تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     19-10-2017

صدر ٹرمپ اور ایران ایٹمی معاہدہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار سنبھالے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا‘ لیکن اپنے پیشرو بارک حسین اوباما کے آٹھ سالہ دورِ صدارت میں سخت محنت اور کوشش سے کئے گئے اہم اقدامات کو انہوں نے یکے بعد دیگرے منسوخ کرنے میں جس عجلت کا مظاہرہ کیا‘ اس پر اپنے بیگانے سب حیران ہیں۔ ٹرمپ نے سب سے پہلے ایشیا بحرالکاہل کے ممالک کے ساتھ تجارتی اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے کئے گئے معاہدے میں امریکہ کی رکنیت ختم کی۔ اس کے بعد انہوں نے صحتِ عامہ کے بارے میں صدر اوباما کی سکیم ''اوباما کیئر‘‘ پر کلہاڑا چلایا۔ اگلا اقدام پیرس میں ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کے معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی تھی۔ اس کے بعد تارکینِ وطن کو امریکہ آنے اور کام کرنے کی جو اجازت صدر اوباما کے دور میں دی گئی تھی‘ وہ ٹرمپ نے ختم کر دی۔ صدر اوباما کے دور کے دو اہم فیصلوں کو پوری دنیا کے ساتھ ساتھ امریکہ میں بھی امن پسند حلقوں نے تاریخی قرار دیا تھا۔ ایک‘ کیوبا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بحال کرنا اور دوسرا‘ ایران کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے مسئلے پر معاہدہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے کیوبا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے عمل کو معرضِ التوا میں ڈالنے کا اعلان جون میں کیا تھا۔ ان کی یلغار کا تازہ ترین شکار 2015ء میں طے پانے والا ایران کے جوہری ہتھیاروں کے بارے میں معاہدہ ہے۔ 
صدر ٹرمپ شروع سے ہی اس معاہدے کے مخالف تھے۔ صدارتی مہم کے دوران میں بھی وہ اسے منسوخ کرنے کا ارادہ ظاہر کرتے رہے‘ لیکن اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں انہیں جس تاخیر کا سامنا کرنا پڑا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس معاہدے پر ایران کے ساتھ صرف امریکہ نے ہی دستخط نہیں کر رکھے بلکہ روس‘ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی اور یورپی یونین بھی اس معاہدے میں شریک ہیں۔ اسی بنا پر یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے چیف فیڈریکا موگرینی نے کہا ہے کہ امریکہ یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو ختم نہیں کر سکتا‘ تاہم صدر ٹرمپ نے امریکی کانگریس کی ایک قرارداد کا سہارا لے کر اس معاہدے کو بے اثر بنانے اور ایران کے خلاف نئی امریکی اقتصادی پابندیوں کے لئے راہ ہموار کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ امریکی کانگرس کی اس قرارداد کے تحت‘ صدر ہر تین ماہ بعد کانگرس میں اس نوع کا سرٹیفکیٹ پیش کرنے کا پابند ہے‘ جس میں تصدیق کی گئی ہو کہ ایران کی طرف سے معاہدے کی تمام شرائط کی پابندی کی جا رہی ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کے قابل افزودہ یورینیم کی پیداوار پر پابندی قبول کر لی تھی۔ اس کے بدلے میں امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے ایران کے خلاف عائد شدہ پابندیوں کے بتدریج خاتمے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا تھا۔ پوری دنیا میں اس معاہدے کا خیرمقدم کیا گیا تھا‘ کیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ میں ایک اور بڑی اور خوفناک جنگ کا خطرہ ٹل گیا تھا۔ لیکن کچھ ممالک اس معاہدے پر خوش نہیں تھے۔ امریکی کانگرس میں اسرائیل نواز لابی نے اس معاہدے کو روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زرو لگایا‘ لیکن برطانیہ‘ فرانس اور یورپی یونین کے دوسرے ممالک اس معاہدے کے حامی تھے۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے سرٹیفکیٹ جاری نہ ہونے سے معاہدہ ختم نہیں ہوا‘ لیکن معاہدے کی شرائط کے تحت امریکہ نے ایران کے خلاف عائد شدہ پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے جو عمل شروع کر رکھا تھا‘ وہ رک جائے گا‘ بلکہ مزید پابندیاں عائد کرنے کے لئے امریکی صدر نے یہ مسئلہ کانگرس کے حوالے کر دیا ہے تاکہ اس معاہدے کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ 
دل چسپ بات یہ ہے کہ 20 جنوری کو حلف اٹھانے کے بعد امریکی صدر ٹرمپ ایران کی طرف سے معاہدے پر کاربند رہنے کے حق میں دو دفعہ سرٹیفکیٹ جاری کر چکے ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ کا متعلقہ ادارہ ''انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی‘‘ بھی ایران کے اقدامات سے مطمئن ہے۔ امریکہ کے علاوہ جن ممالک نے اس معاہدے پر دستخط کئے‘ وہ بھی ایران کے رویے سے پوری طرح مطمئن ہیں۔ پھر آخر صدر ٹرمپ اس معاہدے کے کیوں درپے ہیں؟ اور امریکی صدر کے اس یک طرفہ اقدام کے نہ صرف مشرق وسطیٰ‘ بلکہ بین الاقوامی سیاست پر بھی کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ 2015ء کے معاہدے کو سبوتاژ کرنے کی طرف ٹرمپ کا دو وجوہات کی بنا پر دھیان گیا۔ ایک‘ ایران کی طرف سے بیلسٹک میزائل کے لگاتار تجربات‘ اور دوسرے‘ روس کی مدد سے شام میں امریکہ کی حمایت یافتہ فوجوں کے خلاف صدر بشارالاسد کی کامیابی اور عراق میں ایران کی معاونت سے سرکاری فوجوں کے ہاتھوں داعش کی پے در پے شکست۔ صدر ٹرمپ کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میں روس ایک دفعہ پھر اپنے پائوں جمانے کی کوشش کر رہا ہے اور ایران کے آگے بند باندھنے کے باوجود اس کا جزیرہ نما عرب میں اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ امریکی کانگرس میں انتہا پسند حلقے پہلے ہی موقعہ کی تلاش میں تھے، اس لئے صدر ٹرمپ‘ جو روزِ اول سے اس معاہدے کے مخالف تھے‘ نے اسے نشانہ بنانے کے لئے بہترین موقعہ سمجھا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے ابھی تک اس معاہدے پر عمل درآمد کے لئے صرف لازمی سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے انکار کیا ہے۔ باقی کئی امور صدر ٹرمپ نے کانگرس پر چھوڑ دئیے ہیں۔ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق اس معاہدے کی تنسیخ کے امکانات کم ہیں‘ کیونکہ اس کے لئے کانگرس میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ اس وقت صدر ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے ایوانِ نمائندگان میں 435 میں سے 240 ارکان ہیں۔ سینیٹ میں اگرچہ ان کی پارٹی کو اکثریت حاصل ہے‘ لیکن یہ صرف 4 ووٹوں تک محدود ہے۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کی اپنی پارٹی میں سے بعض ارکان اس معاہدے کو منسوخ کرنے کے حق میں نہیں‘ بلکہ ان کی کابینہ کے ارکان ‘ جن میں سیکرٹری آف ڈیفنس‘ جم میٹس بھی شامل ہیں‘ اس معاہدے سے امریکی علیحدگی کے حق میں نہیں۔ چند روز پیشتر سینیٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اس معاہدے میں موجودگی امریکہ کے قومی مفاد میں ہے۔ سیکرٹری آف سٹیٹ ریکس ٹلرسن بھی اسی موقف کے حامی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس معاہدے میں شامل یورپی ممالک ‘ جو امریکہ کے اتحادی ہیں‘ نے صدر ٹرمپ کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اس معاہدے کے تحت ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اگر امریکہ اس معاہدے کو منسوخ کرتا ہے ‘ یا اس پر عمل درآمد سے انکار کرتا ہے تو اس سے نہ صرف امریکہ کی ساکھ متاثر ہو گی بلکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں بھی رخنہ پڑے گا۔
صدر ٹرمپ کے فیصلے کے بعد امریکی کانگرس کے پاس اس معاہدے کا صدر کے اعلان کی روشنی میں جائزہ لینے کے لئے 60 دن ہیں۔ اس عرصے میں کانگرس اس معاہدے کی بعض شقوں میں تبدیلی لانے یا نئی شقوں کے اضافے کا مطالبہ کر سکتی ہے‘ یا ایران کے خلاف امریکہ کی طرف سے نئی اقتصادی پابندیوں کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ لیکن دونوں صورتوں میں ایران اور امریکہ کے درمیان ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو جائے گی‘ اور مشرق وسطیٰ کے خطے میں‘ جہاں حالات پہلے ہی مخدوش ہیں‘ مزید عدم استحکام پیدا ہو جائے گا‘ کیونکہ صدر ٹرمپ کے اعلان کے جواب میں ایران نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ اس معاہدے کا از سر نو جائزہ لینے کے لئے امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل نہیں ہو گا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ چونکہ ٹرمپ اس معاہدے کو سرے سے ختم کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ یا ایسا کرنے سے ان کو ڈر ہے کہ اندرونی اور بیرونی طور پر سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا‘ اس لئے وہ چاہیں گے کہ کانگرس کے ذریعے ایران پر اتنا دبائو ڈالا جائے کہ وہ خود اس معاہدے سے الگ ہو جائے یا اقتصادی پابندیوں کے ذریعے ایران کی معیشت کو نقصان پہنچایا جائے‘ لیکن صدر ٹرمپ کی ان کوششوں کی کامیابی کا امکان کم ہے‘ کیونکہ ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ ٹرمپ کے اس فیصلے کے باوجود اس معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھے گا۔ چونکہ یورپی یونین نے ایران کے ساتھ تعاون جاری رکھے کا اعلان کیا ہے‘ اس لئے امریکی اقدام سے ایران کی معیشت کو نقصان کی تلافی بھی ہو سکتی ہے‘ تاہم ٹرمپ کے اس اعلان سے خلیج فارس اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اور عدم استحکام میں مزید اضافہ ہو گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved