یہ بھی عجب قسم کی الجھن ہے کہ کیجیے کچھ اور ہوتا ہے کچھ۔ لوگ گھر سے نکلتے ہیں حلوہ خریدنے اور لے آتے ہیں دہی بڑے ... اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر وہ اِن دہی بڑوں میں حلوے کا جلوہ اور مزا ڈھونڈتے ہیں! کسی نہ کسی طور اینٹ پر اینٹ رکھ دینے کو دیوار نہیں کہا جا سکتا۔ معاشرے کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ محض بھاگ دوڑ کرنے کو محنت اور مشقّت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ لوگ بلا جواز دوڑ دھوپ میں مشغول رہتے ہیں اور پھر اُس کا معاوضہ چاہتے ہیں۔ یارانِ وطن کا حال یہ ہے کہ ہر معاملے میں کسی اور معاملے کا جلوہ اور لطف ڈھونڈتے ہیں اور اِس بے ڈھنگی تلاش کے جو بھونڈے نتائج برآمد ہوتے ہیں اُنہیں کامیابی قرار دے کر ''کریڈٹ‘‘ لینے پر بھی بضد رہتے ہیں۔
مرزا تنقید بیگ بھی خوب ہی مزاج رکھتے ہیں۔ معاملہ خواہ کچھ ہو، اُسے اپنی منطق کے مطابق کچھ کا کچھ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اُن کے خیال میں اگر کسی دھرنے کے نتیجے میں مطالبات تسلیم نہ بھی کیے جائیں تو یہ کیا کم ہے کہ لوگ خوش ہو لیتے ہیں، کچھ دیر کے لیے سارے غم بھول جاتے ہیں۔
عمران خان کا دھرنا تو آپ کو یاد ہی ہوگا۔ اُس دھرنے سے حکومت کا دھڑن تختہ تو خیر کیا ہونا تھا، وفاقی دارالحکومت کے ریڈ زون کا تیا پانچا ضرور ہوگیا۔ چار ماہ سے زائد مدت تک یہ دھرنا بے پیندے کے لوٹے کی طرح لڑھکتا رہا، عجیب دھما چوکڑی مچی رہی۔ احتجاج کے نام پر جو ڈراما کھیلا گیا اُس کا پردہ بالآخر فُل ٹائم انٹرٹینمنٹ پر گرا! جب تک دھرنا رہا، لوگ انجوائے کرتے رہے۔
مرزا نے حیدر آباد سے آنے والی ایک خبر پڑھی تو ہمیں بلوایا۔ مرزا بلائیں اور ہم نہ جائیں، ایسے تو حالات نہیں! ہم مرزا کے گھر پہنچے تو وہ خبر پڑھ کر ہماری خبر لینے کے لیے بھرے بیٹھے تھے۔ سلام دعا ہوتے ہی کہا ''یہ دیکھو، احتجاجی مظاہرے میں بھی زندگی سنوارنے کا پہلو نکل آیا۔ حیدر آباد میں معذور افراد سرکاری نوکریوں میں کوٹہ دیئے جانے کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔ ایک راجپوت گبھرو بھی احتجاج کرنے والوں میں شامل تھا۔ اُسی کیمپ میں ایک لڑکی سے اس کی علیک سلیک ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے تعارف بہت پیچھے رہ گیا اور معاملات رفتہ رفتہ اِتنے آگے بڑھے کہ دونوں نے احتجاجی ماحول کو دوام بخشنے یعنی مرتے دم تک ساتھ نبھانے کا فیصلہ کرلیا اور پھر اِس فیصلے پر عمل بھی کر بیٹھے! تم بھی کچھ سیکھو۔‘‘
ہم نے دست برستہ عرض کیا کہ اِس کہانی میں ہمارے لیے پریشانی یا حسد میں مبتلا کرنے والی بات کون سی ہے؟ اگر ان دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کیا اور ایک دوسرے کے ہوگئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے مگر ہم کیا سیکھیں؟ کیا ہم بھی کہیں احتجاج کے لیے جائیں اور بسے بسائے گھر کو دوبارہ بسا لیں؟
یہ سن کر مرزا نے ہم پر لاحول پڑھتے ہوئے کہا ''گھوم پھر کر اپنے مفاد پر آجاتے ہو۔ ارے بھائی، ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا کام کرو جس کا نتیجہ اچھا برآمد ہو۔ اب یہی دیکھو کہ احتجاجی کیمپ نے اُس جوان نے لڑکی کا گھر بسا دیا۔ ایک تمہاری کالم نگاری ہے کہ اب تک اُس کے بطن سے کام کی چیز برآمد نہیں ہوئی۔ لوگ تمہارا لکھا پڑھتے ہیں اور (اپنے) سَر پیٹتے رہ جاتے ہیں! ایک طرف تمہارے کالم ہیں کہ
لوگ پڑھتے ہیں تو سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ تم قریب ہوتے تو تمہیں کھل کر 'داد‘ دیتے اور دوسری طرف احتجاجی کیمپ پر غور کرو کہ لڑکے اور لڑکی نے اس میں اس لیے شرکت کی تھی کہ سرکاری نوکری کی راہ ہموار ہو۔ سرکاری نوکری مل بھی جائے تو ایک دن ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں تو زندگی بھر کی نوکری کا اہتمام ہوگیا!‘‘۔
ہم نے ایک بار پھر دست بستہ عرض کیا کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمیں کیا لکھنا چاہیے اور کیا نہیں لکھنا چاہیے۔ جو کچھ ہمیں لکھنا ہے ہم وہی لکھتے رہیں گے۔ لوگوں کو اِس میں سے جو کچھ اخذ کرنا ہے، کرتے رہیں۔ ہم فرمائشی دھرنوں کی طرح فرمائشی کالم نہیں لکھتے۔ عرفان اور بینش نے احتجاجی کیمپ سے ازدواجی زندگی شروع کی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ ان کی گھریلو زندگی پی ٹی آئی کے ریڈ زون والے دھرنے کا منظر پیش کرتی رہے یعنی انبساط کی کیفیت برقرار رہے، فضا رنگ و آہنگ سے معمور رہے، رونق میلہ چلتا رہے! ہو سکتا ہے کہ فی الحال سرکاری نوکری کا خیال اس جوڑے کے ذہنوں سے نکل گیا ہو اور وہ ؎
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اُٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مِرے اِس دعا کے بعد
کی منزل تک پہنچ گئے ہوں! خیر، سرکاری نوکری بھی کبھی نہ کبھی مل ہی جائے گی، فی الحال وہ ایک دوسرے کی نوکری سے حِظ اٹھائیں!
مرزا پہلے کب ہماری کسی بات سے متفق ہوئے ہیں جو اب ہوتے؟ مرغی کی ایک ٹانگ کے مصداق وہ اپنے اِس نکتے پر اڑے رہے کہ ہماری کالم نگاری سے مطلوبہ یا ڈھنگ کے نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ ساتھ ہی ساتھ اُن کی فرمائش تھی کہ عوام کی مرضی کے مطابق لکھا جائے تاکہ اُنہیں پڑھنے میں لطف محسوس ہو۔ ہم نے وضاحت کی مد میں عرض کیا کہ ہمارا کالم کسی ایسے احتجاجی کیمپ کا منظر پیش نہیں کرسکتا جس میں لوگ مطالبات منوانے کے لیے شریک ہوں اور گھر بساکر بیٹھ جائیں! یعنی کہ ماروں گھٹنا، پھوٹے آنکھ والی کیفیت ہم اپنے کالموں میں پیدا نہیں کرسکتے!
یہ وضاحت سن کر مرزا نے زیرِ لب چند ایسے الفاظ ادا کیے جن کا اِس کالم میں تذکرہ ہمارے قارئین کی طبعِ نازک پر انتہائی گراں گزر سکتا ہے! چاہتے تو ہم بھی یہی ہیں کہ اِس ملک کے مسائل حل ہوں مگر قدم قدم پر طرفہ تماشے جیسی کیفیت ہمیں پسند نہیں۔ لوگ کرنا چاہتے ہیں کچھ اور کر بیٹھتے ہیں کچھ۔ اب یہی دیکھیے کہ یاروں نے دھرنے کو فل ٹائم انٹرٹینمنٹ اور احتجاج کو گھر بسانے کے سنہرے موقع میں تبدیل کر لیا ہے! کرنے کے کام پیچھے رہ جاتے ہیں اور باقی سارے کام ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مرزا کو یہ سب کچھ پسند ہو تو ہو، ہم تو یہی کہیں گے کہ
All's well that ends well!
والی بات ہر معاملے میں درست نہیں۔ ہر سرگرمی یا تحرک کو مطلوبہ نتائج پیدا کرنے چاہئیں۔ حیدر آباد کے احتجاجی کیمپ میں جو کچھ ہوا وہ تو random کا اصول ہے اور یہ اصول پوری زندگی پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ مرزا کی طرح ہم بھی حیدر آباد کے جوڑے کو دعا ہی دیں گے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ دعا بھی کریں گے ہر احتجاج اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو، محض شادی خانہ آبادی پر منتج نہ ہو!
کسی نہ کسی طور اینٹ پر اینٹ رکھ دینے کو دیوار نہیں کہا جا سکتا۔ معاشرے کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ محض بھاگ دوڑ کرنے کو محنت اور مشقّت سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ لوگ بلا جواز دوڑ دھوپ میں مشغول رہتے ہیں اور پھر اُس کا معاوضہ چاہتے ہیں۔