تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     14-10-2017

جلیل عالیؔ کا پیغام اور نظم

جلیل عالیؔ نے اپنے بارے میرے کالم کا جو میسج کیا ہے اس میں کچھ تو ٹائپ کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے جو میں نے کل والے کالم میں غلط چھپنے والے دو شعر صحیح حالت میں چھاپ دیئے تھے ، اس کے علاوہ وہ لکھتے ہیں کہ میں خود بے شک اچھا شاعر نہ ہوں مگر مجھے اچھے شعر کی پہچان کا زعم ضرور ہے اور بڑے ادب کے ساتھ عرض ہے کہ آپ سے بنیادی اختلاف یہی ہے۔ شاید یہ اپنی شعری جمالیات کی مجبوری بھی ہے۔ میں اسی لیے آپ کے کلام کا انتخاب کرنا چاہتا تھا اور اپنے مطلوبہ شعری معیار پر پورا اترنے کی مجھے بھی حسرت ہی ہے ؎
کوئی تو سطر عالیؔ کہکشاں صورت چمکتی
کہیں تو سحر کوئی پھُونکتے اعجاز کرتے
عالیؔ اسی کی دُھن ہے پریشاں غزل غزل
اک شعر جو کہ ہم سے کہا جا سکا نہیں
جو اشعار عموماً آپ کو پسند آتے ہیں اُن کا تنقیدی جائزہ بھی خالی از دلچسپی نہیں ہو گا۔ اللہ کرے آپ صحت و تندرستی کے ساتھ تادیر ہمارے ساتھ رہیں۔ ویسے مجھے انتظار حسین صاحب سے بھی اختلاف ہے جنہوں نے آپ کو مقدار اور افتخار عارف کو معیار کا نمائندہ قرار دیا اور میں نے اس پر انتظار حسین سے احتجاج کیا اور افتخار عارف سے بھی عرض کیا کہ انتظار صاحب نے غلط بات کی ہے۔ سو‘ یہ اُن کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے میری تحریر پر خفگی کا اظہار کیا جبکہ میں یہ غلطی بلکہ حماقت پہلے کر چکا ہوں۔ کئی سال پہلے عالیؔ صاحب نے ایک کالم لکھا جس کا عنوان کچھ اس طرح کا تھا کہ ظفر اقبال عہد موجود کا سب سے بڑا غزل گو ہے۔ اس میں تعریف و ستائش کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ میرؔ کے حوالے سے جو بات کہی جاتی ہے کہ ''بُلندش نہایت بُلند و پستش نہایت پست‘‘ تو ظفر اقبال کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ 
میں نے اُن کے اس جُملے کے جواب میں ایک لمبا چوڑا کالم لکھ مارا۔ بعد میں مجھے احساس ہُوا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا‘ کیونکہ اس وقت تک میں اس نتیجے تک پہنچ چکا تھا کہ شاعر کو اپنے کلام کا دفاع نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ کام اس کی شاعری خود کرے‘ اگر اس میں کوئی دم خم ہو تو اور بعد کی تحریروں میں کئی بار اس کا اظہار بھی کیا۔
اُن کے اس جُملے سے کہ اسی لیے میں آپ کی شاعری کا انتخاب کرنا چاہتا تھا‘ میں نے اندازہ لگایا کہ اب وُہ اس کام سے دستکش ہو گئے ہیں حالانکہ انہیں یہ کام ضرور کرنا چاہیے‘ اس لیے بھی کہ وہ میرے اشعار کا انتخاب اپنے معیار سے کریں گے جو کہ بجائے خود ایک دلچسپ صورتحال ہو گی کہ وہ اشعار جیسے بھی ہوں‘ ہوں گے تو میرے ہی۔
میں نے کل والے کالم میں عرض کیا تھا کہ اُنہوں نے اپنی کچھ نظمیں بھی بھجوائی ہیں۔ کالم میں اتنی جگہ ہی نہیں تھی چنانچہ ان کی ایک نظم یہاں پر درج کر رہا ہوں‘ اُمید ہے آپ کو پسند آئے گی :
کیا کہتے ہو
تُم کہتے ہو
سوچ کی کونپل 
شاخِ لفظ پہ ہی کھِلتی ہے 
پر جو بیت رہی ہے مُجھ پر
اُس سے اور خبر ملتی ہے
دیکھو!
کیسے بھید بھری حیرانی کی
ہنگامی رَو میں
نظم تمام ہوئے بیٹھی ہے
لیکن اِس میں
موج خیال کی ایک اُچھال پہ
ملتے جُلتے معنوں کی سوغات لیے
کچھ لفظ مقابل آن کھڑے ہیں
کون سفارت کر پائے گا
طے کرنا دُشوار ہُوا ہے
لمحوں پیچ لُہو میں اُتری
کیا اظہار کی سرشاری تھی
اک حرفِ درکار کی دُھن میں
کتنا طویل آزار ہُوا ہے
صبح سے شام ہوئے بیٹھی ہے
اب تک فون پہ ڈھونڈ رہا ہوں
ایسا لفظ شناس ہو کوئی
جو اِس درد میں
ہمدردانہ شرکت کا احسان کرے
اک محرمِ ذوق اشارے سے
مشکل آسان کرے
آج کا مطلع
باخبر سمجھے تھے خود کو بے خبر ہوتے ہوئے
گھر میں ہی بیٹھے رہے رختِ سفر ہوتے ہوئے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved