جمہوریت مضبوط ہو گی تو مُلک ترقی کرے گا : شاہد خاقان عباسی
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''جمہوریت مضبوط ہو گی تو ملک ترقی کرے گا‘‘ اور سابق وزیراعظم جو مارشل لاء لگوانے کے لیے اس قدر بیتاب ہیں تو اس لیے کہ وہ ملکی ترقی چاہتے ہیں کیونکہ ساری ترقی مارشل لاء کے دوران ہی ہوتی ہے جس کی کمائی آنے والی جمہوریت کھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف کی پالیسیاں آگے بڑھا رہے ہیں‘‘ جو اصل میں جنرل ضیاء الحق ہی کی پالیسیاں ہیں جن کیلئے صاحب موصوف مرحوم کے مقبرے پر کھڑے ہو کر ہر سال آنسوئوں سے یہ عہد کیا کرتے تھے‘ اور یہ جو ہمیں نوازشریف کا درباری کہا جاتا ہے تو یہ بھی ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کیونکہ بادشاہ سلامت سمیت ہم سب کو اپنا اپنا انجام صاف نظر آ رہا ہے‘ اور خاکسار کو تو شاید سلطانی گواہ بھی بننا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ''غیر جمہوری حکومت نے ملک کو کبھی فائدہ نہیں دیا ہے نہ دے سکتی ہے‘‘ حتیٰ کہ غیر جمہوری حکومت والے خود بھی کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے اور یہ جمہوری حکومت ہی کا اعجاز ہے کہ خود تو کم از کم کچھ دال دلیا کرتی رہتی ہے‘ چونکہ وہ عوامی ہوتی ہے‘ اس لیے یہ فائدہ بھی عوامی ہی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز تیل اور گیس منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر ملکی معیشت پر تبصرے بند کریں : احسن اقبال
وفاقی وزیر داخلہ چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر ملکی معیشت پر تبصرے بند کریں‘ کیونکہ اگر رینجرز کے سپاہی نے میرا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں وزیر داخلہ نہیں ہوں‘ تاہم اعلان کے باوجود میرا استعفیٰ نہ دینے کا مطلب یہی ہے کہ یہ واقعی 'بنانا سٹیٹ‘ ہی ہے اس لیے ڈی جی آئی ایس پی آر کو ایسے بیانات دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ''ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیے‘‘ اور بعض شُتر بے مہار اداروں کو ہم ان کی حدود میں رکھنے کی تگ و دود بھی کر رہے ہیں جس میں ہم خاصی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''کوئی دشمن ہی ملکی معیشت کے خلاف بات کر سکتا ہے‘‘ کیونکہ ملکی معیشت کا پہلے ہی بیڑہ غرق ہو چکا ہے‘ اس کے خلاف بیان دینے کی تو ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز واشنگٹن میں ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے۔
کھوکھلے نعرے لگانے سے تبدیلی نہیں آئے گی : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''کھوکھلے نعرے لگانے سے تبدیلی نہیں آتی‘‘ بلکہ ان نعروں میں جھوٹ بھرنا پڑتا ہے‘ تب کہیں جا کر تبدیلی آتی ہے خواہ وہ اشتہارات کی صورت میں ہی کیوں نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ''وہ دن دور نہیں جب پاکستان فالتو بجلی بھارت کو بیچنا شروع کر دے گا‘‘ جس کے لیے بھائی صاحب نے مودی صاحب سے بات کی تو وہ بے ساختہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ بھائی ہم سے تو سیدھی بات کرو‘ ہم کوئی پاکستانی عوام نہیں ہیں کیونکہ جب تک پاکستان میں فالتو بجلی آنی ہے تب تک آپ کافی سزا کاٹ چکے ہوں گے‘ اور ہمیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ''اٹک سے دریافت ہونے والے تیل و گیس کے ذخائر قوم کا اثاثہ ہیں‘‘ لیکن وہ ہمارے اثاثوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے بلکہ اکیلے بھائی صاحب کے اثاثے ہی اس سے زیادہ ہوں گے‘ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں اراکین اسمبلی سے گفتگو کر رہے تھے۔
ماضی میں جسٹس سجاد حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے : مشاہد اللہ
مسلم لیگ نون کے رہنما اور وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ نے کہا ہے کہ ''ماضی میں جسٹس سجاد حکومت پر قبضہ کرنا چاہتے تھے‘‘ اور انہیں محض اس کام سے روکنے کے لیے لاہور سے کارکنوں کا ایک جتھہ یہاں سے روانہ کیا گیا تھا کہ جا کر جسٹس صاحب سے منت سماجت کریں کہ وہ ایسا نہ کریں جبکہ میاں شہبازشریف عدالتی سٹاف کے لیے یہاں سے دیگیں بھی پکوا کر لے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''اس دور میں سپریم کورٹ پر حملہ ہوا ہی نہیں تھا‘‘ بلکہ سپریم کورٹ کے سٹاف نے ہمارے کارکنوں پر حملہ کر دیا تھا جس سے جسٹس سجاد علی صاحب کے کمرے کی نیم پلیٹ وغیرہ اکھڑ گئی تھی اور وہ تماشا دیکھنے کے لیے اپنے چیمبر میں جا گھُسے تھے اور وہیں سے انہوں نے حکومت پر حملہ بھی کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''حملے کی بات صرف پروپیگنڈہ ہے‘‘ جو حکومت خود ہی اپنے خلاف کر رہی تھی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل :
اور کی اور وہ باتیں‘ وہ بہانے اُس کے
خاکِ دل پر کہیں وہ پائوں جمانے اُس کے
مطمئن پھرتا ہوں اِس زور کی ناداری میں
اور‘ کہیں دُور دمکتے ہیں خزانے اُس کے
اُس کی تصویر میں اس طرح سے کھو جاتا ہوں
رُک سے جاتے ہیں خیالات بھی آنے اُس کے
ہے کبھی دل‘ کبھی آنکھوں میں رہائش اُس کی
بنِ بتائے ہی بدلتے ہیں ٹھکانے اُس کے
جس طرح جاتا ہوں‘ ویسا ہی پلٹ آتا ہوں
پاس جاتا ہوں کوئی بات بتانے اُس کے
اُس سے کرتا ہوں کبھی کوئی نئی فرمائش
نہ سخن یاد دلاتا ہوں پُرانے اُس کے
کبھی اُس شوخ سے کچھ بھی نہیں چاہا میں نے
پھر بھی کیوں دیکھتا ہوں خواب نجانے اُس کے
لا تعلق وہ کبھی مجھ سے نہیں رہ سکتا
میرے اندر سے گزرتے ہیں زمانے اُس کے
ہے بھلا یہ بھی کوئی عُمر محبت کی ظفرؔ
یہ جو گاتے ہو شب و روز ترانے اُس کے
آج کا مطلع
موجِ ہوس ابھر کے وہیں رہ گئی‘ ظفرؔ
دیوارِ دوستی تھی مرے اس کے درمیاں