تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     18-10-2017

سٹور کے انچاس فیصد حصص

ہر اس شخص کے خلاف صاف اور شفاف تحقیقات شروع کرنے میں ایک دن کی تاخیر بھی قومی جرم ہو گا جن کے نام پانامہ لیکس میں سامنے آ چکے ہیں۔ چاہے کوئی کتنا بھی طاقتور ہو، ملک کی دولت لوٹ کر کسی بھی شکل میں اسے باہر منتقل کرنے والوں سے ایک ایک پائی وصول کی جانی چاہئے۔ اگر عدالت کے حکم سے ہمیش خان کو لندن اور ایڈمرل منصورالحق کو امریکہ سے لایا جا سکتا ہے تو پھر یہاں کسی کو بھی معتبر اور مقدس نہیں ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے کیا جانے والا یہ مطالبہ اس وقت انصاف کا عین تقاضا اور پاکستانیوں کے دل کی آواز بن چکا ہے۔ ''اکراس دی بورڈ‘‘ انصاف کی گونج‘ جو اس وقت ہر جانب سے سنائی دے رہی ہے، نظر انداز کرنے کی حماقت کوئی عقل کا اندھا ہی کر سکتا ہے۔ عمران خان کے اس مطالبے کو سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے اس بیان کو سامنے رکھتے ہوئے مزید سنجیدہ لیا جانا چاہئے کہ ''کیا وجہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں نیب کو مطلوب کسی بھی شخص کو ایک گھنٹے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسری جگہوں پر ملزمان کی گرفتاری کی بجائے انہیں سلیوٹ کرنے اور وی وی آئی پی پروٹوکول فراہم کرنے میں دن رات مصروف رہتی ہے۔
کچھ ادارے اپنے طور پر متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ حکام سے ان 660 پاکستانیوں کے متعلق تفصیلات حاصل کرنے میں مصروف ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ میں پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے اربوں ڈالر اس خلیجی ریاست میں منتقل کئے۔ ان افراد میں ماڈل گرل ایان علی جیسی لڑکیوں کا ایک گروہ بھی شامل ہے۔ ایان علی تو صرف ایک چھوٹی سی مثال ہے جو اپنے ساتھ پانچ لاکھ ڈالر لے کر دبئی جا رہی تھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دبئی کے ایک ادارے نے کئی ماہ پیشتر نیب کو ایک خط کے ذریعے اطلاع دی تھی کہ ان کی معلومات کے مطابق سعودی عرب اور دبئی میں سینکڑوں کے حساب سے پاکستانیوں نے اربوں ڈالر غیر قانونی طریقوں سے منتقل کئے ہیں اور اس سلسلے میں وہ امارات اور سعودیہ کی ٹیکس اتھارٹیوں سے بھی رابطہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اب تک کی معلومات کے مطابق ان میں کراچی سے 265، لاہور سے 182، راولپنڈی اور اسلام آباد سے 106، پشاور سے 15 اور پاکستان کے دوسرے شہروں کے 92 افراد نے غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک پیسے منتقل کئے ہیں۔ دور مت جائیں، عمران خان اپنے جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں وزارت خزانہ کے حوالے سے کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ صرف ایک سال میں چار ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا زرمبادلہ غیر قانونی طریقوں سے دبئی پہنچا دیا گیا ہے۔ 
کیا یہ بلیک منی پاکستان سے صرف دبئی اور خلیجی ممالک میں بھجوانے تک ہی محدود ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہو سکتا ہے کیونکہ اوورسیز پاکستانی شکوہ کر رہے ہیں کہ ہمیں تو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے کہا جاتا ہے جبکہ ہماری آنکھوں کے سامنے امارات، یورپ، برطانیہ، سپین، سائوتھ افریقہ، مالٹا، کینیا اور امریکہ سمیت بہت سے ممالک میں پاکستان سے ناجائز طور پر کمایا جانے والا پیسہ گردش کر رہا ہے۔ اور ان سب کی بے خوفی کا یہ عالم ہے کہ دھڑلے سے دنیا کے ہر ملک میں مختلف ناموں سے مہنگی جائیدادوں کی خریداریاں کی جا رہی ہیں۔ کوئی دو برس قبل عمران خان خان دبئی میں خیبر پختونخوا میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کیلئے پہنچے تو اس کانفرنس میں ان سے یہی سوال کیا گیا کہ آپ کے ملک کا سارا سرمایہ تو دبئی اور یورپ پہنچ رہا ہے اور آپ ہیں کہ ہمیں خیبر پختونخوا میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کا کہہ رہے ہیں۔
احتساب بیورو کو چاہئے کہ وہ سابق صدر آصف زرداری کے قانونی مشیر اور سابق چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اس بات کا کھوج لگائے کہ آئس لینڈ کے سب سے بڑے گروسری چین کے 49 فیصد حصص پاکستان کی کون سی انتہائی اہم ترین سیا سی شخصیت کے قریبی اور جانے پہچانے فرنٹ مین نے خرید رکھے ہیں۔ فاروق ایچ نائیک نواز لیگ کو بھی قبول ہوں گے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ خیر سے وہ خواجہ آصف کے رشتے میں بھائی لگتے ہیں۔۔۔ چونکہ آئس لینڈ سے ملنے والی اطلاع کے مطابق اکتوبر 2014ء میں 90 ملین ڈالر میں اس گروسری چین کے یہ حصص خرید ے گئے تھے اور آئس لینڈ کی سب سے بڑی مارکیٹ کی چین خریدنے کے بعد پاکستان کے ''ان صاحب ‘‘ نے سب سے پہلے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ''اس چین میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے تمام ملازمین کو نوٹس دے دیا جائے اور یکم اکتوبر 2014ء سے ان سب کو ملازمتوں سے فارغ کر دیا جائے ‘‘۔۔۔ اور پھر اس گروسری چین میں کام کرنے والے ان بے چارے 35 پاکستانیوں کی ملازمتیں ایک نادر شاہی حکم سے ختم کر دی گئیں۔۔۔ یہ پاکستانی بار بار پوچھتے رہے کہ ہمارے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا، ان کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے کئی ایشیائی جن میں بھارتی بھی شہری شامل ہیں‘ ان کی ملازمتوں کو تو قائم رکھا گیا اور سارا نزلہ ان غریب پاکستانیوں پر گرا دیا گیا۔ شاید اس لئے کہ یہ سٹور پاکستان سے لوٹی ہوئی دولت سے خریدا گیا تھا؟
90 ملین ڈالر کی رقم کوئی معمولی نہیں ہوتی۔۔۔۔ اگر کسی ماہر قانون کو یہ پیشکش کر دی جائے کہ اس رقم کا ''10 فیصد ‘‘ آپ کو بطور معاوضہ دیا جائے گا تو ممکن ہے کہ وہ یہ کڑوا گھونٹ بھر کر ملک کی خدمت کے لئے تیار ہو جائے؟ یہ تو کوئی ماہر اقتصادیات ہی بتا سکے گا کہ اگر آئس لینڈ کے90 ملین ڈالر پاکستان کو واپس مل جائیں تو اس کے معیشت پر کیا اثرات ہوں گے اور اس سے پاکستان کے کتنے قرضے اتارے جا سکیں گے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض اولین ہے کہ وہ معلوم کریں کہ ا س قدر بھاری رقم کی ادائیگی پاکستان کی ''کس شخصیت‘‘ نے اور کیسے کی، یہ پیسہ اس کے پاس کہاں سے آیا۔
ایک جا نب پاکستان کے خزانوں سے لوٹے ہوئے 90 ملین ڈالرز سے آئس لینڈ میں انویسٹ منٹ کی گئی ہے تو دوسری جانب اسلام آباد سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع پنڈ دادن خان میں جانور اور انسان ایک ساتھ پانی پی کر زندگیاںگزار نے پر مجبور ہیں ۔۔۔۔
17 اکتوبر کی صبح رائیونڈ کے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر اور جگہ نہ ملنے پر حوا کی ایک بیٹی نے بھر پور ٹریفک سے رواں دواں سڑک پر چارپائی کی اوٹ میں بچے کو جنم دیا ہے اور پاکستان کے دل‘ اسی لاہور کے کارڈیالوجی ہسپتال میں دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہسپتال آنے والے مریضوں کے علاج اور سہولتوں کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ ایک اسٹریچر پر دو مریض لیٹے ہوتے ہیں اور اسی پر بس نہیں حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ وہیل چیئر کو اب اسٹریچر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے مریضوں کو ڈرپ لگا دی جاتی ہے اور لواحقین باری باری اس ڈرپ کو ہاتھوں سے تھامے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر کسی کو جانا ہو تو جناح ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈز کا ایک سرسری سا چکر ہی لگا آئے۔ ان وارڈوں کی ابتر حالت دیکھتے ہی قے آنی شروع ہو جائے گی حالانکہ ایمرجنسی وارڈ وہ ہوتا ہے جہاں کسی بھی جاں بلب مریض کو فوری طبی امداد کیلئے سب سے پہلے لایا جاتا ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved