دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں، جنہیں کامیاب یا غیر معمولی کہا جا سکتا ہے۔ اس کامیابی کی نوعیت مختلف ہو سکتی ہے۔ یہ بڑے کاروباری اداروں کی تشکیل سے لے کر کسی بہت بڑے علمی کام تک، کسی بھی صورت میں ہو سکتی ہے۔ صحیح معنوں میں کامیاب لوگ تو حضرت داتا گنج بخشؒ اور شیخ عبد القادر جیلانیؒ جیسے صاحبانِ علم و فضل تھے۔ انہوں نے زندگی کی اصل غرض و غایت کو صرف خود ہی نہیں سمجھا اور اس پر عمل کیا بلکہ کروڑوں لوگوں کی اس ضمن میں رہنمائی بھی کی۔ شیخ ِ ہجویر علی بن عثمان ہجویری ؒ نے کامیابی کے بارے میں ایسا قول ارشاد فرمایا کہ جسے لکھ کر ہر شخص کو اپنے کمرے میں لٹکا لینا چاہیے۔ فرمایا: ہر علم میں سے اتنا حاصل کرو، جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے۔ اگر انسان واقعی ہر علم کی ابجد سے واقف ہو جائے، اگر وہ اپنے تعصبات سے رہائی پا سکے تو لازماً کائنات کی سب سے بڑی سچائی تک رسائی پا لے گا۔ یہ کوئی ایک دن کا سفر نہیں بلکہ یہ تو پوری زندگی جاری رہتا ہے۔ انسان ہر روز کوئی نئی بات سیکھتا رہتا ہے۔ جب خدا کو وہ پہچان لے گا اور اپنے نفس کو‘ تو اس کے بعد بڑے سے بڑے بحران میں سے بھی وہ بے نیازی کے ساتھ سلامت گزر جائے گا۔ اس کے برعکس ایک عام شخص ہمیشہ ماضی کے دکھوں میں غم زدہ اور مستقبل کے اندیشوں میں خوف زدہ رہتا ہے۔ اپنی ذات میں موجود خامیوں کی بنا پر وہ مختلف قسم کے احساسِ کمتری پال لیتا ہے۔ بعض اوقات پوری زندگی وہ اسی احساسِ کمتری کے تحت گزار دیتا ہے۔ ساری زندگی وہ اپنے رنگ اور اپنے وزن کی بنا پر کڑھتا رہتا ہے اور اسے یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ خامیاں تو حجاب ہیں۔
جب مسلسل غور و فکر کے ذریعے، عقل کا ہاتھ تھام کر انسان جبلتوں کو سدھار لیتا ہے تو پھر اسے اپنی زندگی میں پیش آنے والے حادثات متاثر نہیں کرتے۔ یہ ایک انتہائی خوفناک جنگ ہوتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی شخص، آپ کے والدین ، آپ کے بیوی‘ بچے، اس عمل میں آپ کی کوئی بھی مدد نہیں کرسکتے بلکہ یہ جنگ آپ کو خود ہی لڑنا ہوتی ہے۔ نفع و نقصان ، کامیابی اور ناکامی، خوشی اور غمی ، سبھی ایسے شخص کے لیے معمول کی باتیں بن جاتی ہیں۔ قرآن کے الفاظ میں، وہ غم اور خوف سے آزاد کر دیئے جاتے ہیں۔ جسے اپنے جذبات، اپنی Feelings پر کنٹرول ہو۔ جو اپنے سے زیادہ نعمتوں والے کے سامنے کمتری کا شکار نہ ہو، نہ ہی وہ اپنے سے کمتروں کے سامنے غرور و تکبر کا شکار ہو۔ جو خدا کے سب سے بڑے دشمن یعنی اپنے نفس کو پہچان لے۔ اس کے رجحانات سے واقف ہو اور ان پر قابو پانا سیکھ لے۔ جو اپنی غلطیوں سے مسلسل سیکھتا رہے۔ صحیح معنوں میں زندگی تو ایسے ہی لوگ گزارتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ دوسرے اربوں انسان اس سطح (Level) تک نہیں پہنچ پاتے۔ ہم اس وقت علم و عقل کے ان ستاروں کی بات نہیں کرتے بلکہ صرف دنیاوی کامیابی پہ تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔
انسان جب دنیا میں آتا ہے، سب سے پہلے اسے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ واسطہ ساری زندگی جاری رہتا ہے۔ پھر وہ باہر نکلتا ہے۔ سکول، کالج میں اسے دوستوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس کے بعد جب گھر سے وہ کمانے کے لیے نکلتا ہے، چاہے نوکری کی صورت میں ہو یا کاروبار کی شکل میں، تب پھر اسے دوسروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ کے بہن بھائیوں، والدین، بیوی‘ بچوں کا مزاج بھی آپ کے مزاج سے ہم آہنگ ہو۔ ہر شخص کی اپنی ایک افتادِ طبع ہوتی ہے۔ اسے ہم بنیادی رجحانات یا Tendency کہہ سکتے ہیں۔ میرے والد اکثر یہ جملہ لکھا کرتے: انسان اپنے تجزیے پر نہیں بلکہ اپنی افتادِ طبع پر زندگی گزارتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علمی سطح پر آپ جانتے ہیں کہ کسی بات پر بحث کا فائدہ نہیں لیکن آپ کا مزاج آپ کو بحث پر اکساتا ہے۔ جب سامنے موجود شخص کی کسی بات پر ہمیں غصہ آتا ہے تو دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اوّل یہ کہ آپ کا موقف درست ہے یا یہ کہ آپ کا موقف غلط ہے۔ اگر آپ کا موقف درست ہے لیکن سامنے موجود شخص اسے غلط کہہ رہا ہے تو 90سے 95فیصد صورتوں (situations) میں‘ آپ کو اپنے صحیح ہونے پر اصرار سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ نہ ہی دوسرے شخص کے آپ کو غلط کہنے سے آپ کو کوئی نقصان پہنچتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تو آپ صحیح کر رہے ہیں تو وقت گزرنے کے ساتھ حالات اس بات کی گواہی دیں گے اور زیادہ تر لوگ اس بات کو تسلیم کر لیں گے کہ آپ کا موقف درست تھا۔
90 سے 95 فیصد صورتوں میں اپنی بات پر اصرار اور بحث سے انسان کو کوئی بھی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اگر آپ خاموشی اختیار کر لیں، اپنے موقف پر غور کریں، اگر وہ درست ہے تو اس پر قائم رہیں اور اگر وہ غلط ہے تو اس کی تصحیح کر لیں تو اس سے انسان کو بے پناہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلا اور بنیادی فائدہ یہ ہے کہ آپ اپنی توانائی فضول بحث و مباحثے میں ضائع کرنے کی بجائے اسے فائدہ مند کاموں کے لیے بچا لیتے ہیں۔ انسان میں ایک محدود مقدار میں توانائی (energy) رکھی گئی ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ دوسرے کی غلط بات پر فوراً جارحانہ ردّ عمل دینے کی بجائے جب آپ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں تو اس سے دلوں میں رنجشیں پیدا نہیں ہوتیں۔ آپ کی اور آپ کے رشتے داروں، دوستوں اور ساتھ کام کرنے والوں کے درمیان اَنا کا تصادم شروع نہیں ہوتا۔ ایسے تصادم بعض اوقات معمولی بات پر شروع ہوتے ہیں لیکن پھر یہ ساری عمر جاری رہ سکتے ہیں۔ جب آپ ایسی صورتِ حال میں خاموشی اختیار کرتے ہیں تو کئی صورتوں میں دوسرے شخص کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اس کی تلافی کی کوشش کرتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ خود ہی غلط ہوتے ہیں لیکن وقتی طور پر اپنے آ پ کو درست سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اگر آپ خاموشی اختیار کریں، غور کریں تو آپ اپنی غلطی کو سمجھتے ہوئے‘ اپنی اصلاح کر سکتے ہیں۔ اپنی ذات کو ایسا بنانے کی کوشش کریں کہ لوگ آپ کو آپ کی خامی سے آگاہ کر تے ہوئے خوفزدہ نہ ہوں۔ آپ انہیں زبردستی اپنے احترام پر مجبور نہ کریں۔
دنیا کے 95 فیصد لوگ ویسا ہی کرتے ہیں، جیسا کہ ان کا مزاج ہوتا ہے۔ پوری زندگی وہ اسی طرح گزارتے ہیں۔ 5 فیصد سے بھی کم لوگ ہوں گے‘ جنہیں یہ جاننے میں دلچسپی ہوتی ہے کہ ان کی ذات میں کیا خرابیاں موجود ہیں۔ ان میں سے بھی بہت کم اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر شخص اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارنے کے لیے آزاد ہے۔ آپ زندگی میں جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہیں، وہ کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے دوسروں پر یہ ثابت کرنا بالکل بھی ضروری نہیں ہے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں، وہ درست ہے۔ اس کے لیے دوسروں کو غلط ثابت کرنا بھی بالکل ضروری نہیں ہے۔ خاموشی اختیار کر کے دیکھیں ، آپ کی زندگی بدل کے رہ جائے گی۔