالے سے اس امر کا اعلان کیا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی۔ تو نمرود نے کہا میں بھی زندہ کرتا اور مارتا بھی ہوں۔ حضرت ابراہیم ؑنے اس موقع پر اعلان فرمایا اللہ تعالیٰ وہ ہے جو سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے پس تو سورج کو مغرب سے لے کر آ؟ اس واضح دلیل کو سن کر نمرود کے لبوں پر چپ کی مہر لگ جاتی ہے۔ گردش دوراں نے اس بات کو ثابت کیا کہ نمرود کا وقتی عروج اس کے کسی کام نہ آیا۔ اللہ نے نمرود کو قصہ ٔ پارینہ بنا دیا۔ اور اس کے مدمقابل حضرت ابراہیم ؑکے نام اور پیغام کو رہتی دنیا تک کے لیے زندہ و جاوید کر دیا۔ قرآن مجید میں جا بجا حضرت موسیٰ ؑکے عہد کا بھی ذکر موجود ہے۔ فرعون کو اپنے اقتدار اور اپنی سلطنت پر گھمنڈ تھا اور وہ اپنے آپ کو رب کہا کرتا تھا۔ اللہ کی بہت سی نشانیاں اور عذابوں کو دیکھنے کے باوجود فرعون اللہ کی نافرمانی پر آمادہ و تیار رہا، یہاں تک کہ آخری وقت جب وہ سمندر کی لہروں میں غرق ہونے لگا تو اس نے اسلام اور ایمان کے راستے کو اختیار کرنے کا اعلان کیا لیکن تواتر کے ساتھ اللہ کی توحید اور اس کی نشانیوں کو ٹھکرانے کی وجہ سے آخری وقت میں اس کے اقرار کو مسترد کر دیا گیا۔ اسی طرح قرآن مجید میں قارون کا بھی ذکر موجود ہے کہ جس کو اللہ نے سرمائے اور دولت سے نوازا تھا، لیکن وہ سرمائے اور دولت کی وجہ سے گھمنڈ کا شکار ہو گیا۔ اس گھمنڈ اور غرور کی وجہ سے وہ کسی بھی نصیحت کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہ ہوتا تھا۔ اہل علم اس کو احسان کی تلقین کرتے اور فساد سے منع کرتے اور آخرت کی یاد دہانی کرواتے۔ لیکن وہ ان کی نصیحت کو ماننے پر تیار نہ ہوتا۔ دنیا دار لوگ قارون کے سرمائے اور عروج کو دیکھ کر مرعوب ہو جاتے۔ ایسے میں اہل علم ان لوگوں کو نصیحت کرتے کہ دنیا کے مال و اسباب کو دیکھ کر متاثر ہونے کی بجائے ہماری نگاہ اللہ کی طرف سے ملنے والے اجروثواب پر ہونی چاہیے۔ اللہ نے قارون کو اپنے غضب کا نشانہ بنایا اور اس کو اس کے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ یہ منظر دیکھ کر وہ لوگ جو قارون کے مال کو حاصل کرنے کی تمنا کر رہے تھے سمجھ گئے کہ علماء نے جس بات کا تجزیہ کیا وہ درست اور صحیح تھا۔ 
سورہ نحل میں اللہ نے ایک ایسی بستی کا ذکر کیا جس کو امن اور رزق کی نعمت میسر تھی لیکن جب انہوں نے اللہ کی نعمتوں کو جھٹلایا تو اللہ نے ان پر بھوک اور خوف کے عذاب کو مسلط کر دیا۔ اسی طرح اللہ سورہ کہف میں دو زمینداروں کا ذکر کیا جن میں سے ایک زمیندار اللہ کی عبادت کرنے والا اور دوسرا اللہ کی ملاقات کو جھٹلانے والا تھا ۔ امیرزمیندار کو اپنے پھل اور باغات کی ہریالی پر ناز تھا لیکن اللہ نے اس کے گھمنڈ کی وجہ سے تمام کی تما کھیتی کو برباد کردیا۔ قرآن مجید کی سورہ لہب میں اللہ نے ابو لہب اور اس کی بیوی کی ناکامی کا ذکر کیا ہے ابو لہب کا مال ودولت ، قبیلہ اور خوبصورتی اس کے کسی کام نہیں آیا اور وہ اللہ کی توحید اور نبی کریم ﷺ کی رسالت کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے رہتی دنیا تک بدنامی اور رسوائی کی علامت بن گیا۔ 
قرآن مجید میں مذکور قوموں اور افراد کے برے انجام کو پڑھ کر اس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ کوئی بھی فردیا قوم اپنے آپ کو اس وقت تباہی کے گھاٹ اتارنے پر تیار کر لیتی ہے جب وہ کسی بھی صورت اپنی اصلاح یا اپنے معاملات کو درست پر آمادہ و تیار نہیں ہوتی۔ آج اگرہم اپنے گرد و پیش کو دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر بھی اقوام سابقہ کی بہت سی عادات بد پائی جاتی ہیں۔ آج ہمارے ہاں بد اعتقادی، جنسی بے راہ روی، ماپ تول میں کمی، اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کے عطا کردہ مال پر اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے گھمنڈ اور تکبر کرنا عام ہے۔ اگرہم اپنی اصلاح نہیں کریں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن سے پہلے دنیا میں بھی ہم پر گرفت کر سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کی اجتماعی ہلاکت سے بچاؤ کی دعا کی تھی، اس کی وجہ سے امت مسلمہ اجتماعی عذابوں کا نشانہ نہیں بنی لیکن انفرادی اور جزوی عذاب آنے کا سلسلہ تاحال باقی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ آخرت کے عذاب سے پہلے پہلے دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت پر بھی نظر رکھیں اور ہر قیمت پر اپنی اصلاح کرنے کی جستجو بھی کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیںہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے بچائے اور صراط مستقیم پر چلائے۔ آمین! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved