تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     04-03-2013

مَردوں کا صفحہ

پیارے مَردو! آپ کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اس اخبار میں بچوں، بوڑھوں اور خواتین کا صفحہ تو ہوتا ہے لیکن مردوں کا صفحہ سرے سے ہی غائب ہے جو کہ واقعی زیادتی ہے اور اس سے آپ کی نہ صرف حق تلفی ہو رہی ہے بلکہ آپ کے جذبات کی ترجمانی ہی نہیں ہو رہی اور ہر طرح سے عورتوں کا ہاتھ اوپر دکھائی دیتا ہے اور طعنے دے دے کر انہوں نے آپ کا جینا حرام کر رکھا ہے؛ چنانچہ آپ کے پرزور اصرار پر ہم آپ کا یہ جائز اور دیرینہ مطالبہ پورا کر رہے ہیں حالانکہ ہمارے معاشرے میں عورت کی حکمرانی ہے اور مردوں سے زیادہ مظلوم طبقہ کہیں نہیں ہے؛ اگرچہ ہمیں اپنے گھر سے بھی اس پر سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن انصاف قائم کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ قربانی تو دینا ہی پڑتی ہے۔ امید ہے کہ آپ کو ہماری یہ کاوش پسند آئے گی۔ اپنے قیمتی مشوروں سے بھی نوازتے رہیں۔ سبق آموز واقعات ٭ بیگم نے خوبصورت نوکرانی کو فارغ کرتے ہوئے کہا: ’’صاحب کو تمہارے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بہت پسند تھا۔ میں سوچ رہی ہوں کہ اب ان کا کیا بنے گا؟‘‘ ’’آپ ان کی فکر نہ کریں‘‘ نوکرانی نے جواب دیا:’’ وہ بھی میرے ساتھ ہی جا رہے ہیں!‘‘ ٭ صاحب دفتر سے گھر آئے تو بیگم نے شکایت لگاتے ہوئے کہا: ’’اس ڈرائیور کو فوری طور پر نکال دیں۔ آج پھر میرا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا ہے!‘‘ ’’میرا خیال ہے‘‘ میاں نے کہا: ’’اسے ایک موقع اور دینا چاہیے!‘‘ ٭ ایک شخص کی بیوی کا انتقال ہو گیا۔ جب اسے قبرستان لے جا رہے تھے کہ جنازے کی چارپائی گلی کی نکڑ والے کھمبے سے ٹکرائی اور وہ اٹھ کر بیٹھ گئی؛ چنانچہ اسے واپس گھر لے آئے۔ چند ماہ کے بعد واقعی اس کا انتقال ہو گیا اور اس کا جنازہ لے جاتے ہوئے جب گلی کی نکڑ کے قریب پہنچے تو عقب سے خاوند پکار کر بولا: ’’کھمبے سے ذرا بچا کے!‘‘ ٭ میاں حسب معمول رات کو دیر سے گھر آئے، چپکے سے، کھانا کھانے کے لیے ہاتھ دھو رہے تھے کہ بیوی کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے پوچھا: ’’کیا کر رہے ہو؟‘‘ ’’ہاتھ دھو رہا ہوں‘‘ میاں نے دھیرے سے جواب دیا۔ ’’کس لیے؟‘‘ بیوی نے غصّے سے پوچھا۔ ’’سونے کے لیے‘‘ میاں نے جواب دیا۔ پسندیدہ اشعار ایک بیوی ہے، چار بچے ہیں عشق جھوٹا ہے، لوگ سچے ہیں گھر والی کے واسطے بچی نہ پیالی چائے کی کتے بلے آن کر کھا گئے کیک مٹھائیاں اِدھر اُدھر یونہی منہ مارتے بھی ہیں، لیکن وگرنہ حق تو یہی ہے کہ ہم کو تُو ہے بہت ایک حد تک ہے یہ آوارہ خرامی میری جا بھی سکتا ہوں کہاں تیرا نکیلا ہوا میں قیمتی مشورے ٭ آفس اور سیر سپاٹے کے بعد گھر جاتے ہوئے کوٹ اور بُشرٹ کو اتار کر اچھی طرح جھاڑ لیں کہ کسی خاتون کا بال کہیں سے اڑتا ہوا اس پر آ کر ٹھہر سکتا ہے۔ ٭ بیوی کسی جھگڑے کے بعد اپنے میکے جانے کے بعد کرایہ مانگے تو اسے فوراً دے دیں اور اگر کرایہ وصول کرنے کے باوجود نہ جائے تو بھی برا نہ منائیں کیونکہ وہ کبھی جا بھی سکتی ہے۔ قابلِ تقلید ٭ ایک میاں بیوی آپس میں بہت لڑا جھگڑا کرتے تھے۔ ایک دن وہ اچھے موڈ میں تھے تو انہوں نے سوچا کہ پڑوسیوں سے چل کر پوچھنا چاہیے کہ وہ کبھی کیوں نہیں لڑے، تاکہ ان کے طریقے پر عمل کرکے ہم بھی اس روز روز کی تُوتکار سے بچ جائیں؛ چنانچہ پڑوسی نے استفسار پر بتایا کہ ہمارا جھگڑا اس لیے نہیں ہوتا کہ سارے بڑے بڑے فیصلے میں خود کرتا ہوں جبکہ چھوٹے چھوٹے معاملات میری بیوی کے اختیار میں ہیں اور ہم نے کبھی ایک دوسرے کے کام میں دخل نہیں دیا۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت چاہی تو پڑوسی بولا کہ تمام بڑے فیصلے مثلاً امریکہ افغانستان سے جائے گا یا نہیں، کشمیر کب آزاد ہوگا اور یہ کہ صدر بش کو اس بار الیکشن میں جیتنا چاہیے یا رومنی کو، میں خود کرتا ہوں جبکہ یہ چھوٹے چھوٹے کام میری بیوی کے اختیار میں ہیں کہ آج پکانا کیا ہے، بچوں کی شادیاں کہاں کرنی ہیں اور کیا میرے والدین اور بہن بھائی میرے گھر میں آ سکتے ہیں یا نہیں اور میں نے کبھی ان معمولی باتوں میں مداخلت نہیں کی۔ اس لیے ہمارا کبھی جھگڑا نہیں ہوا۔ ٭ لندن کے ایک ریلوے اسٹیشن پر ایک صاحب کی بیوی جب میکے سے واپس آئی تو اس نے اپنے میاں کو غیرت دلاتے ہوئے کہا۔ ’’دیکھو، یہ لوگ اپنی بیویوں سے کیسا پیار کر رہے ہیں! تمہیں میرے آنے سے کوئی خوشی نہیں ہوئی؟‘‘ ’’اس لیے کہ ان کی بیویاں میکے جا رہی ہیں!‘‘ میاں نے جواب دیا۔ ایڈیٹر کی ڈاک محترمی، اپنی اہلیہ کے ظلم و ستم کا ستایا ہوا آپ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ میرے دفتر میں میرے ساتھ ایک لڑکی بھی کام کرتی ہے جو ذرا منہ ماتھے لگتی ہے۔ ایک روز میں نزلہ و زکام کی وجہ سے ٹشو پیپر استعمال کر رہا تھا کہ اس نے پوچھا کہ آپ کے پاس رومال نہیں ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں تو دوسرے دن وہ محض ازراہِ ہمدردی ایک رومال میرے لیے بنا کر لے آئی جس پر اس نے ایک پان کا پتہ کاڑھا ہوا تھا جس میں سے ایک تیر بھی گزارا ہوا تھا۔ ساتھ ہی احمد فراز کا ایک شعر بھی کاڑھ رکھا تھا۔ شومئی قسمت سے میری بیوی نے وہ رومال دیکھ لیا اور کہا کہ یہ اس نے اپنے دل میں تیر ترازو کرکے دکھایا ہوا ہے حالانکہ وہ صرف پان کا پتہ تھا جسے وہ بڑے شوق سے کھایا کرتی تھی اور تیر کی وجہ یہ تھی کہ وہ پیپلزپارٹی کی کوئی جیالی ہوگی جس کا انتخابی نشان تیر تھا لیکن میری بیوی نے میری کسی وضاحت پر کان نہ دھرے اور اس دن سے میرا کھانا اور ناشتہ بند کر رکھا ہے۔ اسے کسی نے یہ بھی بتا رکھا تھا کہ وہ لڑکی میرے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھی بھی اس نے کئی بار دیکھی ہے حالانکہ اس کا گھر راستے ہی میں پڑتا ہے، بس کوئی دو میل کا چکر پڑتا ہوگا لیکن آخر انسانی ہمدردی بھی کوئی چیز ہے۔ وہ اگر کچھ کھانا ساتھ نہ لایا کرتی تو اب تک بھوک سے میرا انتقال ہو چکا ہوتا۔ البتہ ایک بار میں اسے باغِ جناح دکھانے بھی لے گیا تھا جو میں نے خود بھی نہیں دیکھا ہوا تھا۔ چلو اسی بہانے میں نے بھی دیکھ لیا اور اس طرح اپنی معلومات میں اضافہ کیا۔ آپ سے درخواست ہے کہ ایسی ظالم بیویوں کے خلاف ایک زوردار اداریہ لکھ کر مشکور فرما دیں تاکہ میرے جیسے معصوموں کو ان کے ظلم و ستم سے نجات حاصل ہو سکے۔ وفادار خان ولد تابعدار خان، چونا منڈی لاہور آج کا مقطع پکڑے گئے تو وہ بھی بھُگت لیں گے، اے ظفرؔ فی الحال اُس کے آگے مُکرنا تو چاہیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved