29 مئی کو ''افغانستان کے زمینی ذخائر ‘‘ کے نام سے شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں لکھا تھا ''محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ افغانستان سے جانے کیلئے نہیں بلکہ سولہ برسوں کا تاوان وصول کرنے کیلئے عراق کے تباہ کن ہتھیاروں کی طرح اب افغانستان میں طویل قیام کرنے کیلئے آ رہا ہے۔ 1980 میں امریکہ نے روس اور 2001 میں اپنے ایجنڈا کی تکمیل کیلئے القاعدہ کے خلاف پاکستان کو استعمال کیا تھا‘ اب ہندوستان سے محبت کی پینگیں بڑھاتے ہوئے اسے استعمال کرے گا‘‘!! دنیا نیوز میں میرے اس آرٹیکل کو ابھی چار ماہ ہی گزرے ہیں کہ ''بائیس ستمبر کو نیو یارک میں افغان صدر اشرف غنی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والی وَن ٹو ون ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ نے اس اطلاع کو سچ ثابت کر دیا‘ غنی ٹرمپ مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ جلد ہی امریکی کمپنیاں افغانستان میں معدنیات اور دوسرے زمینی ذخائر کی تلاش کیلئے کام شروع کرنے والی ہیں.... ٹرمپ غنی ملاقات کے بعد کہا گیا کہ معدنیات ا ور صنعتی ذخائر کی تلاش کیلئے کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کی آمد سے افغانستان اور امریکہ کی عوام کیلئے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے جس سے بیروزگاری کم ہونے کے ساتھ ساتھ افغانستان معاشی طور پر خطے کا خوشحال اور مضبوط ملک بن کر ابھرے گا۔ لیکن افغان عوام کی بیرونِ ملک مقیم اکثریت پوچھ رہی ہے کہ امریکہ افغانستان کو کس شرح سے ان ذخائر کا حصہ دے گا؟ کیا افغان عوام کی یہ دولت بھی عراق کے تیل کی طرح امریکہ، اشرف غنی، حامد کرزئی اور عبد اﷲ عبد اﷲ جیسی طاقتور شخصیات میں تقسیم ہو جائے گی؟ امریکی جیالوجیکل سروے رپورٹ کے مطا بق کے افغانستا ن میں اس وقت ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کے معدنی ذخائر موجود ہیں جن میں سونا اور لیتھیم جیسی قیمتی معدنیات
شامل ہیں۔ اس اعلامیہ کے بعد توکوئی شک ہی نہیں رہتا کہ ا مریکہ، برطانیہ اور بھارت کی مثلث بلوچستان، افغانستان اور سینٹرل ایشیا اور میانمار کو اپنی نئی شکار گاہ کے طور پر استعمال کرے گی۔۔۔ امریکہ اور بھارت کب کے جان چکے ہیں کہ افغانستان میں دوسری معدنیات کے علا وہ تیل، گیس، یورونیم اور تھوریم کے لامحدود ذخائر دریافت کئے جا چکے ہیں۔ صرف شمالی افغانستان کے حصوں میں گیس کی مجموعی مقدار 36.5 ٹریلین کیوبک فٹ اور تیل 3.6 بلین بیرل پایا جاتا ہے۔ Vanadium, Bismuth, tungsten, Antimony اور molybdenumکے علاوہ کچھ ایسی دھاتیں بھی پائی گئی ہیں کہ زمین کے اندر چھپے ہوئے ان خزانوں کی لندن کی عالمی مارکیٹ کے مطا بق لگائی جانے والی قیمتیں 26 ہزار ڈالر فی ٹن اور415$ per troy ounce سے 920$ per troy ounce تک ہیں۔ بھارت کئی برسوں سے بامیان صوبے میں حاجی گاک میں پائے جانے والے دنیا بھر کے بہترین لوہے اور Aynk کے پیتل اور تانبے کے ذخائر پر سجن جندال کے ذریعے بلا شرکت غیرے قبضہ کئے ہوئے ہے جبکہ پاکستان نے گزشتہ دس برسوں میں اس کیلئے رتی بھر کوشش کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا نجانے کیوں؟ کیا وجہ ہے کہ پاکستان پر راج کرنے والی کسی بھی حکومت نے اب تک عالمی مارکیٹ کی جاری کی جانے والی کسی ایک بھی رپورٹ کو دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ نورستان، قندوز، پکتیا سمیت افغانستان کے سات دوسرے صوبے نایاب اور قیمتی معدنیات سے بھرے پڑے ہیں اور کوک گریڈ کا سب سے بہترین کوئلہ اس کے علا وہ ہے۔ بھارت نہیں چاہتا کہ افغانستان‘ پاکستان کے قریب آئے کیونکہ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھر تیل اور گیس کیلئے پاکستان کو اپنے دروازے سے کہیں دور جانے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
سینٹرل ایشیا سمیت افغانستان اور بلوچستان دنیا بھر کی قیمتی دھاتوں کے خزانوں سے اس طرح اَٹے پڑے ہیں کہ امریکہ جیسی بڑی قوت اپنی معاشی زبوں حالی کو سہارا دینے کیلئے ایک بار پھر افغانستان میں مستقل قدم جمانے کیلئے نیٹو اور امریکی افواج کے دستے بھجوانا شروع ہو گئی ہے۔ افغانستان کے اندر چھپے بیش بہا خزانوں کی قیمت جاننے کیلئے 87 برس پرانی ایک رپورٹ دیکھیں تو آنکھیں حیرت سے کھل جاتی ہیں۔ 1930ء میںافغانستان میں سب سے پہلے جرمن ماہرین کی ایک سروے ٹیم نے افغانستان میں معدنیات پر ریسرچ شروع کی تھی اور صرف تین سال بعد وہ ایک ہی صوبے پکتیا میں زیر زمین چھپے ہوئے خزانوں کی مقدار دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ ان کی رپورٹس نے دنیا بھر میں سب کو حیران کر کے رکھ دیا تھا‘ جس پر 1936ء میں افغان حکومت نے اپنے طالب علموں کا ایک گروپ معدینات کی تلاش اور ان کا مطالعہ کرنے کیلئے جاپان بھیجا۔ ابھی تین سال ہوئے‘ 18جولائی 2014 کو London's Metal Exchange کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق افغانستان کا فی ٹن تانبا، پیتل 7026 ڈالر، زنک2287 ڈالر فی ٹن، چاندی جیسی شکل کا سفید مادہ‘ کوبالٹ 32750 ڈالر فی ٹن، نقلی چاندی 18505 ڈالر فی ٹن، ٹِن (TIN) 22080 ڈالر فی ٹن اور Molybdenum کی قیمت عالمی مارکیٹ میں فی ٹن 29500 ڈالر تھی اور یہ سب دھاتیں افغانستان میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔
سینٹرل ایشیا جسے اس کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے ''ایشیا ئی ہیرے‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے‘ اس کی کل آبادی تقریباً 92 ملین ہے جس میںشرح خواندگی 99 فیصد کے قریب ہے اور سینٹرل ایشیا کے ممالک کرغزستان، قازقستان، ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کی مشترکہ قومی پیداوار ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطا بق 412 بلین ڈالر ہے جس میں قازقستان سب سے بہتر یعنی کل پیداوار کا 224 بلین ڈالر، ازبکستان کی قومی پیداوار 56 بلین اور ترکمانستان کی42 بلین ڈالر ہے۔ ان میں قازقستان اپنی جغرافیائی حیثیت میں دنیا کا 9واں ملک شمار ہوتا ہے لیکن اس کی کل آبادی صرف پندرہ ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ افراد پر مشتمل ہے اور حیران کن طور پر اس وقت یہ ملک 60 ہزار میگاوات بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ''بحیرہ ارل اور بحیرہ قزوین‘‘ کے پانی اس کے اہم ذرائع ہیں اور بحیرہ قزوین‘ جس کے بارے میں ماہرین کی متفقہ رپورٹ ہے کہ یہ دنیا بھر کی تیل اور گیس کی پیداوار کا چار فیصد ہے۔ ان تمام ریاستوں میں تیل اور گیس کے ساتھ ساتھ سونا، زنک، کاپر اور یورینیم، کے بے تحاشا ذخائر ہیں۔ یہاں پر روس، چین، بھارت اور امریکہ ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے بھاگ رہے ہیں جبکہ پاکستان ایک طرف کھڑا تماشا دیکھ رہا ہے؟
غضب خدا کا ہم نے کراچی کی سٹیل مل جان بوجھ کر تباہ کر کے رکھ دی ہے جس کیلئے آئرن اور گاک کوئلہ ہم آسٹریلیا سے منگواتے رہے جبکہ ہمارے سامنے دنیا کا بہترین لوہا اور کوئلہ بھرا پڑا تھا‘ نجانے کس نے سستے سودے کی بجائے اس قدر دور اور مہنگے سودے کی منظوری دی؟ یہی کوئلہ اور لوہا بھارت سجن جندال کے ذریعے چپکے سے افغانستان سے سمیٹ رہا ہے اور اب جاتی امرا کا قریبی دوست سجن جندال اس کی سستی ٹرابسپورٹیشن کیلئے ہم سے واہگہ کا زمینی راستہ مانگ رہا ہے۔ افغان عوام شاید نہیں جانتے کہ ''بدخشاں او کٹاوس اور کندلان کا سونا، بلخاب کا کاپر، داکنڈی کا لیتھیم اور ٹِن، حاجی کاک کا لوہا، پنج شیر کا لوہا اور سلور، زرکشان کا سونا اور لوہا، بغلان کا جپسم، قندوز کی چھ انتہائی قیمتی دھاتیں، شمالی ہرات کا لائم سٹون، یہ سب اسی وقت افغان عوام کی خوش حالی کا باعث بن سکتے ہیں جب تک افغانستان میں مکمل امن نہیں آجاتا اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب پاکستان اور افغانستان دونوں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ دہشت گردوں کے خلاف نبر د آزما ہوں گے!!