تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-10-2017

بات گدھوں تک آ پہنچی ہے

حالات کی روش کیا تبدیل ہوئی ہے، طرح طرح کے خطرات خود رَو پودوں اور جھاڑیوں کے مانند اُگ رہے ہیں۔ جسے دیکھیے وہ خطرات کا رونا رو رہا ہے۔ کوئی بھی اپنے حالات سے خوش نہیں۔ سب کا شِکوہ یہ ہے کہ حالات قدم قدم پر کوئی نہ کوئی بحران کھڑا کر رہے ہیں۔
اِس وقت بحران پیدا کرنے میں بظاہر چین کا کوئی ثانی نہیں۔ جب سے اُس نے علاقائی سطح پر جامع اور خاصی نمایاں سیاسی و معاشی بالا دستی قائم کرکے عالمی سیاست و معیشت کے میدان میں قدم رکھا ہے ہر طرف ''ہٹو، بچو‘‘ کا شور برپا ہے۔ بہت سے بُرج ہل رہے ہیں، سُتون لرزاں ہیں۔ مغرب کا حال بہت پتلا ہے۔ عالمی سیاست و معیشت نیز مالیاتی نظام پر مغرب کا تصرّف اگرچہ برقرار ہے مگر انحطاط کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ مغربی قائدین کے ماتھے پر پریشانی کی لکیریں گہری اور نمایاں ہوتی جارہی ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں؟ چین تیزی سے قدم منزلیں ہوا آگے جو بڑھ رہا ہے۔
معاملہ سپر پاور اور کے حاشیہ برداروں تک رہتا تو اور بات تھی۔ چین جتنی تیزی سے ترقی کرتا جارہا ہے اُتنی ہی تیزی سے صارف معاشرے میں بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ جن کی جیب میں مال ہو وہ کھانے پینے، پہننے اوڑھنے اور رہنے سہنے تک تمام معاملات کو اپ گریڈ کرنا چاہتے ہیں۔ ذاتی مالیات کا گراف بلند ہو تو انسان اپنی مرضی کی چیزیں کھانا اور اپنی پسند کے کپڑے پہننا چاہتا ہے۔ چین میں بھی اس وقت یہی ہو رہا ہے۔ دنیا بھر سے طرح طرح کی چیزیں درآمد کی جارہی ہیں۔ درآمدات کا بڑا حصہ اشیائے صرف پر مشتمل ہے یعنی اپنی آمدنی کو حقیقی معنوں میں صرف کرکے زندگی کا بھرپور لطف اٹھانا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر سے خریداری کی جارہی ہے۔ داؤ پر تو اور بھی بہت کچھ لگا ہوگا مگر تان ٹوٹی ہے گدھوں پر! ویسے جب بھی چند اقوام ترقی کی دوڑ میں آگے نکل کر خود کو لمبی ریس کا گھوڑے ثابت کرتی ہیں، گدھوں کی شامت آ ہی جاتی ہے!
چھوٹا بھائی تھوڑا سا لاڈلا ضرور ہوتا ہے مگر خیر اُسے بہت کچھ جھیلنا بھی پڑتا ہے۔ چھوٹے بھائی کو ہر معاملے میں بڑے بھائی کی بات سُننا اور ماننا پڑتی ہے۔ عام طور پر لوگ چھوٹے بھائی کو کم فہم و فراست رکھنے والا اور ناتجربہ کار سمجھتے ہیں۔ وہ جب بھی کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتا ہے جھٹ سے کہہ دیا جاتا ہے تو چپ رہ، تجھے کیا معلوم! اِسی لیے فارسی میں کہتے ہیں خر باش، برادرِ خورد مباش! یعنی اگر بننا ہی پڑے تو گدھا بن جانا، چھوٹا بھائی ہرگز نہ بننا! زیڈ اے بخاری کو بھی بڑے بھائی احمد شاہ بخاری (پطرس) کی بہت سی باتیں سُننا اور ماننا پڑتی تھیں۔ ایک بار سرِ محفل بھائی صاحب نے کچھ کہہ دیا تو زیڈ اے بخاری خاصے بے مزا ہوئے اور جاتے جاتے بڑبڑانے کے انداز سے کہا ''سگ باش، برادرِ سگ مباش!‘‘
یہ تو خیر جملۂ معترضہ تھا۔ جب سے چینیوں نے گدھا خوری کے رجحان کی رسّی ڈھیلی چھوڑی ہے، دنیا بھر سے گدھے، ان کا گوشت اور کھالیں تینوں ہی کی بڑے پیمانے پر درآمد جاری ہے۔ صورتِ حال ہے ہی ایسی کہ فارسی کے محاورے میں کچھ ترمیم کرنا پڑے گی۔ ''گدھا بن، چھوٹا بھائی نہ بن‘‘ کے بجائے اب کہنا پڑے گا کہ گدھا بننے سے بھی گریز کرنا ورنہ بے موت مارا جائے گا!
جب سے چین دنیا کے سب سے بڑے پروڈکشن یونٹ میں تبدیل ہوا ہے تب سے کتنی ہی چھوٹی بڑی معیشتوں کی شامت آئی ہوئی ہے۔ متعدد ممالک مینوفیکچرنگ سیکٹر سے بہت کچھ کماتے تھے۔ اب چین اُن کی راہ میں دیوار بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ ایسے میں معیشتوں کے لیے ٹریک بدلنا لازم ہوگیا ہے۔
یہ تو ہوئی معیشتوں کی بات۔ اور خود چین میں بھی گدھوں کی شامت آگئی ہے۔ وہ بے چارے تو ٹریک بدلنے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے۔ اہلِ چین گدھے کا گوشت بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کچھ مدت سے گدھے کا گوشت بیچے جانے کی اطلاعات ملی ہیں۔ ہوسکتا ہے یاروں نے چینیوں کی گدھا خوری دیکھتے ہوئے پاک چین دوستی کی لاج رکھنے کی خاطر گدھے کا گوشت مارکیٹ میں چلا دیا ہو!
گزشتہ دنوں یہ خبر آئی کہ چینیوں کی گدھا خوری نے ان بے زبانوں کے لیے شدید بحرانی کیفیت پیدا کردی ہے۔ 1990 میں چین میں ایک کروڑ 10 لاکھ گدھے تھے، اب 30 لاکھ رہ گئے ہیں۔ باہر سے گدھے منگوائے جارہے ہیں۔ یوگینڈا، کانگو، سینیگال اور کئی دوسرے افریقی ممالک نے چین کو گدھوں کی برآمد روک دی ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ یہ رجحان برقرار رہا تو ان کے ہاں ایک بھی گدھا نہ رہے گا۔
ایک طرف تو یہ حقیقت ہے کہ چینیوں کو گدھے کا گوشت بہت بھاتا ہے اور دوسری طرف گدھے کا صنعتی مصرف بھی ہے۔ اُس کی کھال کو پگھلانے سے جیلاٹین بھی حاصل ہوتی ہے جو 338 ڈالر فی کلو تک کے نرخ پر فروخت ہوتی ہے۔ جیلاٹین آرائش کی اشیاء اور دوسری بہت سی مصنوعات میں استعمال کی جاتی ہے۔ جیلاٹین کے حصول کے لیے گدھوں کی کھال اتارنے کا عمل تیز ہوگیا ہے۔
محنت کرنے میں چینیوں کا کوئی ثانی نہیں۔ اگر وہ گدھے کا گوشت کھا کھاکر محنتی ہوئے ہوتے تو ہم پاکستان میں گدھے کا گوشت چلانے کی کوشش کرنے والوں کو داد دیتے کہ وہ قوم کو محنتی بنانا چاہتے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ چینیوں نے محنت کے ذریعے ترقی پہلے کی اور گدھے کے گوشت سے رغبت کا مظاہرہ بعد میں کیا۔ پس ثابت ہوا کہ جب ترقی کرنے والوںکی جیبیں بھرتی ہیں تو گدھے مارے جاتے ہیں!
مارے جانے کے معاملے میں ہمارے ہاں گدھوں کو اب تک استثناء میسر ہے۔ ہمارے ہاں اب تک حالت یہ ہے کہ جو جتنا گدھا ہے وہ اُسی قدر مزے کر رہا ہے! گدھے کے گوشت کی فروخت پر ملک بھر میں شور شاید اِسی لیے مچایا گیا کہ یہ رجحان زور پکڑ گیا تو کچھ کیے بغیر زندگی کا بھرپور مزا لوٹنے والے بہت سے گدھے بے موت مارے جائیں گے!
چین نے ترقی کی ہے تو دنیا بھر کے لوگوں کو گدھوں کی قدر و قیمت کا کچھ اندازہ ہوا ہے۔ اب تک تو اُنہیں بار برداری کا جانور سمجھ کر کھڈے لین لگایا جاتا رہا ہے۔ جیلاٹین کے حصول کا ذریعہ ہونے کی بنیاد پر اب ان کی ناز برداری کی جارہی ہے۔ چینیوں نے گدھے کے گوشت سے رغبت بڑھاکر دنیا بھر میں گدھا پروری کے رجحان کو فروغ دیا ہے۔
افریقیوں کو اپنے گدھوں کے بچانے کی فکر ہے اور ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ چینیوں کی گدھا خوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے معیشت پر بوجھ بنے ہوئے سرکاری اور غیر سرکاری گدھوں سے جان چھڑالیں! فرماں برداری اور جاں فشانی میں گدھوں کا ثانی کوئی نہیں۔ اصولاً تو محنت کرنے والوں کو گدھا قرار دیا جانا چاہیے (!) مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔ انتہائی ہڈ حرامی اور مفت خوری کرنے والوں کو گدھا کہہ کر ''عزت افزائی‘‘ کی جاتی ہے! یہ اور بات ہے کہ دن رات محنت کرنے والوںکو بھی خواہ برملا نہ کہا جائے مگر سمجھا تو گدھا ہی جاتا ہے!
اچھا ہے کہ ہم اِس کالم کو یہیں ختم کردیں۔ اگر کہیں مرزا تنقید بیگ آدھمکے اور ساری بات اُنہیں معلوم ہوئی تو وہ اِس ''افسانۂ گدا‘‘ کو کسی نہ کسی طور ہمارے ذکرِ خیر سے آراستہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ہم ''بے فضول میں‘‘ بے مزا ہوکر رہ جائیںگے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved