تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     17-10-2017

جمہوریت کو اصل خطرہ؟

قابلِ اعتماد دوستوں کے ساتھ آف دی ریکارڈ گفتگو میں صدر فاروق لغاری کا کہنا تھا‘ حکومت (بینظیر بھٹو) کی برطرفی کی بنیادی وجہ تو میں نے صدارتی فرمان میں‘ نہ قوم سے خطاب میں بتائی ‘ یہ کہ ملک دیوالیہ ہونے کو تھا‘ زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ اور نکال جاتا لیکن میں یہ بات اپنی تقریر یا صدارتی فرمان میں کہہ دیتا تو ملک اُسی روز دیوالیہ ہو جاتا۔
معیشت کے معاملات بہت نازک ہوتے ہیں۔ اے کے سومار ملک بڑے صنعت کار تھے (ایک دور میں نیشنل پریس ٹرسٹ کے چیئرمین بھی رہے) مرحوم کہا کرتے تھے‘ پیسہ بہت حساس اور شرمیلا ہوتا ہے۔ ذرا سا کھٹکا ہوا‘ اور یہ اُڑ گیا (ماہرین معیشت جسے کیپٹل فلائٹ کہتے ہیں) وہ اس کے لیے سائبیریا سے گرم علاقوں کی طرف آنے والی مرغابیوں کی مثال دیا کرتے۔
''قومی معیشت اتنی بُری نہیں‘ تو اتنی اچھی بھی نہیں‘‘ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مصرع طرح پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال ''گرہ‘‘ لگا چکے تھے‘ ''فوجی ترجمان معیشت پر بیانات اور تبصروں سے گریز کریں‘ غیر ذمہ دار بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ کو متاثر کر سکتے ہیں‘‘۔ خدشہ تھا‘ ہفتے کی سہ پہرڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس ''جواب الجواب‘‘ ہو گا‘ لیکن ''خیریت‘‘ رہی۔جنرل آصف غفور نے احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ یہ پریس کانفرنس انہوں نے امریکی+ کینیڈین فیملی کی رہائی کے لیے پاک فوج کے کامیاب آپریشن کی تفصیلات بیان کرنے کے لیے بلائی تھی۔ کچھ ''دوسرے‘‘ سوالات بھی فطری تھے لیکن وہ کسی کے اکسانے میں نہ آئے۔ احسن اقبال کے تبصرے پر ان کا کہنا تھا کہ اس سے انہیں ایک فوجی کے طور پر بھی اور پاکستانی شہری کی حیثیت میں بھی مایوسی ہوئی‘مزید یہ کہ میڈیا سے ان کی گفتگو فوج کے ترجمان کے طور پر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ قومی معیشت کے متعلق انہوں نے جو کچھ کہا‘ یہ گیارہ اکتوبر کو کراچی میں تاجروں اور صنعت کاروں کے اظہارِ خیال اور جناب آرمی چیف کے کلیدی خطاب ہی کا ''خلاصہ‘‘ تھا۔ سول ملٹری ریلیشن کے حوالے سے بعض نوکیلے سوالات پر ''سول‘‘ کی بالادستی کا برملا اعلان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا‘ بعض معاملات پر فوج اپنا In Put اور اپنا مشورہ ضرور دیتی ہے لیکن آخری فیصلہ ''حاکم وقت‘‘ (سول حکومت) ہی کا ہوتا ہے۔ ''ضربِ غضب‘‘ آپریشن ''راہِ راست‘‘ اور اب ''ردالفساد‘‘ سمیت تمام فیصلے سول حکومت کی منظوری سے ہوئے۔ فوج کوئی فیصلہ اپنے طور پر نہیں کرتی‘ ادارے ''Isolation‘‘ میں آپریٹ نہیں کرتے۔ سول بالادستی کے حوالے سے فوجی ترجمان کا بنیادی استدلال اس سوال کی صورت میں تھا کہ آرمی چیف کا تقرر کون کرتا ہے؟‘‘
احسن اقبال کا کہنا ہے‘ فوجی ترجمان کی وضاحت سے معاملہ ختم ہو گیا۔ جناب شاہد خاقان عباسی کی کابینہ میں احسن اقبال وزیر داخلہ ہیں۔ دورِ طالب علمی میں ان کا شمار لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی کے نمایاں ترین طلبہ میں ہوتا تھا۔ وہ یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر بھی رہے۔ بھٹو صاحب کے امیدوار کو شکست دے کر یونیورسٹی یونین کا صدر منتخب ہونا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یہاں سے انہوں نے امریکہ کا رُخ کیا اور وہاں کی اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں سے اکتسابِ فیض کے بعد وطن لوٹے تو ان کی شہرت ایک ''ماہرِ معیشت‘‘ کی تھی۔ میاں صاحب کی دوسری وزارتِ عظمیٰ میں وہ نیشنل پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہے۔ ''پرائم منسٹر کا وژن 2010ئ‘‘ ان ہی کا برین چائلڈ تھا۔ میاں صاحب کی تیسری حکومت میں ترقی اور منصوبہ بندی کے وزیر بنے۔ CPEC میں بھی ان کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا تھا۔ اب جناب شاہد خاقان عباسی کی حکومت میں وزارتِ داخلہ کے علاوہ ترقی اور منصوبہ بندی کا پورٹ فولیو بھی ان ہی کے پاس ہے‘ اسی حیثیت میں وہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کے لیے واشنگٹن میں تھے‘ جب حالیہ ''کنٹروورسی‘‘ہوئی۔
جمعرات گیارہ اکتوبر کو کراچی میں تاجروں اور صنعت کاروں کے اجتماع میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا قومی معیشت پر اظہارِ خیال ''متوازن‘‘ تھا۔ انہوں نے ان چار برسوں میں انرجی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں ہونے والی پیش رفت کا اعتراف کیا‘ لیکن ''آسمان کو چھوتے ہوئے‘‘ قرضوں کی بات بھی کی۔ چار برسوں میں جی ڈی پی گروتھ میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے ٹیکس نیٹ میں اضافے پر بھی زور دیا اور تاجروں اور صنعت کاروں سے اپنے حصے کا ٹیکس پوری ایمانداری سے ادا کرنے کا ''مطالبہ‘‘ بھی۔ میڈیا میں ''آسمان کو چھوتے ہوئے قرضوں‘‘ کی بات شہ سرخی بنی۔ اس میں شک نہیں کہ ان چار برسوں میں قرضے آسمان کو چھونے لگے ہیں لیکن تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ یہ قرضے قومی ترقیاتی منصوبوں کے لیے حاصل کئے گئے‘ جن میں بجلی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔ چار سال میں دس ہزار میگاواٹ کا اضافہ (اور سالِ رواں کے آخر تک ملک کو لوڈشیڈنگ فری بنانے کا کام) یوں ہی تو نہیں ہو گیا۔ درآمدات و برآمدات میں بڑھتے ہوئے عدم توازن کا ایک اہم سبب CPEC کے لیے چین سے آمدہ مشینری بھی ہے۔ پیپلز پارٹی دو سے اڑھائی فیصد جی ڈی پی گروتھ چھوڑ کر گئی تھی‘ ان چار برسوں میں یہ ساڑھے پانچ فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں مصروف فوج کی ضرورتوں کا بھی سول حکومت کو بخوبی احساس تھا‘ چنانچہ ان چار برسوں کا دفاعی بجٹ‘ پاکستان کی تاریخ کے باقی ماندہ ساٹھ‘ پینسٹھ برسوں کے دفاعی بجٹ سے بڑھ کر تھا۔ آدھا گلاس خالی ہے‘ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ چار سال پہلے گلاس بمشکل بیس‘ پچیس فیصد بھرا ہوا تھا‘ اب یہ آدھا بھر گیا ہے تو توقع کی جانی چاہیے کہ بجلی اور گیس کے بحران پر قابو پا لینے کے بعد باقی ماندہ آدھا گلاس بھر جانے میں بھی زیادہ وقت نہیں لگے گا‘ اس CPEC نے بھی تو ہماری قسمت بدلنی ہے۔ 
گزشتہ شب ایک ٹاک شو میں ایئرمارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری کا کہنا تھا‘ قومی معیشت ہم فوجیوں کا سبجیکٹ نہیں۔ ہمیں اس حوالے سے کچھ شُد بُد ہو گی لیکن میں پروفیسر آف اکنامکس تو نہیں کہ Key Note ایڈریس دینے بیٹھ جائوں۔ جبکہ جنرل معین الدین حیدر کا کہنا تھا‘ قومی معیشت کا قومی دفاع سے گہرا تعلق ہے‘ اس بارے میں فوج کی تشویش بجا ہے تاہم جنرل معین الدین حیدر‘ ایئر مارشل شہزاد چوہدری اور احمد بلال محبوب کا اس پر اتفاق تھا کہ اس حوالے سے جو بھی تبصرہ اور تجاویز ہوں‘ اس کے لیے نیشنل سیکورٹی کمیٹی ہی ''پراپر فورم‘‘ ہے۔
جنرل آصف غفور نے ٹیکنوکریٹ حکومت یا کسی ڈی فیکٹو مارشل لاء کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت کو خطرہ جمہوری تقاضوں سے انحراف یا عوامی امنگوں کی عدم تکمیل ہی سے ہو سکتا ہے۔ ہماری عاجزانہ رائے میں جنرل آصف کے یہ الفاظ غیر ضروری تھے۔ عوامی امنگوں کی عدم تکمیل سے خطرہ جمہوریت کو کیوں ہو؟ یہ خطرہ برسر اقتدار جماعت کے لیے ہونا چاہیے‘ آئندہ انتخابات میں عوام جسے مسترد کر کے دوسری جماعت کو لے آئیں۔ وزیراعظم عباسی کے بقول جس حکومت نے کام نہیں کیا‘ عوام نے اسے گھر بھیج دیا۔
پس نوشت : احتساب عدالت میں نوازشریف فیملی (اور اسحاق ڈار) کے خلاف ریفرنسز کا چھ ماہ میں فیصلہ ہونا ہے۔ ایسے میں عالی مرتبت چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے انصاف میں عجلت کو‘ انصاف کی تدفین قرار دے دیا۔
Justic hurried is Justice burried

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved