تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-10-2017

کچھ اندازہ ہوا؟

اگر صرف ایک دن پہلے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مقدمہ کی سماعت سات گھنٹے تک مسلسل جاری رکھی جا سکتی تھی تو پھر کمرۂ عدالت میں طاقتور حکمران خاندان کی جانب سے کرائی جانے والی منظم ہلڑ بازی کے بعد حالات کو کنٹرول کرتے ہوئے، ان کے مقدمہ کی سماعت چند گھنٹے بعد دوبارہ شروع کرنے کیلئے بھی وقفہ کیا جا سکتا تھا۔ جب ایف سی، پولیس اور تمام طاقت رکھنے والے وزیرِ مملکت کی موجودگی کے با وجود کمرۂ عدالت اور کورٹ کے احاطے میں مار کٹائی اور ہلڑ بازی پر مبنی طوفان بدتمیزی برپا ہو رہا تھا تو احتساب عدالت کے جج صاحب‘ آئی جی اسلام آباد اور چیف کمشنر اسلام آباد کو طلب کرتے ہوئے حکم دے سکتے تھے کہ نیب کے وکلاء اور پراسیکیوٹرز سمیت صرف مخصوص لوگوں کو تحفظ فراہم کرتے ہوئے عدالت کے اندر اور احاطے میں موجود رہنے کی اجازت دی جائے تاکہ عدالت سکون سے اپنی کارروائی دوبارہ شروع کر سکے... ایسا کیوں نہ کیا گیا تلاش بسیار کے باوجود اس کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی۔ وجہ جو بھی ہو... اس پر کچھ نہ کہنا ہی بہتر ہے‘ ہاں اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ جب کمرۂ عدالت میں ''وکلاء اور مسلم لیگی کارکنوں سمیت کیپٹن صفدر کے مسلح گارڈز کے ایک پورے سیکشن کی جانب سے منظم ہلڑ بازی بڑھتے بڑھتے بدتمیزی کی آخری حدوں کو چھونے لگی تو جاتی امراء خاندان کے مقدمہ کی سماعت کے لیے ایک نہیں بلکہ پانچ دن بعد اٹھارہ اکتوبر کی تاریخ مقرر کر دی گئی، جہاں تک یاد پڑتا ہے اس طرح کے کاموں میں ایسا تو کبھی بھی نہیں ہوتا۔
13 اکتوبر کی صبح اسلام آباد کی احتساب عدالت کے اندر اور باہر جو کچھ کرایا گیا اسے دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ آنے لگتی ہے کہ ''بنانا سٹیٹ‘‘ کسے کہا جاتا ہے؟احتساب عدالت کے اندر اور باہر جاری رہنے والے ڈرامے کے ایک ایک لمحے کو دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں نے محفوظ کر لیا ہے۔ کمرہ عدالت کے اندرگھستے ہوئے ہجوم کی ''بھگا دو‘ بھگا دو‘‘ کی آوازیں یقینا ریکارڈ ہو چکی ہوں گی۔ ملک بھر کے سینئر وکلاء سے جب اس ہلڑ بازی پر بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ بھی حیران ہیں کہ سماعت کو کچھ دیر کیلئے ملتوی کیوں نہ کیا گیا۔ اس طرح تو ایک ایسی مثال قائم ہو جانے کا احتمال ہے کہ کوئی بھی طاقتور شخص اپنے ساتھ چالیس‘ پچاس لوگ لا کر اپنے خلاف کسی بھی مقدمہ کی سماعت روک دیا کرے گا۔ 
جب اگلی سماعت کے لئے عدالت کی جانب سے 18 اکتوبر کا اعلان کر دیا گیا تو اس کے بعد سب سے حیران کن لمحہ وہ تھا جب ملزمان کے وکیل نے آدھ گھنٹے بعد کسی جانب سے ملنے والی ہدایات پر کہا کہ ہمارے اس مقدمہ کی سماعت ایک دن کیلئے مزید بڑھا دی جائے تو درخوا ست منظور کر لی گئی ، اگلی سماعت کے لئے 19 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ ایک بار پھر یہ سوال سامنے آتا ہے اور متعدد قانونی ماہرین یہ کہتے بھی سنے گئے کہ اگر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مقدمہ کی سماعت سات‘ آٹھ گھنٹوں تک مسلسل کی جا سکتی ہے تو پھر کیپٹن صفدر اور مریم صفدر کے مقدمہ کی سماعت ایک‘ دوگھنٹے بعد دوبارہ شروع کیوں نہیں کی جا سکتی تھی ؟ ان کے خلاف فرد جرم کا عمل مکمل کرنے کیلئے زیا دہ سے زیا دہ پندرہ بیس منٹ کی کارروائی درکار تھی؟ کمرہ عدالت کے اندر نصب سی سی ٹی وی کیمروں پر ریکارڈ ہونے والی ویڈیو میڈیا پر اصلی حالت میں دکھا دی جائے تو سب چونک کر رہ جائیں گے اور سب کو 30 نومبر1997 کی اسلام آباد کی اس صبح کا منظر یاد آ جائے گا جب نواز لیگ کے کارکنوں کے حملے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت بینچ کے دیگر جج اپنی جانیں بچانے کیلئے بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ پھر سب نے دیکھا کہ مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کی مدد سے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو سپریم کورٹ کی اس عما رت سے ہی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نکال دیا گیا ۔
چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف کوئٹہ اور پھر اسلام آباد میں انجام دی جانے والی ''خدمات‘‘ کے صلے میں 'مسلم لیگ نواز کے عدلیہ سے متعلق کارکنوں‘ کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی آخری سانس لینے تک بڑے بڑے آئینی عہدوں پر براجمان رکھا گیا۔ اور وہ وہی کچھ کرتے تھے ،جو مزاج شاہی کو پسند تھا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ کی جبری رخصتی کے بعد تو کچھ کہنے کی گنجائش ہی نہیں رہ گئی تھی یہاں تک آن ریکارڈ ہے کہ عدالتیں شریف فیملی کے سامنے اس طرح سکڑ کر رہ گئی تھیں کہ وقت کا وزیر اعلیٰ اور احتساب کمیشن کے چیئرمین سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کو فون پر اپنے حق میں اور مخالفین کے خلاف کیسوں کے فیصلے ڈکٹیٹ کرانے لگے۔
احتساب عدالت اسلام آباد کے باہر ہونے والی شوٹنگ کے بعد سکرپٹ کچھ اس طرح سے دکھائی دے رہا ہے کہ انیس اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کیلئے‘ ممکن ہے کہ میاں نواز شریف پاکستان پہنچ جائیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر تیرہ اکتوبر کو کمرہ عدالت اور اس کے باہر کرائے گئے ڈرامے کے ہدایتکاروں اور اداکاروں کی جانب سے ہونے والی شوٹنگ پر کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں رہے گی۔ اسلام آباد احتساب عدالت کی13 اکتوبر کی ویڈیو دکھائی جائے تو صاف نظر آئے گا کہ احتساب عدالت میں نیب کے پراسیکیوٹر اور ان کی ٹیم کو خاص طور پر نشانے پر رکھتے ہوئے‘ اس قدر دھکے دے کر کمرہ عدالت سے باہر نکالا گیا جیسے ان کے وہاں موجود رہنے سے امن و امان کو بہت بڑا خطرہ درپیش ہوسکتا تھا ۔ قانون کی الف ب جاننے والے ابھی تک حیران ہیں کہ نیب کے سپیشل پراسیکیوٹر کو سنے بغیر‘ ان کی رائے لئے بغیر سماعت چھ دن بعد مقرر کر دی گئی؟ کیا اُن لوگوں کو یہی ٹارگٹ دیا گیا تھا کہ نیب کے کسی بھی اہلکار اور پراسیکیوٹرکو عدالت کے روسٹر کے قریب آنے سے روکا جائے؟
احتساب عدالت کے کمرہ میں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کی نگرانی میں اس قسم کا طوفان بدتمیزی مچایا گیا کہ احتساب عدالت کے جج چوہدری بشیر صاحب عدالت سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے گئے۔ حالانکہ قانون یہ کہتا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی اور احتساب عدالت کے اندر اور اس کے احاطے میں کی جانے والی کسی بھی قسم کی غنڈہ گردی پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت کارروائی کی جانی چاہئے۔ جب میڈیا پر قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ 13 اکتوبر کو احتساب عدالت اسلام آباد میں حاضر ہونے کیلئے میاں محمد نواز شریف پاکستان پہنچے والے ہیں۔ ان کی مقررہ تاریخ پر حاضری کی بات کی جا رہی تھی کہ 13 اکتوبر کو میاں نواز شریف، مریم صفدر اور کیپٹن صفدر پر احتساب عدالت میں فرد جرم عائد کی جائے گی۔مگر جیسے جیسے ہیتھرو سے دبئی یا پاکستان کی جانب رخ کرنے والی پروازوں کا وقت گزرنے لگا‘ سابق وزیراعظم کی عدالت میں حاضری کی تمام قیاس آرائیاں بھی دم توڑنے لگیں، اور پھر یہ کہا جانے لگا کہ آج صرف مریم صفدر اور کیپٹن صفدر پر ہی فرد جرم عائد ہو سکے گی‘ لیکن ایسا کہنے والے شاید بھول گئے کہ ان کا واسطہ ''نئی ایم کیو ایم لندن‘‘ سے ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved