تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     15-10-2017

اورنج ٹرین پر دوسرا کالم

انتظامیہ کی طرف سے فراہم کئے جانے والے اردو میں ٹائپ شدہ چھ صفحات‘ جو سٹیپلر کے ذریعے ایک دوسرے سے نتھی کئے ہوئے تھے ‘کے صفحہ نمبر پانچ پر آخری سٹار یعنی ٭ کے سامنے درج تھا کہ ''لاہور اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبے کا چائنہ پاک اکنامک کاریڈور (سی پیک (CPEC کے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘‘۔ میں نے فارغ بیٹھے ہوئے انگریزی اور چینی زبان میں فراہم کردہ کتابچوں کی ورق گردانی شروع کر دی۔ شاندار پرنٹنگ اور کاغذ پر مشتمل ان کتابچوں میں اوپر چینی اور نیچے انگریزی میں اس منصوبے کے بارے اور اسے بنانے والی کمپنی ''سی آر فورنکو‘‘ کی تکنیکی مہارت اور اس کے دیگر مکمل کردہ منصوبوں کے بارے تفصیلات تھیں۔ اچانک میری نظر ایک پیرا گراف پر پڑی۔ میں نے فوراً ہی اپنے موبائل سے اس پیرا گراف کی تصویر لے لی تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ۔پیرا گراف حسب ذیل ہے۔
Metro rail transit system on the orange line in Lahore, Pakistan the contract of which was signed in 2015 witnessed by Chinese presidenet Xi Jinping and Pakistan prime minister Nawaz Sharif. It is the first urban rail transit project in Pakistan and also the Infrastructure Project signed of China Pak Economic Corridor plan under the ''one belt one road" initiative of China.
میں اس پیراگراف کے ترجمے پر آپ کا اور اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ چینی کمپنی صاف کہہ رہی ہے کہ یہ سی پیک کا ''ون بیلٹ‘ ون روڈ‘‘ کے تحت پہلا منصوبہ ہے۔ مزید معاملہ چینی مہمانوں کی تقاریر واضح نے کر دیا۔
چینیوں کا صرف ایک نشست میں نام یاد کرنا مسئلہ فیثا غورث ایک ہی نشست میں حل کرنے کے مترادف ہے۔ سٹیج پر تین چینی مہمان تھے۔ دو تو شاید منصوبے کی تعمیر سے متعلق کوئی چیف ایگزیکٹو یا اسی قسم کے افسران تھے اور ایک پاکستان میں چینی کونسل جنرل تھا۔ اللہ جانے پہلے چینی مہمان نے کیا تقریر کی کہ نہ تو اس کا ترجمہ کیا گیا اور نہ ہی کوئی اور اہتمام کیا گیا۔ دوسرے مہمان کی چینی تقریر کے ساتھ ساتھ پنڈال میں لگی روشن سکرینوں پر اس کا اردو ترجمہ آنا شروع ہو گیا ۔اس مہمان نے بھی فرمایا کہ یہ سی پیک کا حصہ ہے۔ پھر چینی کونسل جنرل صاحب نے تقریر شروع کی۔اس کاساتھ ساتھ ترجمہ ایک مترجم کے ذمہ تھا۔ اس مترجم نے بھی صاف صاف فرمایا کہ سی پیک کا حصہ ہے۔ میں عجب تذبذب میں پڑ گیا کہ کون سچ کہہ رہا ہے؟ حالانکہ چینی بھی جھوٹ بولنے میں کسی سے کم نہیں لیکن کونسل جنرل جیسا اعلیٰ عہدیدار سرعام اتنا جھوٹ نہیں بول سکتا تھا جتنا کہ ہم لوگ بولتے ہیں۔ لہٰذا میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی چینی کونسل جنرل کی بات کا یقین کر لیا۔ اب گزشتہ تین دن سے کافی پریشان ہوں کہ آخر ہمیں بروشر میں اس بات کا ذکر ہی نہ ہوتا تو کیا فرق پڑ جاتا؟ دو چار مزید تعریفی سطریں لکھنے سے کس نے روکا تھا؟
اس منصوبے پر‘ جو لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ہے (یہ میں نہیں کہہ رہا یہ بھی حکومت کا ہی دعویٰ ہے) ایک سو پینسٹھ ارب روپے لگے ہیں (یہ ابتدائی خرچہ ہے۔ منصوبے کی تکمیل کے بعد والا خرچہ ابھی اس میں شامل نہیں‘ جیسا کہ گرین لائن میٹرو بس کے منصوبے کی تکمیل کے بعد فیروزپور روڈ پر بننے والے فلائی اوور کا کوئی حساب نہیں)
خواجہ احمد حسان نے حکومت پنجاب کی چمچہ گیری کا مقابلہ بڑی آسانی سے جیت لیا اور کئی بار اپنی تقریر میں اس منصوبے کو چینی حکومت کی طرف سے اہالیان لاہور کے لیے تحفہ قرار دیا۔ دیگر مقررین بشمول وزیراعلیٰ نے بھی اسے تحفہ قرار دیا۔ یہ عاجز ابھی تک ''تحفے‘‘ کی اس نئی تعریف سے ششدر اور حیران پریشان ہے کہ'' ایگزم بینک آف چائنا‘‘ نے اس منصوبے کے لیے کافی مہنگے داموں یعنی کافی زیادہ سود پر قرضہ فراہم کیا اور ہم اسے تحفہ قرار دے رہے ہیں۔ سودی قرضے کو تحفہ قرار دینے کی کوئی مثال کم از کم اس عاجز کو تو قطعاً یاد نہیں ہے۔
اگر ایک سادہ حساب کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ایک سو ساٹھ ارب روپے سے بننے والے اس منصوبے کے سامنے پورے پنجاب کا تعلیمی بجٹ انسٹھ ارب اور صحت کا بجٹ چون ارب روپے ہے۔ 27 کلومیٹر کی اس میٹرو پر فی کلومیٹر چھ ارب روپے کا خرچہ آیا ہے جو روئے ارض پر اس قسم کے ٹریک پر سب سے زیادہ ہے لیکن حکومت کا فرمانا ہے کہ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا سب سے کم خرچ منصوبہ ہے۔ بندہ کہاں جائے؟ اتنے پیسوں میں پنجاب میں دس ہزار سکول بن سکتے تھے اور پنجاب میں آئوٹ آف سکول (پاکستان میں آئوٹ آف سکول بچوں کی تعداد و کروڑ سے زائد ہے۔ پنجاب میں یہ تعداد زبردستی اور جھوٹ موٹ کے سروے کر کے تیس لاکھ بتائی جاتی ہے جبکہ اصل تعداد کہیں زیادہ ہے) تیس لاکھ بچے پینتالیس ارب میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو سکتے ہیں۔ اتنی رقم میں شوکت خانم جیسے تیس، پینتیس ہسپتال بن سکتے ہیں اور نشتر ہسپتال جیسے چالیس ہسپتال بن سکتے ہیں یعنی پنجاب کے ہر ضلع میں ایک شاندار اور جدید سہولتوں سے آراستہ پندرہ سو بیڈز کا ہسپتال بن سکتا تھا۔ اس قسم کے بے شمار دیگر حساب اور موازنے کئے جا سکتے ہیں کہ ان 165 ارب روپوں میں کیا کیا بن سکتا تھا جو اس ٹرین سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ ٹرین اتنی ہی ضروری تھی اور بنانا ہی تھی تو پھر چوہدری پرویز الٰہی حکومت کی بنی ہوئی فزبیلٹی‘ جو انہوں نے دنیا کی بہترین کنسلٹنٹ فرم SYSTRA سے کروائی تھی اور یہ جدید ترین انڈر گرائونڈ ریلوے ٹرانسپورٹ کا منصوبہ تھا ‘جو میاں شہبازشریف نے صرف پرویز الٰہی دشمنی میں اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا حالانکہ وہ منصوبہ اس منصوبے سے نہ صرف ہزار درجہ بہتر تھا بلکہ اس کے لیے دیگر عالمی ادارے فنڈنگ بھی کر رہے تھے‘ جن کا سود ایگزم بینک آف چائنا سے کہیں کم تھا۔
اورنج لائن ٹرین کے لیے ایگزم بینک آف چائنا نے کس شرح سود سے قرضہ دیا ہے؟ یہ ایک راز ہے۔ بس اتنا کہا جاتا ہے کہ ارزاں نرخوں پر۔ یہ ارزاں نرخ کیا ہے؟ کسی کو پتا نہیں۔ پرویز الٰہی منصوبہ پر ایشین ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ ایک ڈیڑھ فیصد پر قرضہ دے رہے تھے جبکہ چین سے یہی قرضہ چار فیصد کے لگ بھگ سود پر ملا ہے۔ اورنج لائن کی ٹکٹ بیس روپے ہو گی جبکہ فی مسافر حقیقی خرچ کا اندازہ تقریباً ڈیڑھ سو روپے لگایا گیا ہے۔ اس حساب سے روزانہ اڑھائی لاکھ مسافروں پر سوا تین کروڑ کی سبسڈی دی جائے گی جو سالانہ بارہ ارب کے لگ بھگ بنتی ہے۔ جس دن حکومت کے پاس (اس حکومت کے پاس نہ سہی‘ کسی اگلی حکومت کے پاس) پیسے ختم ہو گئے تو سارا پراجیکٹ ٹھپ ہو جائے گا۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ یہ سارا قرض بیس سال میں ادا کرنا ہے اور اس کی ادائیگی سات سال بعد شروع ہو گی یعنی تقریباً 2023ء سے۔ تب تک ایک اور حکومت (بفرض محال وہ مسلم لیگ کی بھی ہوئی تب بھی اپنی پوری ٹرم اس قرضے کی ادائیگی کے بغیر گزارے گی) بھی اپنی ٹرم پورے کر لے اور 2018 ء میں الیکشن جیتنے والی پارٹی کو بھی اس ادائیگی سے معافی ملی رہے گی (میاں صاحب کو امید ہے کہ وہ اگلی حکومت بھی مزے سے گزاریں گے اور ادائیگی نہیں کریں گے) اور 2023 ء میں الیکشن جیتنے والی پارٹی یا حکومت اس قرض کی ادائیگی کرے گی۔ مزے میاں شہبازشریف اور قرض کی ادائیگی اگلی سے اگلی حکومت کے ذمے۔ مزے کوئی کرے ادائیگی کوئی کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved