توانائی کی کمی کا شکار ہمارا ملک، ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے آخر کارپائپ لائن تعمیر کرنے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ اس مرحلے تک جو بہت پہلے ہی طے ہوجانا چاہیے تھا، پہنچنے میں ہمیں کم و بیش دو دہائیاں لگیں۔ اس راہ میں بہت سی دشواریاں بھی حائل تھیں۔ گھریلو اور صنعتی استعمال کے لیے ایران سے گیس لینے کے حوالے سے بیرونی طاقتوں اور بالخصوص امریکہ کا بہت دبائو ہے جبکہ اندرون ِ ملک بھی کچھ حلقوں کی طرف سے اس منصوبے کی مخالفت کی جارہی تھی۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ؟عالمی طاقتیں سوچ سکتی ہیں کہ توانائی کے حصول کے لیے کیا جانے والا یہ کوئی عام تجارتی معاہدہ نہیں ہے بلکہ یہ منصوبہ مشرق ِ وسطیٰ سے لے کر افغانستان تک علاقائی سلامتی کے حوالے سے پاکستان کی سوچ تبدیل کر سکتا ہے؛ چنانچہ پاکستان کے لیے اس راہ پر قدم رکھنا آسان نہیںہو گا، اس کے لیے طویل کوشش اور حوصلے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں خدشہ محسوس کرتے ہوئے کہ پاکستان مغربی ممالک کی طرف جھکائو رکھنے والی عرب ریاستوں کی بجائے ایران اور افغانستان کے ساتھ کھڑا نظر آئے گا،بہت سے پرانے کھلاڑیوں نے پاکستانی فیصلہ سازوںپر دبائو بڑھا دیا ہے ۔ یہ بات بظاہر حیران کن ، بلکہ متنازع لگتی ہے کہ اس حکومت نے اپنی آئینی مدت کے آخری چند ہفتوں کے دوران یہ اہم فیصلہ کیا۔ منصوبے کی افتتاحی تقریب کا اہتمام موجودہ اسمبلیوں کے تحلیل ہونے سے پانچ دن قبل کیا جائے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پی پی پی حکومت کا یہ فیصلہ کسی بھی آنے والی حکومت (سیاسی پنڈتوںکے مطابق اب پی پی پی کے امکانات معدوم ہیں) پر بہت زیادہ د بائو کا باعث ہوگا۔ کیونکہ اس کی وجہ سے امریکہ کی طرف سے پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔ تاہم یہ دونوں دلائل جاندار معلوم نہیںہوتے۔ بات یہ ہے کہ پاکستان کے انتہائی سیاسی ماحول میں ہر چیز ہی متنازع اور مشکوک لگتی یا بنائی جاسکتی ہے۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ یہ ایک اچھا منصوبہ ہے اور ہمیں بہت پہلے اس پر کام شروع کر دینا چاہیے تھا۔ تاہم اب بھی کہا جا سکتاہے کہ ’’دیر آید، درست آید‘‘۔میں اسے اچھا منصوبہ کیوں کہتا ہوں: پہلی بات تو یہ ہے کہ توانائی کی کمی کی وجہ سے ہماری زیادہ تر صنعتیں بند ہیں، مزدور بے روزگار ہیں اور ریاست کے محصولات میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس دوران، جب کہ پاکستان کو توانائی کے ذرائع سے جو کہ اس کی سرحد کے قریب ہیں، استفادہ کرنے سے روکا جارہا ہے، دنیا کی فروغ پاتی معاشی قوتیں دور دراز خطّوں تک رسائی حاصل کرکے تیل یا گیس حاصل کرنے کے امکانات تلاش کر رہی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے کوئی بھی اپنی سیاسی اور نظریاتی وابستگیوں کو نہیں دیکھتا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو اس متنازع پائپ لائن پر سرمایہ کاری کرنے کی بجائے اپنی جغرافیائی حدود میں توانائی کے ذرائع تلاش کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ بلاشبہ یہ بات درست ہے لیکن یہ ایک بہت لمبا اور وقت طلب عمل ہے جبکہ اس وقت پاکستان توانائی کے شدید ترین بحران سے دوچار ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن صرف پندرہ ماہ کی قلیل مدت میں بحران کو کافی حد تک کم کردے گی۔ اس سے اس کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوجائے گی۔ ملوں اور فیکٹریوں کا پیداواری عمل شروع ہو جائے گا، روزگار کے مواقع میسر آئیںگے اور مایوسی کا خاتمہ ہو سکے گا۔ زر ِ مبادلہ کے ذخائر پر دبائو میں بھی کمی آئے گی کیونکہ اس وقت پاکستان کو فرنس تیل جلا کر مہنگی بجلی پیدا کرنی پڑ رہی ہے۔ صارفین کو اس پر امداد ی قیمت دینا ملکی خزانے پر بوجھ ہے۔ یومیہ دو کروڑ پندرہ لاکھ کیوبک میٹرز گیس کی فراہمی یقینا پاکستانی معیشت کی رگوں میں نیا خون دوڑا دے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک علاقائی تجارت، سرمایہ کاری اور معاشی روابط کے فوائد کا احسا س نہیں کیا اور ہماری اشیاء کی مارکیٹیں دور دراز ممالک میں ہیں۔ یہ رویّہ موجودہ عالمی معاشی رجحانات کے برعکس ہے کیونکہ بیشتر معاشی قوتیں اپنے علاقائی ممالک کے ساتھ تجارتی روابط پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ گزشتہ عشرے سے ہم علاقائی تجارت کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔۔۔ بھارت سے تجارتی روابط کا آغاز اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے‘ لیکن پاکستانی معیشت میں علاقائی تجارت کے لیے اُس سے کہیں زیادہ امکانات موجود ہیں جن کا ہم ادراک کر پائے ہیں۔ علاقائی تنظیموںکے فریم ورک کے ذریعے اور دو طرفہ روابط کی سطح پر ہمیں ایران، بھارت، افغانستان اور افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیائی ریاستوں کی منڈیوں تک رسائی کی ضرورت ہے۔ پاکستا ن جغرافیائی طور پر ایک مثالی جگہ پر واقع ہے۔ خوش قسمتی سے یہ علاقہ اگلی نصف صدی کے دوران عالمی معاشی سرگرمیوں، دولت اور خوشحالی، کا مرکز بننے والا ہے؛ چنانچہ ہمیں ’’کسی‘‘ کے دبائو میں آکر اپنے امکانات کو نہیں گنوانا چاہیے۔ چین جیسی اُبھرتی ہوئی عالمی قوت کو گیس پائپ لائن منصوبے اور دیگر صنعتی اور معاشی منصوبوں میں شریک کرنا مثبت قدم ہے۔ مستقبل میں اس کے پاکستانی معیشت پر بہت اچھے اثرات مرتب ہوںگے؛ چنانچہ پاکستان کے عوام کے لیے جو ہر وقت مایوسی کی خبریں سنتے رہتے ہیں، یہ اچھی خبر ہے۔ ہم حوصلے اور تدبر کے ساتھ بہتر مستقبل کی امید کر سکتے ہیں جبکہ بہت سے ممالک کے سامنے امید کی کرنیں معدوم ہوتی جارہی ہیں۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ پاکستان پر‘ جو سمند ر پار طاقتوںپر انحصار کرنے کی تاریخ رکھتا ہے، اس منصوبے کو ترک کرنے کے لیے بہت دبائو پڑے گا۔ کچھ عالمی طاقتیں ہمیں اپنا دست ِنگر بنا کر اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں، وہ ہمیں خود کفالت کی طرف بڑھتے نہیں دیکھ سکیںگی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اندرونی حالات بھی بہت کشیدہ ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ ہم اس وقت عالمی طاقتوںکو ناراض کرنا برداشت نہیںکر سکتے؛ چنانچہ ہمیں اپنے دیرینہ دوستوں اور واشنگٹن سے دلیل کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پاس توانائی کے متبادل ذرائع ، جیسا کہ وہ کہتے ہیں، تلاش کرنے کے لیے وقت نہیںہے؛ کیونکہ ہماری معیشت آخری دموں پر ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ’’ پاکستان پہلے ، دوست بعد میں ‘‘ کی پالیسی بنائیں اور کسی کی خواہش یا دبائو کی وجہ سے اپنے قومی مفاد سے دستبردار نہ ہوں۔ قومیں ایسے مشکل فیصلوںسے ہی ترقی کا سفر طے کرتی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved