تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-10-2017

اب کہیں ہم نہ آزمائے جائیں!

ہر معاشرے کے اپنے اطوار اور آداب ہوا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی بظاہر انتشار ہے، سب کچھ کسی ترتیب کے بغیر دکھائی دیتا ہے مگر یقین کیجیے کہ بہت سوں کو، بلکہ اکثریت کو اس بے نظمی ہی میں حقیقی لطف محسوس ہونے لگا ہے۔ انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہ اسے اچھا لگتا ہے اور کبھی کبھی اس سے اچھا ماحول بھی ملے تو اسے راس نہیں آتا! 
عشروں سے پاکستانی معاشرے کی مجموعی روش یہ ہے کہ کسی بھی شعبے میں مہارت پانی ہے تو باضابطہ تربیت کے اداروں کا رخ کیے بغیر سڑک کنارے قائم کسی بھی کیبن یا دکان پر لگ جاؤ، دیکھ دیکھ کر سیکھو اور پھر زندگی بھر مال بناتے رہو۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ پورا معاشرہ اسی روش پر گامزن ہے۔ سب ایک دوسرے کو خامیوں اور خرابیوں کے ساتھ قبول کر رہے ہیں۔ 
نائیجیریا میں ایک ہفتے قبل عجیب واقعہ رونما ہوا۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کے مطابق نائیجیریا کے صوبے کڈونا میں 21780 پرائمری ٹیچرز ان امتحانی پرچوں میں ناکام ہوگئے جو انہوں نے چوتھی جماعت کے 6 سالہ طلباء و طالبات کے لیے تیار کیے تھے۔ صوبے کے گورنر ناصر الروفی نے بتایا کہ صوبے کے دو تہائی سے زائد پرائمری ٹیچرز ان پرچوں میں 75 فیصد سے زائد مارکس حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 33 ہزار ٹیچرز کا امتحان لیا گیا تھا۔ ناکام رہنے والے ٹیچرز کی جگہ 25 ہزار نئے ٹیچرز بھرتی کیے جائیں گے۔ ناصر الروفی کا کہنا ہے کہ ماضی میں ٹیچرز کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا۔ تعلیم و تدریس کے شعبے کی عظمت بحال کرنے کے لیے میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں لازم ہیں۔
نائیجیریا کا تعلق بھی پس ماندہ ممالک کے گروہ سے ہے۔ ہمارے اور نائیجیریا کے حالات ملتے جلتے ہیں۔ سٹرٹیجک اعتبار سے نائیجیریا کوئی اہم ملک نہیں تاہم آبادی اور رقبے کے لحاظ سے وہ ہم سا ہے۔ اس کے بیشتر مسائل وہی ہیں جو ہمارے ہیں۔ افلاس وہاں بھی ہے اور وہاں کے عوام کی واضح اکثریت بھی بنیادی سہولتوں سے محرومی کا عذاب جھیل رہی ہے۔
سیاسی بنیاد پر ٹیچرز کی بھرتیاں ہمارے ہاں بھی عام ہیں۔ اور رشوت لے کر بھی یہ اہم منصب عطا کیا جاتا رہا ہے۔ نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے میں سب سے نمایاں کردار استاد کا ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں پرائمری سطح پر ٹیچر بہت اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ اور خاصا مہنگا ہوتا ہے۔ ریاست اور والدین کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پہلی اینٹ سیدھی رکھی جائے گی تو دیوار سیدھی اٹھے گی، بصورت دیگر دیوار کا ٹیڑھا ہونا ناگزیر ہے۔
ہمارے یہاں‘ جس کسی سے بھی پوچھیے کہ جس کام کے ذریعے وہ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کر رہا ہے‘ وہ کہاں سے سیکھا ہے تو وہ اپنے آپ کو ''تلمیذ الرحمٰن‘‘ قرار دینے میں فخر محسوس کرتا ہے! تلمیذ الرحمٰن یعنی اللہ کا سکھایا ہوا۔ گویا کوئی استاد نہیں، جو کچھ بھی سیکھا ہے وہ اپنے فیصلے کے تحت اور اپنی محنت سے سیکھا ہے۔ جب کوئی باضابطہ استاد نہ ہو تو کام میں، ہنر یا فن میں‘ بہت سی خامیاں رہ جاتی ہیں۔ اور یہ خامیاں پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتی ہیں۔
نائیجیریا میں پرائمری ٹیچرز کو چوتھی جماعت کے بچوں کے لیے تیار کیے جانے والے پرچوں میں 75 فیصد مارکس لانے کے لیے کہا گیا اور وہ بے چارے ناکام رہے۔ ہمارے ہاں تو معاملہ بہت ہی عجیب‘ قابل رحم ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ اگر ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مصداق ایسا ہی کوئی تجربہ یہاں کیا گیا تو بہت سے پرائمری ٹیچرز شاید 50 فیصد کی سرحد بھی عبور نہ کر سکیں!
کسی انسٹی ٹیوٹ اور اس کے انسٹرکٹرز کو زحمت دیئے بغیر جو لوگ ڈرائیونگ سیکھتے ہیں وہ سڑکوں کو گل و گلزار کر دیتے ہیں یعنی گل ہی کھلاتے رہتے ہیں! ان کی بے لگام ڈرائیونگ سے دوسروں کا کیا حشر ہوتا ہے یہ ہم، آپ سبھی بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ ڈرائیونگ سکھانے والے انسٹی ٹیوٹ دراصل ٹریفک کے قوانین کی پاسداری سکھانے والے ادارے ہیں۔ ڈرائیونگ تو کوئی بھی اپنے طور پر سیکھ سکتا ہے۔ معیاری انداز سے ڈرائیونگ کرنا کسی رجسٹرڈ ادارے ہی سے سیکھا جا سکتا ہے۔ یہی حال ٹیچنگ کا ہے۔ یہ شعبہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی جیب ڈھیلی کرکے محکمۂ تعلیم یا وزارتِ تعلیم میں نوکری حاصل کر لیتا ہے اور پھر علم و ہنر کی سڑک پر غیر ذمہ دارانہ اور بے لگام ڈرائیونگ کرنے لگتا ہے۔ اور اس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ بھی ہم سب جانتے ہیں۔ نئی نسل کو جس انداز سے تربیت ملنی چاہیے‘ اس میں علم و ہنر کے حوالے سے جو کچھ ہونا چاہیے‘ وہ نہیں پایا جاتا۔ 
ماتم صرف ٹیچنگ کا نہیں کیا جانا چاہیے، ہر شعبے کا یہی حال ہے۔ ڈھنگ سے کچھ سیکھے بغیر لوگ عملی زندگی شروع کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں گاتے گاتے آدمی گویّا بن ہی جاتا ہے اور گویّا نہ بن پائے تب بھی بگڑا ہوا گویّا قوّال کے ''منصب‘‘ پر فائز ہوکر ہی دم لیتا ہے! یہ معاشرے کی عمومی روش ہے۔ لوگ ''آن دی جاب ٹریننگ‘‘ میں زیادہ مانتے ہیں! اب اِس چُھری کے نیچے جو بھی آ جائے اُس کا نصیب! عام روش یہ ہے کہ لوگ آدھا کچّا اور آدھا پکّا کام سیکھتے ہیں اور دکان کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ؎ 
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی 
ہم نے تو دل جلا کے سرِعام رکھ دیا! 
یہ معاملہ موٹر سائیکل میکینک، پلمبر، الیکٹریشن یا راج مستری کے شعبے تک محدود نہیں۔ لوگ ''انتہائے شجاعت‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر وہ کام کر لیتے ہیں جس کے بارے میں انتہائی بنیادی باتیں بھی نہ جانتے ہوں۔ جاننے کی ضرورت بھی کیا ہے؟ اُن کی بلا جانے۔ جھیلنا تو اُسے ہے جو اُن کی ''خدمات‘‘ حاصل کرے گا! علم و ہنر کے شعبے کا کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ لوگ ادھوری معلومات کے ساتھ کسی بھی بڑے منصب پر فائز ہو جاتے ہیں اور پھر اپنے ''کمالِ ہنر‘‘ سے منصب کے ساتھ ساتھ پورے شعبے کی مِٹّی پلید کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ نشاندہی کیے جانے پر ایسے لوگ غلط بات کو درست قرار دینے پر بضد رہتے ہیں اور اصلاح کو ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کے بجائے اپنی ساری توانائی فریقِ ثانی کو جھوٹا ثابت کرنے پر ضائع کر بیٹھتے ہیں!
باقی باتیں تو ٹھیک ہیں مگر ہم تو اپنے شعبے کا سوچ کر کانپ اٹھے ہیں۔ نائیجیریا میں امتحان لیے جانے پر 22 ہزار پرائمری ٹیچرز نوکری سے گئے۔ ہم بھی ''تلمیذ الرحمٰن‘‘ ہیں یعنی سینکڑوں ''صحافتی پیٹی بھائیوں‘‘ کی طرح ہم نے کالم نگاری، مضمون نویسی، ترجمے اور سب ایڈیٹنگ سمیت صحافت کا ہر ہنر اپنے طور پر سیکھا ہے۔ سیدھی اور سچی بات ہے، ہم کیا اور ہمارا ہنرکیا؟ آپ جیسے مہربان پڑھ لیتے ہیں تو ہمیں لکھنے کی ''تحریک‘‘ ملتی رہتی ہے۔ ع 
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم 
اگر کہیں نائیجیریائی روایت اپناتے ہوئے اہلِ صحافت کو بھی آزمائش کے مرحلے سے گزارا گیا تو؟ اِس ''تو‘‘ کے بعد کچھ اور سوچنے کی ہمت ہم میں نہیں پائی جاتی کیونکہ ہمیں معلوم ہے ہم سمیت نہ جانے کتنے ہی ہیں جو تاریک راہوں میں مارے جائیں گے!
ہمارے یہاں‘ جس کسی سے بھی پوچھیے کہ جس کام کے ذریعے وہ دو وقت کی روٹی کا اہتمام کر رہا ہے‘ وہ کہاں سے سیکھا ہے تو وہ اپنے آپ کو ''تلمیذ الرحمٰن‘‘ قرار دینے میں فخر محسوس کرتا ہے! تلمیذ الرحمٰن یعنی اللہ کا سکھایا ہوا۔ گویا کوئی استاد نہیں، جو کچھ بھی سیکھا ہے وہ اپنے فیصلے کے تحت اور اپنی محنت سے سیکھا ہے۔ جب کوئی باضابطہ استاد نہ ہو تو کام میں، ہنر یا فن میں‘ بہت سی خامیاں رہ جاتی ہیں۔ اور یہ خامیاں پورے معاشرے کو بھگتنا پڑتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved