تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     17-10-2017

دکھ ہوتا ہے!

اتوار کی صبح کیپٹن حسنین نواز ایف سی ہیڈ کوارٹر کرم ایجنسی میں ویڈیو کال پر اسلام آباد میں موجود اپنی بیگم اور ڈیڑھ سالہ بیٹے سے محو گفتگو تھا کہ وائر لیس پر اسے پیغام سنائی دیا کہ اس کے جوانوں کا کانوائے بارودی سرنگ دھماکے کا شکار ہو گیا ہے۔ اسی وقت اپنی بیوی سے یہ کہتے ہوئے اس نے خدا حافظ کہا کہ وہ اپنے جوانوں کو دیکھنے جا رہا ہے، واپس آ کر دوبارہ بات کرے گا... جلدی سے اس نے اپنے ہتھیار سنبھالے اور ''کوئیک ری ایکشن فورس‘‘ کے ساتھ جیپ پر جائے وقوعہ کی جانب چل دیا۔ کیپٹن حسنین نواز جب کچھ قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بارودی سرنگوں کے دو دھماکے ہو چکے ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ مزید دھماکے بھی ہو سکتے ہیں۔ کیپٹن حسنین سے پہلے جانے والی ریسکیو پارٹی بھی ایک بارودی سرنگ کا شکار ہو چکی تھی اور اس کے زخمی جوان سڑک پر پڑے تھے۔ کیپٹن حسنین نے اپنے ساتھ آئے ہوئے نائب صوبیدار سے کہا کہ وہ ان جوانوں کو اٹھاکر کرم ایجنسی ہسپتال منتقل کر رہا ہے... جس پر نائب صوبیدار نے خبردار کرتے ہوئے کہا سر آگے مت جائیں ابھی وہاں اور بھی بارودی سرنگیں ہو سکتی ہیں۔ جس پر کیپٹن حسنین نے کہا ''میں اپنے زخمی جوانوں کو اس طرح تڑپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا...‘‘ اور موت کے منہ میں کود کر وہ اپنے دو زخمی جوانوں کو اٹھا کر لے آیا... جب وہ اپنے تیسرے زخمی جوان کو بچانے کیلئے اس تک پہنچنے ہی والا تھا کہ ایک اور بارودی سرنگ پھٹنے کی آواز سنائی دی جس نے کیپٹن حسنین کو شہادت سے سرفراز کر دیا۔ یہ تھا پاکستانی فوج کے افسران کا اپنے جوانوں کیلئے جذبہ اور پیار و محبت۔ جہاں جوان افسران کیلئے جان دیتے ہیں وہاں افسران بھی اپنے جوانوں کو بچانے کیلئے موت کو گلے لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے!! ننکانہ کا سپوت کیپٹن حسنین نواز شہید جب زخموں سے بے حال اپنے جوانوں کوآگ اور بارود کے دریا سے نکالنے کیلئے موت کی وادی میں اتر رہا تھا تو اس کے سامنے ڈیڑھ سالہ توتلی زبان میں بات کرتے ہوئے بیٹے کا چہرہ بھی آیا ہو گا اور ایف سی ہیڈ کوارٹر سے ویڈیو فون کا رابطہ منقطع کرتے ہوئے اپنی بیوی کا چہرہ بھی دکھائی دیا ہو گا لیکن پاک فوج کے اس افسر پر اپنے جوانوں سے محبت اور وطن کا عشق غالب آ گیا! یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ افسر اپنے زخمی جوانوں کو تڑپتا ہوا چھوڑ دیتا۔ کیپٹن حسنین کے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ اپنے زخمی جوانوں کو بچانے کیلئے انہیں ہر حالت میں ہسپتال پہنچانا ہے۔
بلوچستان، سوات اور دیر میں جب ریاستی رٹ ختم ہو گئی تو عشق کو حکم ملا کہ جائو اور وہاں پر سبز ہلالی پرچم کو لہراتے ہوئے حکومت پاکستان کی رٹ بحال کرو۔ وہاں رہنے والوں کی زندگیوں کو محفوظ بنائو تو یہ سنتے ہی یہ عشق وادی سوات میں مدد کیلئے پکارتی ہوئی بیٹیوں کی حفاظت کیلئے نکل پڑا۔ ہیلی کاپٹر اور جہازوں سے نیچے اترنے کے بعد قدم قدم پر دشمن اور اس کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگیں تھیں۔ وادی سوات کے اندر ہر دشمن کے کندھے پر راکٹ لانچر تھا اور ان کی جیبیں اور جیکٹس دستی بموں سے بھری ہوئی تھیں لیکن ایک ایک کر کے عشق ہیلی کاپٹروں اور جہازوںسے بے خطر نیچے بچھائی گئی آگ میں کودتا رہا... اور عشاق کے اس قافلے کے سالار جنرل ہارون اور جنرل طارق خان نے سب سے پہلے چھلانگ
لگائی۔ وہ عشق ہی کیا جسے دنیا کی آگ روک دے، وہ عشق ہی کیا جسے گولہ و بارود دہشت زدہ کر دے... پھر ایک عالم نے دیکھا کہ یہ کیسا جنون ہے، یہ کیسا جذبہ ہے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سوات کی وادیوں اور جنگلات میں جگہ جگہ بنائی گئی دشمن کی پناہ گاہوں، مورچوں، ٹنوں کے حساب سے اسلحہ و بارود اور جاہلیت کی سکھائی گئی وحشت کو زمین و آسمان سے بڑھنے والا عشاق کا قافلہ نیست و نا بود کر دے گا۔ سوات سمیت دیر میںظالمان نے اپنی حکومت قائم کر رکھی تھی جہاںوہ پاکستانی عوام اور سکیورٹی اہلکاروں کی گردنیں کاٹ کاٹ کریہ سمجھتے رہے کہ یہ لوگ خوف زدہ ہو کر بھاگ جائیں گے لیکن وہ بھول گئے کہ اس کا مقابلہ گوشت پوست سے نہیں بلکہ اس جذبہ عشق سے ہے جو پہاڑوں سے دودھ کی نہریں بہا دیتا ہے جو بے خطر آتش نمرود میں کود جاتا ہے تو کبھی نیل کی بہتی ہوئی موجوں کو ہنستے کھیلتے پار کر جاتا ہے۔ کبھی سیف جنجوعہ، لالک جان اور کیپٹن کرنل شیر خان کی طرح مائنس45 میں جا کر خون گرماتا ہے۔ یہ عشق کبھی کیپٹن علی بنا تو کبھی کیپٹن معظم بلوچ کی شکل میں سامنے آیا کبھی میجر صابر کی صورت اختیار کی تو کبھی کیپٹن اسفند یار، کرنل عامر، لیفٹیننٹ ارسلان کی طرح قوس قزاح کے رنگ بکھیر گیااور کبھی ابو القاسم پاکستانی کی طرح کشمیر کی شور مچاتی ہوئی ندیوں میں جلوہ ا فروز ہو گیا۔
اس جذبۂ عشق کی خوشبو مقبوضہ کشمیر کی مٹی میں بھی سونگھی جا سکتی ہے۔ با ٹا پور کے میدانوں اور وادیوں میں محسوس کی جا سکتی ہے، کومیلا اور چٹاگانگ کے ندی نالوں میں تلاش کی جا سکتی ہے۔ فاضلکا اور کھیم کرن کے کھیتوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ چونڈہ، ظفر وال اور چار واہ سمیت بیدیاں برکی کے میدانوں اور کشمیر، کارگل اور سیاچن کی برف پوش چٹانوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے انگور اڈہ، میر علی، میران شاہ اور وانا، وادی مہران کے سنگلاخ پہاڑوں کی طرف نکل جائیں تو عشق کی خوشبو وہاں بھی ڈھونڈی جا سکتی ہے۔ میرے ہی ملک کے اندر موجود دشمن کہتے ہیں کہ یہ پلاٹوں کیلئے بھرتی ہوتے ہیں‘ یہ بہتان تراش کیا جانیں کہ میرا نام پاکستانی فوج ہے میرے اندر وہ جذبہ ہے جسے صرف اس پاک وطن پر مر مٹنا آتا ہے!!۔کبھی میں نے اپنی ٹانگیں اور بازو کٹوا دیئے، کبھی میں نے اپنی گردن کٹوا دی، کبھی میں نے اپنا سینہ چھلنی کرا دیا اور کبھی میں نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر اپنے جسم کا قیمہ بنوا دیا۔ کبھی میں نے ٹینکوں کے شعلوں میں خود کو کوئلے کی طرح بھسم کروا دیا اور کبھی خود کش جیکٹوں کے سامنے اپنا آپ پیش کرتے ہوئے جیتا جاگتا جسم ریزہ ریزہ کروا دیا۔ مجھے کبھی بھی تکلیف نہیں ہوئی، میں کبھی بھی درد سے نہیں رویا، میری دونوں ٹانگیں کٹ گئیں، میںدونوں بازوئوں سے محروم ہو گیا، میرا چہرہ بگڑ گیا، میں دونوں آنکھوں سے نابینا ہو گیا لیکن مجھے اس کا دکھ نہیں ہوا، کبھی بھی افسوس نہیں ہوا۔ جب میں دیکھ نہیں سکتا، جب میں چل نہیں سکتا، جب میری گردن کاٹ کر دہشت گرد اس سے فٹ بال کھیلتے ہوئے زور زور سے سنگلاخ پہاڑوں پر اپنے بھاری نوک دار جوتوں سے ٹھوکریں مارتے رہے تو مجھے اس وقت بھی تکلیف نہیں ہوئی لیکن... میرے جسم کے ایک ایک حصے سے، میری کاٹ کر پھینکی گئی ٹانگوں اور بازئوں سے، بھاری بوٹوں سے ادھیڑی ہوئی میری کھوپڑی تکلیف اور اذیت سے اُس وقت آہ و بکا شروع کر دیتی ہے جب کہا جاتا ہے کہ یہ فرض نہیں نبھاتا، یہ ہمارا بجٹ کھا جاتا ہے ، ہمیں ترقی نہیں کرنے دیتا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved