تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     18-10-2017

اسلام آباد میں درختوں کا قتلِ عام

قتل صرف انسان ہی نہیں ہوتے، انسانوں کو آکسیجن فراہم کرنے والے درخت بھی قتل ہوتے ہیں۔ دکھ یہ ہے درختوں کے قتل کا مقدمہ درج نہیں ہوتا۔ 
میں کتنی ہی قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں شریک ہوا‘ جہاں ماحولیات کو درپیش خطرات کے بارے میں وزیروں اور زکوٹا جنوں نے بڑے جوش سے بتایا کہ جناب ہم نے ماحول کو بچانے کے لیے دن رات ایک کیا ہوا ہے۔ اجلاسوں میں حکام لمبی لمبی تفصیلات سنائیں گے۔ فلاں ملک میں گئے تو فلاں معاہدے پر دستخط کیے۔ فلاں کنونشن میں ہم شریک تھے۔ فلاں سے ملاقات ہوئی۔ جرمنی سے لے کر مراکش تک سیر سپاٹوں کی کہانیاں۔ ہم سب مرعوب ہوں گے کہ دیکھو ہمارے وزیر، سیکرٹریز اور سرکاری افسران دن رات ایک کیے ہوئے ہیں کہ دنیا کو جو شدید خطرات لاحق ہیں ان کا تدارک ہمارے ہاں کیسے ہو؟ یہ عوام کے ٹیکسوں سے لاکھوں ،کروڑوں روپے بیرونی دوروں پر لگا آتے ہیں۔ اندازہ اس بات سے لگائیں کہ زاہد حامد صاحب کی سربراہی میں ایک سرکاری وفد ماحولیات کی عالمی کانفرنس کے نام پر اٹھارہ دن مراکش میں ٹھہرا رہا۔ 
تو کیا نتیجہ نکلا پھر؟ مجھے دو ہزار سات یاد آیا‘ جب لندن سے واپس آیا تو میرے دوست ڈاکٹر ظفر الطاف نے مجھ سے پوچھا: پھر کیا خیال ہے‘ ہم زیادہ ذہین ہیں یا گورے؟ میں چپ رہا۔ انہوں نے اصرار کیا تو میں نے کہا: سر یہ کوئی موازنہ بنتا ہے؟ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔ میں نے کہا: ہمارے بیوروکریٹس کی حالت آپ سے بہتر کون جانتا ہے۔ ساری عمر بڑے افسر کی خوشامد، اچھی پوسٹنگ کی تلاش اور گریڈ کے چکر میں گزر جاتی ہے۔ ساری عمر سر جھکا کر نوکری کریں گے‘ لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد ان پر سمجھداری کا دورہ پڑے گا اور اپنی بہادری کی ایسی ایسی کہانیاں سنائیں گے کہ بندہ دنگ رہ جائے۔ حالانکہ سرکاری ملازمت کے دوران ایک ''دبکے‘‘ سے ان کی جان نکل جاتی تھی۔ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب آپ جیسے ایک دو دانے ہی بیوروکریسی میں ہیں‘ باقی تو اپنے ایک پائو گوشت کے لیے پورا اونٹ ذبح کر دیتے ہیں۔ جو ساری عمر خوشامد کے ذریعے ترقیاں پاتے ہیں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد دانشوری کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو جاتے ہیں‘ اور ہم ان کی بہادری کی کہانیاں سن کر مرعوب ہوتے ہیں۔ مجال ہے کبھی عوام کے بھلے کا کوئی کام کر دیں‘ اس سے ان کی واہ واہ جو نہیں ہوتی۔ رولز کی ایک کتاب لے کر بیٹھے ہوئے ہیں جو عوام کے کام نہ کرنے کے کام آتی ہے۔ اگر سیکرٹری، وزیر یا وزیر اعظم کا سیکرٹری دھمکی لگا دے تو سب رولز دوستانہ نکل آتے ہیں۔ یہ ہے آپ کی بیوروکریسی اور اس کے پھنے خان افسروں کی اوقات۔ 
سرکاری دفتروں میں نچلا سرکاری طبقہ سارا دن پراپرٹی کا بزنس کرتا رہتا ہے۔ فون پر پلاٹوں کی خریدوفروخت ہو رہی ہوتی ہے۔ میں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ان کو کیا پتہ کہ گورننس کیا ہوتی ہے یا ایک صحت مند معاشرے کو کن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سرکاری افسر اور ملازمین کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں چکر کاٹتے زندگی گزارتے ہیں۔ باقی چھوڑیں صرف اسلام آباد کو دیکھ لیں‘ جہاں سرکاری گھروں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تیس ہزار سرکاری ملازمین کے پاس رہنے کو جگہ نہیں‘ جنہیں ہر ماہ کروڑں روپے رینٹ الائونس کی مد میں مل رہے ہیں۔ اس پیسے سے یہ افسران تیس ہزار سرکاری فلیٹس بنا سکتے تھے‘ جہاں انہوں نے خود رہنا ہے۔ یہ سرکاری افسران سٹیٹ آفس یا ہائوسنگ کی وزارت میں رشوت دے کر گھر الاٹ کرائیں گے، ایک دوسرے کے گھروں پر قبضہ کریں گے، عدالتوں میں برسوں لڑیں گے لیکن یہ نہیں کریں گے کہ ایک سیکٹر میں تیس ہزار فلیٹس تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا لیں‘ حالانکہ یہ سب ان بیوروکریٹس کے بس میں ہے۔ یہ وزیروں کو کرپشن کے ہزاروں طریقے بتائیں گے‘ لیکن اپنے لیے تیس ہزار فلیٹس کا سیکٹر نہیں بنائیں گے۔ بیس سال پہلے اسلام آباد آیا تھا تو بھی تیس ہزار سرکاری ملازمین کو سرکاری گھر تلاش کرتے پایا‘ اور آج بھی ڈھونڈ رہے ہیں۔
انہی زکوٹا جنوں کی وجہ سے اب اسلام آباد میں ایک سو دس ہائوسنگ کالونیاں بن گئی ہیں‘ جو غیرقانونی ہیں۔ اسلام آباد کی آبادی پندرہ برسوں میں دس لاکھ سے بیس لاکھ ہو گئی ہے۔ شہر گندا ہو گیا ہے۔ لگتا ہے کہ سی ڈی اے ان ہائوسنگ کالونیوں کے ساتھ مل گئی ہے۔ تیس برسوں میں کوئی بڑا سیکٹر ڈویلپ نہیں کیا جا سکا‘ کیونکہ اگر نیا سیکٹر بنتا تو پھر پرائیویٹ ہائوسنگ کالونیوں کا کاروبار کیسے چلتا؟ اربوں روپے کے فراڈ کیسے ہوتے اور افسران اپنا حصہ کہاں سے لیتے؟ ترقیاتی ادارے میں اس وقت بیس ہزار ملازمین کی ایک پوری فوج بھرتی ہے‘ پھر بھی پورا شہر گندگی کا ڈھیر بنتا جا رہا ہے۔ ان لوگوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ آنے والے وقتوں میں انسانی زندگی کو سب سے بڑا خطرہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ہے‘ تو یہ لوگ ہنس دیں گے۔ یہ آپ کو بیوقوف سمجھیں گے۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت میں شکر پڑیاں میں زرداری صاحب نے ہزاروں درخت کٹوا دیے کہ اب یہاں رہائشی کالونی بنے گی۔ پھر اربوں روپے کا فراڈ کرکے سب فرار ہو گئے۔ آج کل وہاں فوجی پریڈ ہوتی ہے۔ محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر محمد حنیف نے انکشاف کیا ہے کہ اکتوبر دو ہزار سترہ‘ اسلام آباد کی پچاس سالہ تاریخ کا سب سے گرم مہینہ ہے۔ موسم بہار آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا۔ ہر سال گرمیوں کا موسم ایک دن بڑھ رہا ہے۔ درختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی نے درجہ حرارت کو بڑھا دیا ہے۔ کراچی میں اس کے اثرات سامنے آ رہے ہیں‘ جہاں ساٹھ سال میں پہلی دفعہ اتنی گرمی پڑی ہے۔ کراچی کو گندگی سے بھر دیا گیا ہے۔ لاہور میں بھی یہی کچھ ہوا‘ جب سینکڑوں درخت کاٹ دیے گئے‘ کیونکہ میٹرو اور اورنج ٹرین کا راستہ بنانا تھا۔ لاہور میں اب دم گھٹتا ہے۔ لاہور اور کراچی کو آلودہ کرنے اور وہاں کے لوگوں کا جینا حرام کرنے کے بعد لگتا ہے اب اسلام آباد کی باری ہے۔ اسلام آباد کا درجہ حرات بقول محمد حنیف کے دو پوائنٹ بڑھ چکا ہے۔ دو ماہ سے اس شہر میں ہلکی سی بارش بھی نہیں ہوئی۔ 
اس خطرے کا تدارک اسلام آباد کے حکمران کیسے کر رہے ہیں؟ سی ڈی اے نے پچھلے کچھ عرصے میں کشمیر ہائی وے اور ایمبیسی روڈ پر سینکڑوں درخت انتہائی بے دردی سے کاٹ کر رکھ دیے کہ تین کلومیٹر طویل سڑک چوڑی کرنی ہے۔ جس شہر کا درجہء حرارت دو پوائنٹ اوپر چلا گیا ہو، جہاں دو ماہ سے بارش نہ ہوئی ہو، جہاں اکتوبر پچھلے پچاس سال میں سب سے گرم قرار دیا گیا ہو، وہاں سینکڑوں درخت کاٹنا نا قابلِ معافی جرم ہے کہ اس کی تلافی بھی ممکن نہیں۔ یہ شہر ٹھیکیداروں کے ہاتھ لگ گیا ہے‘ بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ٹھیکیدار ہی ملک کو چلا رہے ہیں۔ روزانہ منافع کمانے دفتر جاتے ہیں۔ موسم پاگل ہو رہے ہیں، دریا زمینوں کو کھا رہے ہیں، سمندری طوفان انسانی بستیوں پر حملہ آور ہو رہے ہیں لیکن ان لوگوں کو کوئی پروا نہیں۔ اسلام آباد وہ شہر ہے جو کہا جاتا ہے کہ زلزلوں کے اوپر بنایا گیا ہے۔ اس شہر کو تو زیادہ سے زیادہ درختوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ موسمیاتی شدت کم کر سکیں۔ عامر متین نے یہ بتا کر مجھے حیران کر دیا کہ وہ ایک دن سپریم کورٹ گئے تو مارگلہ پہاڑیوں کو کرشنگ کے ذریعے گنجا کرکے بیچنے والوں کے خلاف مقدمہ چل رہا تھا۔ اعتزاز احسن دلائل دے رہے تھے۔ عامر متین سمجھا‘ وہ کرشنگ مافیا کے خلاف وکیل کے طور پر پیش ہوئے ہوں گے۔ پتہ چلا وہ اس کرشنگ مافیا کے وکیل ہیں‘ جو پہاڑوں کو گنجا کرکے چاٹ رہا ہے۔
پڑھے لکھے افسران کو سڑک کا ٹھیکیدار چند ٹکوں کے عوض خرید لے اور وہ سب مل کر اسلام آباد میں صرف تین کلومیٹر طویل سڑک کے نام پر سینکڑوں درختوں کا قتل عام کروا دیں تو پھر کس سے شکایت کریں؟ 
ایسے بیکار شعور اور فرسودہ علم کے بارے میں ہی بابا بلھے شاہ نے کہا تھا:
علموں بس کریں اور یار 
کیتا تینوں علم نیں خوار

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved