اقلیتوں کے بارے منفی اظہار خیال
نون لیگ کی پالیسی نہیں : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''اقلیتوں کے بارے منفی اظہار خیال نون لیگ کی پالیسی نہیں‘‘ جبکہ اصولی طور پر تو مجھے برخودار کیپٹن صفدر کی مذمت کرنی چاہیے تھی لیکن چونکہ وہ مستقبل کے مرد اوّل ہوں گے کیونکہ مریم وزیراعظم ہوں گی اور دوسرے یہ کہ اس بیان سے اقلیتوں پر کوئی خاص اثر بھی نہیں پڑے گا جیسا کہ مجھے نکالنے کے بعد حکومت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے بلکہ نااہلی کے باوجود نون لیگ کی صدارت میں زیادہ مزہ آ رہا ہے جیسے آپ ہریسا کھا رہے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''معاملہ ہمیشہ کے لیے طے ہو چکا ہے‘‘ جیسا کہ میرا معاملہ فیصلے کے بعد ہمیشہ کے لیے طے ہو گیا ہے لیکن کیا کروں‘ دل نہیں مانتا‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''مسلم لیگ نون قائداعظم کی پالیسیوں پر عمل کر رہی ہے‘‘ اور ان پر عمل کرتے کرتے ہی میں قائد اعظم ثانی کا لقب اختیار کر چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''اقلیتوں کا احترام ایک آئینی تقاضا ہے‘‘ جس پر پورے زور و شور‘ بلکہ زور کم اور شور سے زیادہ عمل کیا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
''فوجی ترجمان کی وضاحت سے معاملہ ختم ہو گیا‘‘
جواب الجواب کی ضرورت نہیں : احسن اقبال
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''فوجی ترجمان کی وضاحت سے معاملہ ختم ہو گیا ہے اس لیے جواب الجواب کی ضرورت نہیں‘‘ میں تو اللہ کا شکرادا کر رہا ہوں کہ کوئی سخت ردعمل نہیں آیا۔ مجھے لگتا ہے کہ ماضی میں کی گئی کوئی نیکی میرے کام آ گئی جو اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ میں جنرل ضیاء الحق کے دربار میں نعتیں پڑھا کرتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم سب ایک کشتی کے سوار ہیں‘ کوئی اپنا چپو چھوڑ کر دوسرے کا چپو چلائے گا تو معاملات خراب ہوں گے‘‘ اسی لیے میں نے اُن کے چپو کو ہاتھ تک نہیں لگایا ‘ میں تو عاجز اور مسکین سا آدمی ہوں اور رینجرز کے ایک سپاہی کے سامنے بھی میں نے گرج دار لہجہ نہ اپنایا حالانکہ وہ میرے ماتحت تھا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم ماتحتوں کی کتنی عزت کرتے ہیں۔ آپ اگلے روز واشنگٹن میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
انتخابی ماحول بن چکا‘ باہر نکلنے کا وقت آ گیا : آصف علی زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''انتخابی ماحول بن چکا ہے اور باہر نکلنے کا وقت آ گیا ہے‘‘ لیکن باہر بھی ذرا سوچ سمجھ کر ہی نکلنا پڑے گا کیونکہ عوام خاصے غصے میں ہیں اور اُن کارناموں کا بدلہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں جو ہم نے اپنے سابقہ دور میں سرانجام دیئے تھے‘ اس لیے بہتر ہے کہ ہیلمٹ پہن کر باہر نکلا جائے تاکہ زیادہ زخمی ہونے سے بچے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''حکمران قومی اداروں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں‘‘ حالانکہ ادارے جس حد تک تباہ ہو چکے ہیں‘ ان میں زیادہ تباہ ہونے کی گنجائش ہی نہیں ہے‘ تاہم ہم اپنی سی کوشش ضرور کریں گے بشرطیکہ ہماری بلّی کے بھاگوں یہ چھینکا اپنے آپ ہی ٹوٹ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ''چاروں صوبوں میں سیاسی سرگرمیاں تیز کریں‘‘ جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ گھر میں بیٹھ کر پارٹی کے لیے دعا کریں کیونکہ اب دعا ہی لگے تو لگے‘ ہمارے اپنے کارنامے تو کچھ اور ہی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں فیصل صالح حیات اور دیگران سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران جھوٹ بول کر اور شور مچا کر کس کو
بیوقوف بنا رہے ہیں : مریم اورنگزیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران خان جھوٹ بول کر اور شور مچا کر کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں‘‘ کیونکہ پوری قوم کو تو خود ہم نے بیوقوف بنا رکھا ہے اور اب کون باقی رہا ہے جسے وہ بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ شور بھی ہم اُن سے زیادہ ہی مچا رہے ہیں جس کا جلوہ ساری قوم جی ٹی روڈ پر دیکھ ہی چکی ہے‘ اور اب فیصلے کے خلاف ایک تاریخی شور مچایا جا رہا ہے جس کی مثال نہیں ملتی‘ اگرچہ عدلیہ نے ہمارے ہاتھ دیکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران کرسی کی ہوس میں ملکی ترقی نہیں چاہتے‘‘ جو کہ ہم کر کے دکھائیں گے کیونکہ کرسی ملنے کا تو اب کوئی امکان دور دور تک نہیں ہے جبکہ پہلے ہی کرسی سے نہایت دردناک طریقے سے اٹھا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''شریف خاندان قانون کے سامنے پیش ہوا‘‘ بلکہ عدالت کے باہر اس سے بھی زیادہ پیش ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ''قوم جانتی ہے کون احتساب سے بھاگ رہا ہے‘‘ اور‘ ہم اس لیے نہیں بھاگ رہے کہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ بھاگنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور ہونی ہو کر رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان آئینی اداروں پر حملہ کرتے ہیں‘‘ جس میں وہ بُری طرح سے ناکام ہوئے ہیں جس کے لیے ضروری تھا کہ وہ ہمارے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
مسعود احمد اوکاڑہ کے ایک بینک میں برانچ منیجر ہیں جبکہ شاعری کی برانچ پر بھی براجمان ہیں۔ ان کے تازہ اشعار پیش خدمت ہیں :
سانسوں کی مزدوری کرتے مر گئے ہیں
اپنی عمریں پُوری کرتے مر گئے ہیں
کتنے کام ضروری کل پر ٹالے تھے
کتنے کام ضروری کرتے مر گئے ہیں
پہلے اسے مکمل کر کے سوچا تھا
اب وہ بات ادھوری کر کے مر گئے ہیں
مار دیئے ہیں کچھ آخر گمنامی نے
کچھ اپنی مشہوری کرتے مر گئے ہیں
خون پسینہ گوندھ کے بنجر دھرتی میں
مٹی کو کستوری کرتے مر گئے ہیں
آج کا مقطع
ہماری اہل خبر تک نہیں رسائی‘ ظفرؔ
تو کیا ہوا‘ یہ دل بے خبر تو اپنا ہے