(قسط اول)
قارئین کو یاد ہو گا کہ میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنے کالم میں لکھا تھا ''سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اپنے خاندان‘ خصوصاً بچوں کو سیاست میں ملوث نہ کریں‘ ورنہ اس کے نتائج کافی تکلیف دہ ہوں گے‘‘۔ الفاظ تو مجھے ٹھیک سے یاد نہیں۔ پچاس برسوں کے دوران لکھے ہوئے کالم‘ پوری طرح یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ آج کئی برسوں کے بعد‘ حالات نے مجھے اپنی کئی تحریریں اور واقعات یاد دلانا شروع کر دئیے ہیں۔ چند روز قبل مجھے ایک ساتھی نے یاد دلایا کہ میں نے اپنے کسی کالم میں‘ سابق وزیراعظم نواز شریف کو مشورہ دیا تھا ''وہ اپنے بچوں اور اہل خاندان کو سیاست میں ملوث نہ کریں‘ ورنہ جیسے جیسے بچے بڑے ہوں گے‘ مسائل بھی بڑے ہوتے جائیں گے‘‘۔ یہی بات میں نے برسوں پہلے میاں صاحب سے عرض کی تھی۔ جو ناگواری سے سنی گئی۔ اب رونما ہو نے والے واقعات میری باتوں پر پورا اتر رہے ہیں۔
جب جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں میاں نواز شریف کو جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔ خاندان کے باقی سارے افراد سعودی عرب چلے گئے لیکن حمزہ شہباز‘ یہیں لاہور میں رہے۔ اس کی وجہ تب معلوم ہوئی ‘جب چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی دونوںنے مجھے بتایا کہ حمزہ شہبازکویہاں بطور ضمانت چھوڑ دیا گیا ہے۔ حمزہ صاحب‘ خاندان سے جدائی کا رنج اٹھاتے رہے۔ فوجی آمر نے ‘حمزہ شہباز کے لئے مشکلات پیدا کرنا شروع کیں تو چودھری برادران نے ہر مشکل کودور کرنے میں‘ جہاں تک ممکن ہوا‘ اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔
ماضی میں حکمران خاندانوں کے مابین جو رنجشیں‘ تلخیاں اور نفرتیں پیدا ہوئیں‘ حیلے بہانے سے اس کا تذکرہ بھی کرتا رہا‘ جو کبھی سابق وزیراعظم کو اچھا نہ لگا۔ خاندانی بادشاہتوں میں جہاں تخت و تاج کا سوال پیدا ہوا‘ ایک تاریخی المیہ‘ عشق و محبت کا شاہکار‘ یعنی تاج محل بھی رونما ہوا۔ وہی بادشاہ جس نے اپنی محبت کی عظیم الشان یادگار‘ تاج محل کی صورت میں تعمیر کروائی۔ اسی کو زندہ درگور بھی ہونا پڑا۔ بیٹے نے یہ کہہ کر اپنے باپ کو زندہ درگور کر دیا کہ ''والد محترم کے مزاج سے شاہی تمکنت اور تکبر نہیں جائے گا۔اس لئے ابا حضورکو مزاج شاہی کے اظہار کے لئے‘ کچھ اور کرنے کو دیا جائے‘ جیسے شاہی تمکنت اورشاہانہ مزاج کی تسکین کے اسباب مہیا کر دئیے جائیں‘‘۔ وہ اسباب یہ تھے کہ زیر تعمیر تاج محل کے ایک کمرے میں انہیں بچوں کو پڑھانے پر مامور کر دیا جائے۔ شہزادے نے اپنی طرف سے والد محترم کو مزاج شاہی کی تسکین فراہم کی اور طالب علم اپنے استاد کی بقیہ زندگی میں عزت و احترام کا وسیلہ بن گئے۔ جب شاہی خاندانوں میں انتقال اقتدار کا مرحلہ آتا ہے تو پھر باپ کی گردن کاٹنے سے لے کر‘ بچے پڑھاتے ہوئے ان میں علم کی روشنی منتقل کرنے تک‘ سبھی کچھ شامل ہوتا ہے۔
شاہی محلات کے آراستہ کمروں اور تاریک قبروں کی کہانیاں‘ ہر ملک کی تاریخ میں جابجا نظر آتی ہیں۔ لیکن جو کہانی مجھے دیکھنے کو ملی‘ وہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔جب سے '' ابا حضور‘‘ نے بقول شہباز شریف ''لوہا کوٹ کر ‘‘ شاہی خاندان کی بنیاد رکھی۔اس خاندان میں انتقال اقتدار کا جو مرحلہ شروع ہوا‘و ہ ابھی برقرار ہے۔ تخت و تاج کے ورثا‘ جس طرح اقتدار کی تقسیم در تقسیم کرتے ہیں‘وہ آنے والی نسلوں میں خون در خون منتقل ہوتا ہے۔ بادشاہتیں چلی گئیں تو تخت وتاج کی کہانیاں نسل درنسل منتقل ہوں گی۔ میں تو اپنی زندگی گزار چکا۔ میرے ورثے میں نہ کوئی تخت ہے نہ تاج لیکن آج کے دور میں تخت و تاج کون چھوڑتا ہے؟چند قبریں!چند کہانیاں!مٹی کی جھولی میں مٹی! ہڈیوں سے ہڈیوں کا ٹکرائو! پرانی قبروں میں نئی کہانیاں! (جاری ہے)