تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     16-10-2017

رحم کس پر کریں؟

کرّۂ ارض پہ زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے نت نئے حقائق انسان پہ آشکار ہوتے رہتے ہیں۔ اگر آپ ہائی وے پر اپنی تیز رفتار گاڑی میں محوِ سفر ہیں اور آپ کی نظر ایک ٹرک میں لدی ہوئی 4 بھینسوں پہ پڑتی ہے توسب سے پہلا خیال آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟ وہ بھی اس وقت‘ جب 4 میں سے 2 کے سینگ ایک دوسرے میں پھنسے ہوں اوروہ بیچاری خود کو آزاد کرانے کے لیے زور لگا رہی ہو۔ ظاہر ہے کہ رحم اور ترس کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے ۔ کیسے بے رحمی کے ساتھ ہم انہیں ذبح کرتے ہیں اور سارا دودھ دوہ لیتے ہیں۔ اس کے بعد اگر انسان غور کرتا رہے، اگر جانوروں کی زندگیوں کا جائزہ لیتا رہے تو عجیب انکشافات ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ ایک بہتر سہولت سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ نئے اور پرانے ٹرک پر سواری میں وہ تمیز نہیں کر سکتے۔ آپ بھینس کو اے سی والے کمرے میں رکھیں لیکن جیسے ہی وہ باہر نکلے گی، کیچڑ میں بیٹھ جائے گی۔ آپ اسے نہلا کر پرفیوم لگائیں، وہ گندگی کر کے، اس کے اوپر بیٹھ جائے گی۔ اس کے برعکس اگر انسان کو دیکھا جائے تو وہ جس سہولت کا عادی ہو جائے، اس سے کمتر پر راضی نہیں ہوتا۔ جسے پکے ہوئے انور رٹول آم پسند ہوں، اسے آپ چونسا کھانے پر کیسے منا سکتے ہیں؟ جو اے سی کا عادی ہو، اسے آپ ایک چھوٹے سے برقی پنکھے پر خوش نہیں دیکھ سکتے۔ جسے پراڈو میں سفر کرنے کی عادت ہو، وہ موٹر سائیکل چلانے کے قابل نہیں رہتا۔
انسان ہمیشہ موازنہ کرتا رہتا ہے۔ نفس کی یہ عادت انتہائی پختہ ہے کہ وہ دوسروں سے اپنے موازنے میں مصروف رہتا ہے۔ جب تک تو اسے اپنی بقا کا خطرہ لاحق رہتا ہے‘ وہ انتہائی 
کمتر چیز پر بھی راضی رہتا ہے۔ صرف روٹی کپڑے اور مکان پر لیکن جوں جوں پیسہ آتا ہے، وہ status conscious ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ ہمسایوں سے اپنا موازنہ کرتا ہے، دوستوں سے اور حتیٰ کہ اجنبیوں سے۔ یہ موازنہ صرف دولت میں نہیں ہوتا، بول چال، شکل و صورت، قد کاٹھ، رنگ روپ اور حتیٰ کہ سخاوت میں بھی۔ وہ یہ سننا چاہتا ہے کہ میرے جیسا سخی کوئی نہیں۔ وہ یہ سننا چاہتا ہے کہ میرے جیسا دلیر کوئی نہیں‘ میرے جیسا خوبصورت بھی کوئی نہیں۔ نفس کو نمبر 2 کہلانا بھی گوارا نہیں ہوتا، کجا کہ اسے 7 ارب میں سے ایک گنا جائے۔ انسانی نفس کو یہ بات کبھی خوشی سے گوارا نہیں ہوتی کہ اسے کمتر سمجھا جائے، کمتر لکھا اور پکارا جائے۔ مثلاً ہم سب لکھنے والوں کی خواہش تو یہی ہوتی ہے کہ ہمیں اقبالؔ اور شیکسپیئر کا درجہ عطا کیا جائے لیکن جو درجہ حقیقت میں ملتا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ پھر نفس اس کمتر درجے پہ کیسے راضی ہوتا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ بقا کی جبلت اور عقل مل کر اسے آئینہ دکھاتی اور دستیاب درجہ قبول کرنے پر آمادہ کرتی رہتی ہیں۔ اکثریت بھاگتے چور کی لنگوٹی پہ راضی رہتی ہے۔
جانوروں میں خود ترسی نہیں ہوتی۔ مستقبل کے بڑے بڑے منصوبے نہیں ہوتے بلکہ ''مستقبل‘‘ کا مفہوم بھی انہیں معلوم نہیں ہوتا۔ وہ حال میں زندہ رہتے ہیں‘ ماضی کی تکالیف یاد کر کے رو نہیں سکتے۔ انہیں مستقبل میں بھوکے مرنے کا خوف لاحق نہیں ہوتا۔ انسان کو ایک دفعہ جس کے ہاتھوں تکلیف پہنچ جائے‘ وہ ساری زندگی اسے یاد رکھتا ہے اور موقع ملنے پر بدلہ لیتا ہے۔ آپ دنیا کی قیمتی ترین گاڑیوں میں سے ایک خرید کر گھر جائیں اور آپ کا پڑوسی اس سے قیمتی گاڑی میں سوار ہو تو آپ کی خوشی حسد میں بدل جائے گی۔ الّا یہ کہ انسان سادہ اور درویش فطرت ہو۔ ان چیزوں سے کوئی چیز اگر نجات دیتی ہے تو وہ علم اور غور و فکر کی صلاحیت ہے۔
جن جانوروں کو ہم دودھ اور گوشت کے لیے پالتے ہیں، انہیں بہت سی تکلیفوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب ضرورت ہو، آپ انہیں ذبح کر کے‘ کھال اتار کے‘ گوشت کے ٹکڑے کر کے کھا جاتے ہیں۔ پھر اگر گہرائی میں غور کریں تو یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا ہر انسان کو اور ہردوسرے جاندار کو، جو جنگل میں آزاد زندگی گزارتا ہے‘ کیا اسے موت سے نہیں گزرنا پڑتا۔ وہ لوگ جو انتہائی بھرپور زندگی گزارتے ہیں، شدید بڑھاپے اور بیماری میں دو دو سال بستر پہ پڑے رہتے ہیں‘ تب جا کر موت انہیں نصیب ہوتی ہے۔ یہاں تک پہنچ کر ذہن اس نکتے پر پہنچتا ہے کہ جو جاندار بھی پیدا ہوتا ہے‘ بہرحال اسے تکلیف سے گزرنا ہوتا ہے۔ انسان میں یہ تکلیف جانوروں سے زیادہ ہے۔ جانوروں کا دماغ چھ سات بنیادی چیزوں پر خوشی اور تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اس کے سوا وہ سب چیزوں سے بے نیاز ہیں۔ ان کے قریب اڑن طشتری اترے اور اس میں سے ایلین برآمد ہوں، انہیں ایک آنے کی دلچسپی بھی نہیں ہوگی۔ انسان ایسا ہے کہ مریخ اور چاند پر بستیاں بسانے کے لیے پرجوش ہے۔ اجنبی زمینوں کے انتہائی حد تک تکلیف دہ حالات کا اسے بخوبی اندازہ ہے، اس کے باوجود وہاں جانے کے خواہشمندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
کوئی بھی چیز بلا قیمت نہیں ہوتی۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ انسانوں میں دیکھنے کی صلاحیت اکثر چار پایوں سے زیادہ ہے لیکن اس کے ساتھ سونگھنے کی حس کمزور بھی ہوئی ہے۔ بلی اور کتا ہم سے کہیں بہتر سونگھ سکتے ہیں۔ کرّۂ ارض پہ انسانی برتری‘ جس نے ہمیں انتہائی حد تک ممتاز کر دیا‘ وہ بھی بلا قیمت نہیں۔ اس کی قیمت ہے، جوابدہی۔ جو عقل اسے سونپی گئی تھی، جسے خدا ''امانت‘‘ کہتا ہے، اس کے بدلے میں اسے حساب کتاب دینا ہوگا۔ جانوروں کو اگر ہم پر غلبہ نہیں دیا گیا تو انہیں مغلوب ہونے کا احساس بھی نہیں۔ نہ ہی ان کا کوئی حساب کتاب ہے۔ انہیں ماضی کے دکھ یاد نہیں اور مستقبل کا کوئی خوف نہیں۔ رہی تکلیف اور مو ت تو وہ ہر جاندار کے ساتھ ہے۔ بہت سے دولت مندوں کو لاعلاج بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ ظہیر الدین بابر جیسا بادشاہ ٹی بی سے مر گیا اور محمد علی جیسا باکسر پارکنسن کا شکار ہوا۔ انسانوں میں پریشانی (Anxiety) اور ڈپریشن عام ہے۔ مضبوط گھر اور ذخیرہ شدہ اناج کے انبار ہمیں اس پریشانی اور ڈپریشن سے نجات نہیں دلا سکتے۔ دولت اور سہولت کے ہر قدم پر جبلتوں کا ایک ہجوم ہم پہ حملہ آور ہے۔ کوئی چیز اگر ہمیں سکون پہنچا سکتی ہے تو وہ عقل ہے۔ وہ عقل‘ جس نے خدا کا ہاتھ تھام رکھا ہو لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ 7 ارب کی آبادی میں سے شاید لاکھ بھی نہیں بلکہ چند ہزار۔ باقی سب میرے جیسے، کبھی نہ سیراب ہونے والی خواہشات کے پیچھے اندھا دھند بھاگتے ہوئے ہجوم۔ یہاں پہنچ کر جب میں سوچتا ہوں، ایک بار پھر جب میں جانوروں اور انسانوں کا تقابلی جائزہ لیتا ہوں تو مجھے حیوانوں کی بجائے اپنے آپ پر رحم آنے لگتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved