نوازشریف میثاق جمہوریت پر عمل کرتے تو
یہ دن دیکھنا نہ پڑتے : آصف علی زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''نوازشریف میثاق جمہوریت پر عمل کرتے تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتے‘‘ کیونکہ جب تک میثاق جمہوریت پر عمل ہوتا رہا‘ دونوں کی گاڑی پوری رفتار سے چلتی رہی یعنی گاڑی کا انجن کبھی میں بن جاتا تھا اور کبھی نوازشریف‘ اور ایک دوسرے پر آنچ نہ آنے دی‘ تاہم اب موصوف اس پر عمل کرنے کے لیے بیحد بیتاب ہیں لیکن یہ اب میرے وارے میں نہیں ہے کیونکہ نوازشریف نااہل ہو چکے ہیں اور عمران خاں ہونے والے ہیں اور سب کچھ اسی طرح میری جھولی میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ بی بی کے شہید ہونے کے بعد ہوا تھا اور صرف ایک وصیت کا انتظام کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''موجودہ حکومت میں ہر طرح کا فراڈ ہے‘‘ جبکہ انٹرکیس درجنوں شوگر ملوں پر قبضے کروانا اور پھر انہیں سستے داموں فروخت پر مجبور کر کے خود خرید لینا ہرگز فراڈ نہیں تھا۔ آپ اگلے روز نوشہرہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
آصف علی زرداری کا عدالت سے بری
ہونا قُربِ قیامت کے آثار ہیں : سعد رفیق
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ آصف علی زرداری کا عدالت سے بری ہونا قربت قیامت کے آثار ہیں‘ اسی لیے ہم سارے مفید کام جلدی جلدی کر رہے ہیں تاکہ قیامت کے آنے سے پہلے پہلے جو دال دلیا ہوتا ہے کر لیا جائے اور ریلوے کے سارے ٹھیکے بھی اسی افراتفری میں دے دیئے گئے ہیں جن میں بوگیوں کو ٹھیکے پر دینا بطور خاص شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف کو پھنسایا جا رہا ہے‘‘ اگرچہ موصوف کو اُن کے صاحبزادے نے الحمدللہ کہہ کر پھنسایا تھا جس کی اسے سزا بھی دے دی گئی ہے کہ پردیس میں ہی رہے اور ادھر کا رُخ نہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ ''ریلوے کو منافع میں جانے میں کئی سال لگیں گے‘‘ کیونکہ فی الحال تو منافع میں خاکسار اور دیگران ہی جا رہے ہیں اور ریلوے کو منافع میں آنے کی کوئی خاص جلدی بھی نہیں ہے جبکہ جلدی کا کام ویسے بھی شیطان کا ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں عوامی ایکسپریس کی تزئین و آرائش کے بعد کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
کیپٹن صفدر کا بیان ذاتی رائے ہے‘ حکومت تردید کرتی ہے : عابد شیر
مسلم لیگ (ن) کے رہنما عابد شیر علی نے کہا ہے کہ ''کیپٹن صفدر کا بیان ان کی ذاتی رائے ہے حکومت تردید کرتی ہے‘‘ جبکہ اصولی طور پر تو اس کی تردید کیپٹن صفدر ہی کو کرنی چاہیے لیکن وہ آج کل ذرا مصروف ہیں اس لیے نہیں کر سکتے‘ ویسے بھی حکومت کی یہ مجبوری ہے کہ بیان کوئی دیتا ہے اور تردید احتیاطاً کوئی اور کر دیتا ہے تاکہ بیان کی صداقت پر کوئی حرف نہ آئے‘ اسی لیے اس کی وضاحت رانا ثناء اللہ نے بھی کر دی ہے اور اگر کرنا پڑی تو اس کی تردید بھی کر دی جائے گی جو حکومت کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مشترکہ سلامتی پالیسی بنائی جائے‘‘ کیونکہ حکومت کی انفرادی پالیسی ذرا ناکام ہو گئی ہے جیسے کہ دوسری ساری پالیسیاں اپنی بدقسمتی کی وجہ سے ناکام جا رہی ہیں جس میں ہمارا نہیں بلکہ خود ان پالیسیوں کا قصور ہے کیونکہ حکومت کا کام صرف پالیسیاں بنانا ہے جبکہ ان کا کامیاب ہونا خود ان پالیسیوں کی ذمہ داری ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کر رہے تھے۔
پاکستان پر دہشت گردی مسلط ہے‘ تنہا
مقابلہ کا کہنا ناانصافی ہے : احسن اقبال
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''پاکستان پر دہشت گردی مسلط ہے‘ تنہا مقابلہ کا کہنا زیادتی ہے‘‘ اگرچہ جملہ سہولت کاروں نے ہمیں یقین دلا رکھا ہے کہ آئندہ دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہو گا لیکن بم وغیرہ غلطی سے یا خود بخود بھی چل جاتے ہیں اور چونکہ یہ معززین ہر الیکشن کے موقع پر مددگار اور ساتھی ہوتے ہیں اس لیے ان سے سختی کے ساتھ بات بھی نہیں ہو سکتی تاکہ بقول شاعر ؎
خیال خاطر احباب چاہیے ہر دم
انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف کے خلاف فیصلے نے سٹاک مارکیٹ میں 14 ارب ڈالر کا نقصان کیا‘‘ اس لیے عدالتوں کو کم از کم آئندہ کے لیے ہی کچھ خیال کرنا چاہیے انہوں نے کہا کہ ''ہمارے ہاں جو دہشت گردی ہے‘ اس کا ایک پس منظر ہے‘‘ یعنی دہشت گردوں کے ساتھ ہمارے مذاکرات کے باوجود آپریشن کر دیا گیا۔ آپ اگلے روز واشنگٹن میں انٹرویو دے رہے تھے۔
حنیف رامے کا کھانا
اگلے روز جدید لہجے کے شاعر نذیر قیصر تشریف لائے دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ شروع میں جب میں نوکری کی تلاش میں تھا تو ایک صاحب مجھے حنیف رامے کے پاس لے گئے جو ان دنوں ہفت روزہ نصرت نکالا کرتے تھے۔ سو‘ انہوں نے مجھے 150 روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا۔ وہاں کھانے کے وقت بھی گھر جانے کی اجازت نہیں تھی جس کا میں نے ان سے ذکر کیا تو وہ بولے کل سے آپ میرے ساتھ کھانا کھایا کریں۔ اگلے روز میں کھانے کے لیے ان کے پاس گیا تو میز کی دراز میں سے اخبار میں لپٹے ہوئے دو بھٹے نکالے اور ایک مجھے دیتے ہوئے کہا کہ کھائیے! کل والے کالم میں جناب جلیل عالی کے دو شعر غلط چھپ گئے ‘ صحیح شعر یوں ہیں :
اک اور بادِ بیاباں اک اور یادِ غزال
وہ پھونکتی رہی اور یہ بہارتی رہی ہے
سمے کی شکر دوپہروں‘ جھلستی سانسوں کو
تمہاری یاد کے جھونکے بحالتے رہے ہیں
آج کا مطلع
شاعر جو بھی یہاں پر جُھوٹے سچے ہیں
سارے کے سارے ہی مجھ سے اچھے ہیں