تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     14-10-2017

مقدمہ

آج ن لیگ نے عدالتی کارروائیوں کا نقشہ اس بری طرح سے بدلا کہ مقدمے کی کارروائی سننے والے معزز جج‘ محمد بشیر چودھری کی عدالت میں مقدمات کی سماعت نہ ہو سکی۔ جب سے نواز شریف (بہت ہی شریف) مقدمات کے میدان میں ابھرے ہیں‘ مقدمے بازی کا سارا کلچر ہی تہس نہس ہو گیا ہے۔ نواز شریف جب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے تو عدالتی کارروائی کا نقشہ کچھ ایسا ہوتا تھا۔ جج صاحب مرکزی کرسی پر جلوہ افروز ہوتے۔ ان کی میز کے دوسری طرف ایک جنگلا بنا ہوتا اور ملزم کٹہرے میں کھڑے کئے جاتے۔ باعزت طریقے سے مقدمات کی سماعت ہوتی۔ جبکہ آج کل خصوصاً نیب عدالت میں‘ میاں صاحب کی پیشی کے موقع پر کلچر ہی بدل گیا ہے۔ جج صاحب اپنی عدالت میں تشریف لائے تو وکیلوں کے دو گروہوں میں شاندار لڑائی کا منظر برپا تھا۔ رپورٹ یہ ہے کہ جاتی امرا کی ٹیم‘ سرکاری وکیلوں کی ٹیم پر بھاری پڑ رہی تھی۔ مقدمے کی کارروائی شروع ہوتے ہی‘ کسی نے گرج کر کہا ''شروع ہو جائو‘‘۔ میں دونوں فریقوں کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کروںگا۔ جو کچھ جیسا ہوا‘ جوں کا توں پیش کر رہا ہوں۔ جج صاحب ابھی کمرے میں تشریف لائے ہی تھے کہ فوراً ہی انہیں ''ماجرا‘‘ سنا دیا گیا۔ احتساب عدالت کے معززجج‘ محمد بشیر چودھری نے سابق وزیر اعظم نواز شریف‘ ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف‘ نیب ریفرنسز کی سماعت شروع کی تو (ن) لیگ لائرز فورم کے بیرسٹر جہانگیر جدون اور ملک صدیق اعوان نے ‘ہاتھ کھڑے کر کے اپنی حاضری لگوائی۔ فاضل جج صاحب کو شکایت لگائی کہ ''ملزموں کے مزاج درست کرنے کے لئے‘ انہیں ٹھنڈا ہونے کا موقع دیں‘‘۔
دو طرفہ شکایتی ''پیریڈ‘‘ شروع ہوا تو شاہی خاندان کے خادموں نے‘ تجربہ کار پولیس افسروں کی طرح‘ اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے‘ گڑگڑاتے ہوئے صفائی پیش کی اور کہا ''جج صاحب‘ ہم نے انہیں ہرگز برا بھلا نہیں کہا۔ ان کی آوازیں بند کرنے کے لئے‘ دو چار تیز گیندیں پھینکیں اور اطمینان سے کھڑے ہو گئے۔ مگر آپ جانتے ہیں جج صاحب! کہ یہ لپک کر جھپٹے بغیر نہیں ٹلتے۔ آپ نے عدالت کے اندر تشریف لاتے ہوئے دیکھا ہو گا کہ شریفوں کی پولیس نے‘ ہنگامہ کرنے والوں کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ بھی نہیں کی۔ دل بوجھل کر کے ان کی لاٹھیاں چھینیں اور انہیں یہاں سے بھگا دیا۔ یہ پلٹ کر پھر واپس آتے تھے۔ ہم انہیں پھر سے لاٹھیوں کا مزہ چکھاتے تھے۔ ورنہ اور تو کوئی بات نہیں‘‘۔
عدالت کے باہر لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ ''بڑے میاں صاحب کے صاحبزادگان حسن اور حسین کو عدالت بار بار کیوں بلا رہی ہے؟‘‘
چھوٹے نے بڑے بھائی سے پوچھا ''تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟‘‘
بڑے نے گھورتے ہوئے چھوٹے سے کہا ''یہ ٹھیک ہے کہ ہم جہاں بھی جاتے ہیں‘ بے تکلف میزبان زبردست پلائو اور کھانے پینے کی عمدہ اشیا‘ پیش کرتا ہے۔ لیکن یہ عدالت ہے! ہمارے جاتی امرا کے محلات اور لندن میں شاہی فلیٹس...‘‘
'' یہ لو ابو جان کا فون آ گیا...‘‘
''وہ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘
ابو جان نے بتایا کہ ''ہماری نئی دائر کردہ درخواست کا فیصلہ آنے تک‘ احتساب کی کارروائی یونہی ایڑی پر کھڑے ہو کے گھومتی رہے گی۔ ساتھ ہمیں بھی گھومنا پڑے گا‘‘۔
''اس کی وجہ کیا ہے؟‘‘
''یہاں‘ لوگوں کو پتہ چل گیا کہ ہم کیا کچھ کھاتے ہیں‘‘۔
''شش شش۔‘‘
''آپ باتوں کو چھپاتے کیوں رہتے ہیں؟‘‘
''بے وقوف! کسی طرح ہماری باتیں جج صاحب تک جا پہنچیں تو ہمارا کیا بنے گا گورے؟‘‘
''ہم اتنا کیوں ڈرتے ہیں؟‘‘
''اس لئے ڈرتا ہوں کہ جج صاحب ایک ریفرنس کے تین تین ریفرنس بنا کر‘ الگ الگ سزائیں دے سکتے ہیں‘‘۔
دوسری طرف میاں نواز شریف نے ایک اور درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروا دی ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ''آئینی درخواست پر فیصلہ آنے تک‘ احتساب عدالت کی کارروائی روکی جائے۔ عدالت تین ریفرنسز کو ایک ریفرنس میں بدلنے کا بھی حکم دے۔ آمدن سے زیادہ اثاثوں پر ایک سے زیادہ ریفرنس نہیں بنائے جا سکتے۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ نیب قانون کے مطابق‘ ایک جرم کا ایک ریفرنس اور ایک ہی ٹرائل ہوتا ہے۔ ایک جرم کے تین ٹرائل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہیں۔ سابق وزیر اعظم نے درخواست میں وفاق‘ نیب‘ احتساب عدالت‘ اپنے بچوں اور داماد کو فریق بنایا ہے‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved