تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     17-10-2017

شاہد ومبشرﷺ

ہمارے آقا و مولا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ آپؐ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام نعمتیں مکمل فرما دیں۔ آپؐ روزِ محشر مقامِ محمود پر فائز ہوں گے۔ آپ اللہ سے ہم کلام ہوں گے جبکہ تمام انبیائے کرام زبان کھولنے سے معذرت کر دیں گے۔ آپؐ کو شفاعت کا حق دیا جائے گا اور آپؐ کی شفاعت قبول بھی کی جائے گی۔ آپؐ حوضِ کوثر پر اپنے سچے پیروکاروںکا استقبال فرمائیں گے۔ آپؐ کو اللہ نے شاہد و مبشر اور نذیر و داعی کے ساتھ سراجِ منیر کا خطاب بھی دیا ہے۔ آپؐ کا نور قرآن مجید اور آپؐ کے اسوہ کی صورت میں قیامت تک جگمگاتا رہے گا۔ آپؐ کی پیدائش کے وقت ہی سے مسلسل انسانیت کو بشارت دی جا رہی تھی کہ وہ ہستی جس کی تمام نبیوں نے گواہی دی، دنیا میں جلوہ افروز ہونے والی ہے۔ پوری کائنات میں آپؐ کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ (خلاصہ حدیث: بخاری و مسلم، عن ابی ہریرہؓ)
اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا اعلیٰ اور معزز خاندانوں میں مبعوث فرمائے۔ جناب عبد المطلب آلِ اسماعیلؑ میں بہت بلند مقام رکھتے تھے۔ ان کی سوانحِ عمری میں قدم قدم پر ان کی عظمت جھلکتی ہے۔ انھوں نے بھی آنحضورؐ کی طرح یتیمی کے دوران اپنے چچا مطلب بن عبد المناف کی سر پرستی میں شہزادوں کی طرح زندگی گزاری۔ جناب عبد المطلب کے بارے میں امام ابن کثیرؒ لکھتے ہیں کہ انھوں نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے کچھ عرصہ قبل ایک عجیب وغریب خواب دیکھا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ایک نہایت خوب صورت اور سرسبز وشاداب درخت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ حد نگاہ تک اس کی شاخیں مشرق ومغرب میں بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ اس سے ایسی روشنی نمودار ہو رہی ہے جس سے مشرق ومغرب کا ہر خطہ جگمگا رہا ہے۔ پھر اچانک ہر جانب سے کچھ لوگ کلہاڑے اور دیگر ہتھیار لے کر دیوانہ وار اس درخت کو کاٹنے کے لیے بھاگے چلے آ رہے ہیں۔ جب یہ لوگ درخت کے قریب پہنچے تو درخت کا تنا شق ہو گیا اور اس میں سے ایک ایسا خوب صورت جوان رعنا برآمد ہوا کہ اس کی مثل دنیا میں کبھی نہ دیکھی گئی ہوگی۔ اس جوانِ حسین وجمیل نے ان لوگوں کو درخت کاٹنے سے روکا، مگر وہ نہ مانے۔ اب اس نے ان کو بزور قوت یوں روکا کہ ان کی کمر توڑ ڈالی اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں۔ اس کے بعد وہ لوگ درد سے کراہتے اور چلاتے ہوئے گرتے پڑتے دور بھاگنے لگے۔
عبد المطلب نے اپنا یہ خواب اپنے بیٹے ابو طالب کو بھی سنایا اور پھر اس کی تعبیر پوچھنے کے لیے اس دور کی ایک مشہور کاہنہ کے پاس گئے۔ جب اس کے سامنے یہ خواب بیان کرنے لگے تو کاہنہ نے کہا کہ آپ کا چہرہ زرد کیوں ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرا خواب تو سن لو۔ جب پورا خواب سنا چکے تو کاہنہ کا چہرہ بھی زرد ہوگیا۔ پھر وہ چونک کر بولی کہ خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ درخت شجر نبوت ہے اور جو نوجوان تنے سے برآمد ہوا ہے وہ تمھاری قوم میں مبعوث ہونے والا نبی ہے۔ اس کی روشنی مشرق و مغرب میں ہر جانب پھیلے گی، مگر خود اس کی اپنی قوم اس کے مد مقابل کھڑی ہو جائے گی۔ وہ ان کی اصلاح کی کوشش کرے گا، مگر وہ نہیں مانیں گے۔ آخر مجبور ہوکر وہ ان کی کمریں توڑ ڈالے گا اور ان کی آنکھیں پھوڑ ڈالے گا اور اس کی فتوحات ان لوگوں کو بے بس کر دیں گی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص۴۳۲) 
امام ابن کثیرؒ ابونعیم کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: میں ایک تجارتی قافلے میں یمن کی طرف گیا اس قافلے میں ابو سفیان بھی شامل تھا۔ جب یمن میں پہنچے تو ایک دن میں کھانا پکاتا، ایک دن ابو سفیان اور ایک ایک دن باقی لوگ۔ ایک دن جب کھانا تیار ہوگیا اور لوگ کھانے کے لیے آئے تو ابوسفیان نے مجھ سے کہا کہ اے ابوالفضل کیا تمھیں معلوم ہے کہ تمھارا بھتیجا خود کو نبی سمجھتا ہے۔ میں نے کہا میرا کون سا بھتیجا؟ اس نے کہا: ایک ہی تو ہے جو یہ بات کرسکتا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا تو اس نے کہا کہ محمدؐ بن عبداللہ۔ میں نے کہا تمھیں کس نے بتایا؟ اس نے کہا: میرے بیٹے! حنظلہ نے مجھے ایک خط بھیجا ہے جس میں لکھا ہے کہ بطحا کے مقام پر محمدؐ بن عبداللہ نے کھڑے ہو کر کہا: ''میں اللہ کا رسول ہوں اور تمھیں اللہ عزوجل کی طرف دعوت دیتا ہوں‘‘۔ حضرت عباسؓ کہتے ہیں میں نے کہا اے ابوحنظلہ! میرا خیال ہے کہ حنظلہ نے سچ ہی لکھا ہے۔ اسی دوران عبداللہ بن حذافہ یہ خبر لے کر یمن آ گیا اور اس نے خود اپنے ایمان لانے کا تذکرہ کیا۔
ابوسفیان اس خبر سے بہت رنجیدہ اور غضب ناک ہوا، مگر ایک یہودی ان سے ملا جس کے سامنے اس بات کا تذکرہ ہوا تو اس نے بھی کہا کہ اس رسولؐ کا تذکرہ تورات میں موجود ہے اور اے ابوالفضل! یہود بھی تمھارے بھتیجے کی آمد سے خوف زدہ ہیں۔ مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ اس کی فوج اور گھڑ سوار ایک وقت میں کُدا سے طلوع ہوں گے اور فتح پائیں گے۔ یہ سن کر ابوسفیان نے ناک بھوں چڑھائی اور کہا کہ میں کبھی اس پر ایمان نہ لاؤں گا۔ حضرت عباسؓ نے فتح مکہ کے وقت کدّا کے پاس ابوسفیان کو یہ بات یاد کرائی تو اس نے کہا: ''ہاں خدا کی قسم مجھے وہ بات یاد ہے اور میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے قبول اسلام کی توفیق عطا فرمائی‘‘۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص۴۳۲-۴۳۳)
حضرت طلحہؓ بن عبیداللہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ وہ آغازِ اسلام میں بُصریٰ کی طرف تجارت کے لیے گئے۔ وہاں انھوں نے دیگر لوگوں کے ساتھ ایک عبادت گاہ میں قیام کیا۔ عبادت خانے کے راہب نے ان لوگوں سے پوچھا: اے اہلِ عرب! کیا تمھارے درمیان اہلِ حرم میں سے بھی کوئی شخص موجود ہے؟ تو حضرت طلحہؓ نے کہا: ''جی ہاں میں خود اہلِ حرم میں سے ہوں۔‘‘ اس نے پوچھا: کیا تمھارے درمیان ایک شخص احمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نبوت کا اعلان کر دیا ہے؟ (آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا نام اگرچہ احمد بھی تھا، مگر آپ زیادہ معروف محمدؐ ہی کے نام سے تھے) اس لیے طلحہؓ نے پوچھا: ''کون احمد؟‘‘ راہب نے وضاحت کی کہ احمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب۔ اس پر طلحہؓ سمجھ گئے کہ اس کی مراد محمدؐ بن عبداللہ ہیں۔ جب انھوں نے کہا کہ ہاں میں انہیں جانتا ہوں تو وہ راہب بولا: ''اسی مہینے میں وہ خدا کی طرف سے مبعوث ہونے والے تھے۔ وہ خدا کے آخری نبی ہیں۔ مکہ سے وہ سرسبز وشاداب کھجوروں کی سرزمین کی طرف ہجرت کریں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم ان پر ایمان لانے والے پہلے لوگوں میں شامل ہوگے۔‘‘
حضرت طلحہؓ جب واپس مکہ لوٹے تو اپنے دوست ابوبکرؓ سے ملے اور ان سے اس بات کا تذکرہ کیا۔ ابوبکرؓ نے کہا کہ ہاں محمدؐ بن عبداللہ نے نبوت کا اعلان کیا ہے اور میں نے ان کی رسالت کی تصدیق کی ہے۔ اس پر طلحہؓ بن عبیداللہ بھی حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کلمہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس دور میں حضرت ابوبکرصدیقؓ کی دعوت وتبلیغ کا کام جاری تھا۔ کئی سابقون الاولون انہی کی دعوت کے نتیجے میں مسلمان ہوئے۔ آپ عثمانؓ بن مظعون، ابوعبیدہؓ بن جرّاح (جن کا پورا نام عامر بن عبداللہ بن جراح ہے)، سعیدؓ بن زید بن عمرو بن نفیل، ابوسلمہؓ بن عبدالاسد اور ارقمؓ بن ابی ارقم جیسے عظیم نوجوانوں کے پاس گئے۔ یہ سب ان کے معتمد ساتھی تھے۔ ان سب کو انہوں نے آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت اور اُن پر اپنے ایمان لانے کی خبر دی تو وہ بھی سب کے سب مسلمان ہوگئے۔ یہ مکہ کے بہت قیمتی ہیرے تھے، جو اسلام کے دامن میں آگئے۔ ان کے کارناموں سے تاریخ اسلام میں قیامت تک روشنی پھیلتی رہے گی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص۴۷۴)
آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عمروؓ بن مرہ الجہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ یمن سے ایک قافلے کے ساتھ زمانۂ جاہلیت میں مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں ایک جگہ پڑاؤ کیا تو میں نے رات کو خواب میں دیکھا جیسے ہم مکہ میں داخل ہوگئے ہیں۔ خانہ کعبہ سے ایک روشنی نکل کر دور تک پھیلتی چلی گئی جو یثرب کی وادیوں تک پہنچ گئی۔ پھر میں نے ایک آواز سنی: ''دورِ ظلمت ختم ہوا، روشنی کا عہد طلوع ہوا اور خاتم الانبیاء دنیا میں مبعوث ہوگئے‘‘۔ پھر کہتے ہیں کہ دوسری روشنی ان کو نظر آئی تو انھوں نے اس میں حیرہ اور مدائن کے علاقے دیکھے۔ عمروؓ بن مرہ جب مکہ میں آئے تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم اعلانِ نبوت فرما چکے تھے۔ یہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپؐ سے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اجازت دیجیے کہ میں یمن واپس جاکر اس دین کی تبلیغ کروں۔
آپؐ نے انھیں واپسی کے وقت نصیحت فرمائی: ''ہمیشہ نرم رویہ اختیار کرنا، سچی بات کہنا، سخت دلی تکبر اور حسد سے ہمیشہ بچ کر رہنا‘‘۔ عمروؓ بن مرہ کی دعوت کے نتیجے میں یمن میں بہت بڑی تعداد میں لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص۴۳۳-۴۳۴)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved