تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     13-10-2017

یار میں کہاں پھنس گیا…!

اس ہفتے پارلیمنٹ اور کمیٹیوں کے اجلاس کی کارروائی دیکھنے میں مصروف رہا۔ ملک کو درپیش خطرات بڑھتے جا رہے ہیں اور میری پریشانی یہ ہے کہ کوئی سنجیدگی سے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تیار نہیں۔ قومی اسمبلی کا ہائوس خالی ہے۔ کسی کو دلچسپی نہیں کہ حالات درست کیسے ہوں گے۔ جس طرح پی آئی اے کے طیارے کو جرمن میوزیم کو بیچنے پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا‘ میں حیران رہ گیا کہ ان کی اپنی سائیکل چوری ہو جائے تو یہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھیں جب تک مل نہ جائے۔ یہاں کوئی کروڑوں روپے کا جہاز اڑا کر لے گیا اور وہ سب اس موضوع پر مذاق کر رہے تھے۔ کسی کو وزیر اعظم ہائوس میں بیٹھ کر خیال آیا کہ کچھ مال بناتے ہیں۔ سری لنکا سے ایک جہاز مہنگے کرائے پر لیا اور چھ ماہ بعد واپس کر دیا گیا۔ ایک ارب بیس کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ جس نے مال کمانا تھا وہ کما کر چلتا بنا۔ پاکستان کو اس سال تیس ارب ڈالر چاہئیں ورنہ ڈیفالٹر ہونے کے لیے تیار رہیں۔ دوسری طرف آٹھ ارب درہم کی جائیداد پاکستانیوں نے دبئی میں خرید لی ہے۔ ملکی اکانومی اسحاق ڈار نے تباہ کر دی۔ اب تو پاکستان آرمی بھی معیشت پر سیمینار کرانے لگی ہے کہ حالات بہت خراب ہو گئے ہیں۔ 
میری آنکھوں کے سامنے روزانہ سکینڈلز اور لوٹ مار کی کہانیاں آتی ہیں۔ اسحاق ڈار کی وارداتیں پڑھیں یا عزیر بلوچ کے انکشافات... یہ سب کچھ دیکھ اور پڑھ کر سوچتا ہوں کہ کسی نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ ''جہالت بھی ایک نعمت ہے‘‘۔ کہتے ہیں آپ کو خطرے کا پہلے سے علم ہو تو آپ بہتر تیاری کر سکتے ہیں بلکہ آپ آدھی جنگ جیت جاتے ہیں۔ اچانک نازل ہونے والی مصیبت کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔
لوٹ مار کی کہانیاں سن کر مجھے کبھی کبھی اپنے باپ دادا اور گائوں کے لوگوں پر رشک آتا ہے جو اس دور میں زندہ تھے جب ان کے نزدیک ساری کائنات ان کا گائوں اور اردگرد کے چند دیہات تھے۔ کس کے گھر کل رات نقب لگ گئی، رات کو چور کپاس کی فصل چن کر بھاگ گئے، کس کا اونٹ رات کو جاتے وقت کوئی مسافر اپنے ساتھ لے گیا یا پھر فصلیں کاشت کرنے کے مسائل، بیلوں کی جوڑی لے کر کھیتوں میں گھسنا اور دوپہر تک مسلسل کھیت میں ہل چلاتے رہنا۔ ایک بنیان اور نیچے دھوتی باندھے کھلے آسمان کے نیچے گھنٹوں بیل سے باتیں کرنا۔ بیل کو کبھی چھڑی مار دی تو کبھی سست ہونے پر پیار بھری گالی دے دی۔ دوپہر کا انتظار کہ کب کوئی گھر سے کھانا لے کر آئے گا۔ ایک رومال میں بندھی تین چار روٹیاں، ساتھ میں تازہ سبزی کا سالن اور لسی کا بڑا مٹکا سر پر رکھے، لمبا سفر طے کرکے آنے والی گھر والی۔ بیلوں کو ہانک کر کسی درخت کی چھائوں تلے باندھ کر خود درخت کی چھائوں تلے بچھی چارپائی پر بیٹھنے سے پہلے نہر کے پانی سے ہاتھ منہ دھو کر رومال کو کھول کر کھانے کی تازہ مہک کو محسوس کرنا اور پھر کھانا کھانے کے ساتھ یہ باتیں کہ گائوں میں کل رات کیا ہوا، کیسے ہوا، کس کے گھر لڑائی ہوئی، کس کی بیوی ناراض ہو کر میکے جا بیٹھی... کھانا کھاتے رہنا اور ساتھ میں کبھی کبھی سر ہلا دینا تاکہ بیوی کو یوں نہ لگے کہ وہ دیوار سے باتیں کر رہی ہے۔ یہ بھی پتا ہوتا کہ اگر اس معاملے میں زیادہ دلچسپی لی تو بات بڑھ جائے گی لیکن اس کی سننا بھی ضروری ہوتا تھا۔ کھانا ختم ہوتا‘ بیوی رومال دوبارہ باندھ کر مٹکا سر پر رکھ کر دوبارہ گائوں کو چل پڑتی تو وہ اس چارپائی پر لیٹ کر آنکھیں موند کر سو جاتے کہ شام ڈھلنے سے پہلے ایک دفعہ پھر کھیت میں ہل چلانا ہوتا تھا۔ شام کو بیلوں کی جوڑی کو چارہ ڈالا، پانی پلایا اور اندر باندھ دیا۔ بھینس اور گائے کا دودھ دوہ کر بالٹی میں رکھا۔ دودھ دوہنے سے پہلے بھینس کو چارہ ڈالا اس کی کمر پر تھوڑی دیر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ بھینس پیار کی بھوکی ہوتی لیکن گائے اتنی آسانی سے دودھ نہیں دیتی۔ اچانک چھلانگ لگا کر دور جا کھڑی ہوتی۔ بعض دفعہ تو سینگوں پر بھی اٹھا لیتی۔ اس کے بعد بکریوں کی باری آتی۔ گھر جانے سے پہلے تمام بھیڑ بکریوں کو گنا جاتا کہ کوئی غائب تو نہیں اور صبح پھر گنا جاتا۔ پھر دودھ لے کر گھر کی طرف چل پڑتے۔ گھر پہنچتے تو ایک طرف چولہے پر ہنڈیا رکھی ہوتی اور دوسری طرف تنور دہک رہا ہوتا۔ بچوں کو کھانا دینے سے قبل‘ سب سے پہلے کھانا گھر کے سربراہ کا نکال کر مٹی کے برتن میں رکھ دیا جاتا۔ کئی دفعہ مالکن کو کہا گیا کہ بچو ں کو پہلے دو، پھر بھی وہ نہ مانتیں کہ یہ کون سا بھوکے رہتے ہیں۔ جو کما کر لاتا ہے ہانڈی میں سب سے پہلے اسے ملنا چاہیے۔ کئی دفعہ اس پر لڑائیاں ہوتیں لیکن گھر کی مالکن نے کبھی سمجھوتہ نہ کیا۔
گندم کی فصل تیار ہوتی تو سوال اٹھتا‘ اب اسے کاٹا کیسے جائے؟ سب بھائی مل کر صبح سویرے کھیت پہنچ جاتے اور پھر بھائیوں میں ہی اچانک مقابلہ شروع ہو جاتا کون تیز کاٹتا ہے۔ اس تیزی میںگندم درست نہ کٹتی تو پیچھے سے باپ کا ہاتھ پڑتا کہ کیوں گندم کے دانے خراب کر رہے ہو۔ بھائی پھر بھی باز نہ آتے۔ کبھی لگتا کہ کھیت بڑا ہے اور گندم بہت پک گئی ہے۔ کیا پتا کوئی آندھی طوفان یا بارش تباہی لے آئے اور پورے سال کا اناج ضائع ہو جائے۔ گائوں کے بڑے اکٹھے ہوتے اور ونگار کا اہتمام کیا جاتا۔ اس ونگار کی روایت کے مطابق ہر گھر سے نوجوان اکٹھے ہوتے اور ایک دن کسی ایک کے کھیت کی فصل کو پورا دن لگا کر کاٹ دیتے۔ اگلے دن کسی اور کی فصل کی باری آتی۔ وہ بھی اپنی طرح کا شغل میلہ ہوتا تھا۔ نوجوانوں میں پھر مقابلہ شروع ہو جاتا کہ کون سب سے پہلے گندم کے ایکڑ کو کاٹتا ہے۔ گائوں کی لڑکیاں بھی ایسے نوجوانوں کے بارے میں سرگوشیاں کرتیں کہ کون طاقتور اور سوہنڑا ہے۔ آتے جاتے گائوں کی گلی میں اسے دیکھنے کی کوشش کرتیں۔ ماں کی آواز کان پڑتی تو بھاگ کر اندر دوڑ جاتیں۔
کچھ لوگ تو بڑا بندوبست کرتے کہ ڈھول منگوا لیتے تاکہ کچھ شغل بھی ہو جائے۔ ڈھول کی تھاپ پر گندم کاٹی جاتی۔ ڈھول کی آواز سے جسم میں جو توانائی پیدا ہوتی وہ جوانوں کو تھکے نہ دیتی۔ انہیں لگتا وہ گندم نہیں کاٹ رہے بلکہ رقص کر رہے ہیں۔ گرمیوں کی دوپہر گندم کی کٹائی کے وقفے میں وہ سب بہترین قسم کا کھانا کھاتے۔ کوئی کسی سے مزدوری نہ لیتا کیونکہ اگلے دن جس کی فصل کٹنا ہوتی تھی اس نے دوسرے کے کھیت میں جاکر یہ کام خود کرنا ہوتا تھا۔ شام کو کٹی فصل اکٹھی ہوتی اور پھر سب گھروں کو جا کر ایسے بے سدھ سوتے کہ کوئی ڈھول بھی ان کے سروں پر پیٹتا رہے تو وہ نہ اٹھیں۔ 
دور دراز سے لوگ میلہ دیکھنے آتے۔ دو دو دن تک پہلوانوں کی کشتیاں، اپنے کچے گھروں میں ان مہمانوں کو ٹھہرانا جن سے صبح میلے میں جوڑ پڑنا ہوتا تھا۔ اچھی غذا انہیں پیش کی جاتی، شام کو دودھ کی بھری بالٹی تو صبح مکھن اور لسی۔ مائوں کو بھی پتا ہوتا آج ان مہمانوں سے ان کے بیٹے کا مقابلہ ہونا ہے پھر بھی مہمان پہلوان کے لیے وہی غذا اور وہی خیال، جو اپنے بچے کے لیے ہوتا تھا۔ گائوں سے کچھ فاصلے پر ڈھول کی آوازیں گونجنا شروع ہوتیں تو بچے گھروں سے بھاگنا شروع کر دیتے۔ بڑوں کے لیے دھلے ہوئے کپڑے نکالے جاتے۔ وہ نہاتے اور سب سے اہمیت پگ اور کھسے کی ہوتی۔ پگ اور کھسے پر کوئی سمجھوتہ نہ ہوتا۔ ایک دوسرے کو آوازیں دیتے گھروں سے اپنی پگوں کو سنبھالتے چل پڑتے۔ اچانک یاد آتا ان کی جیب میں تو پیسے نہیں ہیں جو پہلوانوں اور دیگر کھلاڑیوں کو انعام کے طور پر دینے ہیں۔ میلے سے گھر کے لیے جلیبیاں بھی خریدنی ہوتیں۔ ہر طرف خوشی کے رنگ بکھرے ہوتے۔
اور پھر سارا دن ایک شغل ہوتا، ڈھول کی تھاپ پر جھمریں، پہلوانوں کے جیتنے پر شور مچتا، اس کے ساتھی بھاگ کر جاتے، اسے کندھوں پر اٹھاتے اور پھر پہلوانوں کو نوٹ دیے جاتے۔ گھروں پر عورتیں انتظار کرتیں کب مرد گھر لوٹیں اور وہ میلے کی کہانی سنیں۔ 
پارلیمنٹ کی گیلریوں میں لوٹ مار اور معیشت کی تباہ کاریوں کی کہانیاں سنتے لیکن ارکانِ اسمبلی کو اتنے خطرات کے باوجود ہنسی مذاق کرتے، گپیں ہانکتے دیکھ کر، میں آنکھیں بند کیے سوچتا رہا۔ یار یہ میں کہاں پھنس گیا ہوں...!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved