نواز شریف کے مخالفین پر آج کل وہی بیت رہی ہے، جو 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی اقتدار سے محرومی کے بعد (بشمول میرے) ان کے مخالفوں پر بیت رہی تھی... مذکورہ دونوں حضرات میں بعدالمشرقین ہے، دونوں کو ایک ترازو سے نہیں تولا جا سکتا، نہ ہی انہیں ایک دوسرے کے ہم پلّہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ دونوں کی خوبیاں اور خامیاں اپنی اپنی ہیں۔ لیکن اِس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو اپنے وقت کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے چیئرمین تھے اسی طرح نواز شریف بھی آج کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے سربراہ ہیں۔ بھٹو مرحوم کے مخالفین کا خیال تھا، اور ان میں سے کئی اس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے کہ جونہی اقتدار ان کے گھر سے رخصت ہو گا، ان کی جماعت سمٹ کر رہ جائے گی۔ ان کے مخالفین نے متحد ہو کر نو جماعتی (پاکستان قومی اتحاد) کی بنیاد رکھی تھی، اور ان کے مقابلے میں ''ون ٹو ون‘‘ الیکشن لڑا تھا۔ بھٹو صاحب نے باقاعدہ منظم دھاندلی کے ذریعے اپنے ووٹوں کی تعداد میں مبالغہ آمیز اضافہ کرا لیا، ان کے مخالفین 35 فیصد ووٹ حاصل کر لینے کے باوجود چند نشستیں ہی جیت پائے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ دو تہائی اکثریت حاصل کر کے دستور کو پارلیمانی کے بجائے صدارتی بنانا چاہتے تھے، اس لیے منصوبہ بنا گزرے۔ نتیجتاً وہ انتخاب جیت کر بھی ہار گئے۔ مخالفین نے ایسی احتجاجی تحریک اٹھائی کہ جیتنے والے کو نئے انتخابات کا مطالبہ ماننا پڑا۔ چند ہی ہفتے پہلے مبینہ طور پر منتخب ہونے والی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے سے اتفاق کر لیا۔ مخالفین نے جب ان کی ناک رگڑ دی، تو نئے انتخابات کے لئے کیے جانے والے انتظامات کے حوالے سے ان کے مطالبات پھیلتے چلے گئے، یہاں تک کہ فوج نے آگے بڑھ کر دونوں کے گریبانوں کو چھڑوایا اور متحارب سیاسی رہنمائوں کو بصد احترام ''حفاظتی تحویل‘‘ میں لے لیا۔ آنے والوں کا خیال تھا کہ نئے انتخابات جلد سے جلد کرا کر بھٹو سیاست کی باقاعدہ آخری رسوم ادا کر دیں گے‘ لیکن بھٹو صاحب کے خوابیدہ حامی بیدار ہونا شروع ہو گئے۔ انہوں نے لاہور میں ان کا وہ تاریخی استقبال کیا کہ مخالفین ہکّا بکّا رہ گئے۔ ''مردہ‘‘ زندہ ہو گیا تھا۔ بھٹو صاحب کے ووٹر ان کے گرد جمع ہوتے گئے، جبکہ ان کے مخالف نو جماعتی اتحاد میں (خیالی) اقتدار کی تقسیم پر فاصلے پیدا ہونا شروع ہو گئے... جس طرح بھٹو مرحوم کو ایوانِ اقتدار سے رخصتی کے بعد بھی سیاسی طور پر ختم نہیں کیا جا سکا تھا، اسی طرح نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد بھی ان کا چراغ بجھایا نہیں جا سکا۔
یہ درست ہے کہ نواز شریف کے مخالف الگ الگ ہیں۔ انہوں نے کوئی باقاعدہ اتحاد نہیں بنایا۔ نواز شریف پر کسی انتخابی دھاندلی کا الزام بھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔ ان کے خلاف فوج بھی کھلم کھلا حرکت میں نہیں آئی۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا اضافہ تھا۔ انہیں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے تحت گھر جانا پڑا۔ ان کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لئے پہلی بار ایک ایسی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنائی گئی جس میں خفیہ ایجنسیوں کے نمائندے بھی شامل تھے، لیکن تفصیل یہاں بے محل ہے، اس لیے اس میں الجھنے کی نہیں، صرف نتیجے پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مقتول کو گولی ماری گئی، یا
زہر دیا گیا، گلا گھونٹا گیا یا اس پر ٹرک چڑھا دیا گیا، طریق واردات سے قطع نظر نتیجہ تو یہی تھا کہ اقتدار کا خاتمہ کر دیا گیا۔ نواز شریف کے مخالفین پختہ تھے کہ جونہی وہ وزیر اعظم ہائوس سے نکلیں گے، مسلم لیگ (ن) میں پھوٹ پڑ جائے گی، اور ان کے منہ سے مکھّیاں اڑانے والا بھی کوئی نہیں ہو گا۔ وہ سفید جھنڈا لہراتے ہوئے اپنی مسند کسی وسیع المشرب کے سپرد کر کے اپنی جان بچانے، اور اپنے آپ کو نیب کے شکنجے سے چھڑانے کے لیے کمر بستہ یا کمر خمیدہ ہو جائیں گے۔ موصوف کی نبض کو اچھی طرح ٹٹولنے کے بعد کسی مناسب وقت پر عنایت خسرواں سے کام لیتے ہوئے ان کو مبینہ سات خون معاف کر دیئے جائیں گے، وہ اپنی باقی زندگی پوتوں اور نواسوں کے ساتھ کلکاریاں مارتے گزار دیں گے کہ یہ بھی ایک راندۂ درگاہِ عوام کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں‘ لیکن جس طرح بھٹو مرحوم نے اولین فرصت میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کر دیا تھا، اسی طرح نواز شریف جی ٹی روڈ سے لاہور روانہ ہوئے تو ان کے حامی جوق در جوق ان کے نعرے لگاتے باہر نکل آئے۔ پانچ گھنٹے کا سفر تین دِنوں میں طے ہوا، اور مخالفوں کے چہرے زرد ہو گئے۔ ان کی خالی کردہ نشست پر ان کی اہلیہ کامیاب ہو گئیں، تمام تر حربوں کے باوجود انہیں شکست نہ دی جا سکی۔ چند روز بعد پارلیمنٹ نے انہیں اپنی سیاسی جماعت کی صدارت جاری رکھنے کا پروانہ جاری کر دیا۔ قومی اسمبلی کے انتخاب کے لئے نااہلی کو سیاست کے لیے نااہلی قرار دینے والے پھر اپنا سامنہ لے کر رہ گئے۔
بھٹو صاحب کی مشکل یہ تھی کہ انہیں مارشل لاء سے پالا پڑ گیا تھا، جو ہر ہتھکنڈہ آزما سکتا، اور ہر حربہ اختیار کر سکتا تھا۔ کوئی قانون، قاعدہ یا ضابطہ اس کی راہ روک نہیں سکتا تھا۔ نتیجتاً ان کی طاقت منہ دیکھتی رہ گئی۔ نواز شریف کے حا لات مختلف ہیں۔ ملک میں آئین بحال ہے، جمہوری عمل چل رہا ہے، ان کی جماعت مرکز پنجاب اور بلوچستان میں برسر اقتدار ہے، بلکہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی اس کا سکّہ چلتا ہے۔ میڈیا منہ زور ہے۔ الیکٹرانک میڈیا سے بات نکل کر سوشل میڈیا تک پہنچ چکی ہے۔ سو مخالفین پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ کوئی نظام کے خلاف غصے کا اظہار کرتا ہے۔ کوئی کور کمانڈروں کی دہائی دیتا ہے۔ کوئی رات کے اندھیرے میں وزیر اعظم عباسی اور وزرائے اعلیٰ کی ''چھترول‘‘ کا خواہش مند ہے۔ دُنیا جہان سے کوڑا جمع کیا جا رہا ہے، بھاری بھرکم مغلظات سے تعفن پھیلایا جا رہا ہے۔ صرف ایک نشست کے حامل عوامی جذبات اور مفادات کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ فرقہ پرست فتوے جاری کر رہے ہیں۔ دہشت گرد گولی مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، جن کو محلے کے لوگ بھی ووٹ نہیں دیتے، وہ بیس کروڑ عوام کی نمائندگی کے نام پر قانون اور اخلاق کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں... انہیں کون سمجھائے کہ مہاراج، عوام کی طاقت کو زیر کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دو، یہ آپ کی اپنی صحت کے لیے بہتر ہو گا۔ اگر آپ یونہی ہذیان بکتے رہیں گے تو آپ پر ترس کھانے والے بھی آپ کو مینٹل ہسپتال پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ اپنے آپ پر رحم کھائو، اکھاڑے میں اُتر کر قسمت آزمائو... ووٹ کو اپنا بنائو، اس سے دھینگا مشتی کرو گے تو عمر چوٹوں کو سہلاتے ہی گزر جائے گی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)
بھٹو مرحوم کے مخالفین کا خیال تھا، اور ان میں سے کئی اس کا برملا اظہار بھی کرتے تھے کہ جونہی اقتدار ان کے گھر سے رخصت ہو گا، ان کی جماعت سمٹ کر رہ جائے گی۔ ان کے مخالفین نے متحد ہو کر نو جماعتی (پاکستان قومی اتحاد) کی بنیاد رکھی تھی، اور ان کے مقابلے میں ''ون ٹو ون‘‘ الیکشن لڑا تھا۔ بھٹو صاحب نے باقاعدہ منظم دھاندلی کے ذریعے اپنے ووٹوں کی تعداد میں مبالغہ آمیز اضافہ کرا لیا، ان کے مخالفین 35 فیصد ووٹ حاصل کر لینے کے باوجود چند نشستیں ہی جیت پائے۔