تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     20-10-2017

انصاف‘ فطری رفتار کے ساتھ…

یہ محض کسی ایک کا معاملہ نہیں‘ بڑے بڑے زمینداروں‘ جاگیرداروں اور وڈیروں کا یہ پرانا حربہ رہا ہے (جدی پشتی عزت مآب طبقات کا احترام مقصود ہے کہ ہم نے ''حربہ‘‘ کی جگہ ''طریق واردات‘‘ کے الفاظ استعمال نہیں کئے) 1959ء میں ایوب خاں کی زرعی اصلاحات آئیں۔ 1972ء میں بھٹو نے یہ سلسلہ آگے بڑھایا‘ جس کی رو سے زمین کی حدِ ملکیت پانچ سو ایکڑ سے بھی کم کر کے ڈیڑھ سو ایکڑ کر دی گئی۔ ان اصلاحات کی زد میں آنے والے بڑے بڑے زمینداروں نے حد ملکیت سے زائد زمینیں اپنے ہاریوں اور دیگر ملازمین کے نام کر دیں (ظاہر ہے‘ قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے‘ یہ سارا اہتمام کاغذوں کی حد تک تھا) بعض نے تو یہ ملکیت ان بچوں کے نام بھی کر دی‘ جن کی اس جہان فانی میں ابھی آمد بھی نہیں ہوئی تھی۔
یاد آیا‘ قیام پاکستان کے بعد پنجاب کے دوسرے وزیر اعلیٰ میاں ممتاز دولتانہ نے 1951ء میں صوبے میں زرعی اصلاحات نافذ کیں تو وڈیروں نے ''انجمن تحفظ حقوق زمینداران تحت الشریعہ‘‘ قائم کر لی۔ سول اور فوجی آمریتوں کے خلاف جدوجہد کے باعث ''بابائے جمہوریت‘‘ کا خطاب پانے والے نوابزادہ نصراللہ خاں علاقے کے دیگر جاگیرداروں اور سرداروں کے مقابلے میں ایک ''چھوٹے زمیندار‘‘ تھے لیکن دلچسپ بات یہ کہ وہ بھی اس انجمن کے بنیادی ارکان میں شامل تھے۔ اکثر و بیشتر یہ جاگیریں‘ سرداریاں اور نوابیاں 1857ء میں آزادی کی جنگ لڑنے والے سرفروشوں کے خلاف سات سمندر پار سے آئے ہوئے گورے آقائوں کی خدمت کے عوض عطیہ ہوئی تھیں۔ 1951ء کی زرعی اصلاحات کے دنوں میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ''مسئلہ ملکیت زمین‘‘ کے نام سے کتاب لکھی‘ جس کے مطابق جائز ذرائع سے حاصل کردہ زمین کی کوئی حد ملکیت شرعاً مقرر نہیں کی جا سکتی (اور دلچسپ بات یہ کہ خود جماعت اسلامی نے 1970ء کے انتخابی منشور میں مولانا کی اس رائے سے رجوع کرتے ہوئے حد ملکیت دو سو (200) ایکڑ مقرر کر دی) سابق صدر سردار فاروق لغاری نے ضیاء الحق دور میں قائم ہونے والی وفاقی شرعی عدالت سے‘ اصلاحات کی زد میں آنے والی اپنی زمینوں کی بازیابی کا شرعی فیصلہ حاصل کر لیا تھا۔
اگر جناب جہانگیر ترین کی بات کی جائے تو وہ کوئی جدی پشتی بڑے وڈیرے اور جاگیردار نہیں۔ ایک ریٹائرڈ پولیس افسر کا صاحبزادہ آج ملک کا ''شوگر کِنگ‘‘ ہے۔ ہزاروں ایکڑ زمین کا مالک ہے‘ اپنے ہیلی کاپٹر اور جہاز رکھتا ہے‘ تو یہ سب کچھ اسے وراثت میں نہیں ملا‘ بلکہ اس کے اپنے دستِ ہُنر کا شاہکار ہے۔ ان دنوں سپریم کورٹ میں‘ اپنے لیڈر عمران خان کے ساتھ اسے بھی ڈس کوالیفکیشن کیس کا سامنا ہے۔ چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے‘ جو اس سہ رکنی بنچ کی صدارت کر رہے ہیں‘ گزشتہ دنوں فرمایا تھا کہ یہ کیس بھی ''پاناما‘‘ کے ساتھ سننا چاہیے تھا کیونکہ ان میں کئی چیزیں مشترک ہیں۔ اب انہوں نے عمران خان اور ترین صاحب کے کیسوں کا فیصلہ ایک ساتھ سنانے کا اعلان کیا ہے۔ جہانگیر ترین کو لیز پر حاصل کردہ ہزاروں ایکڑ اراضی اور سٹاک ایکس چینج میں ''ان سائڈر ٹریڈنگ‘‘ کے حوالے سے جواب دہی کرنا ہے۔ الزام ہے کہ انہوں نے اس غیر قانونی ٹریڈنگ کے لیے اپنے ملازموں کا نام استعمال کیا۔ ان میں ایک‘ اللہ یار ہے جو 1975ء سے ترین صاحب کے ''لودھراں فارمز‘‘ کے کیئر ٹیکر کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہے۔ دوسرا حاجی خان ہے جو 1980ء سے اپنے صاحب کے لاہور اور اسلام آباد کے بنگلوں کا انچارج ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں نے ترین صاحب کی رقم سے 4 کروڑ 19 لاکھ کے شیئر خریدے جو 11 کروڑ 27 لاکھ میں فروخت ہوئے‘ یوں اس ایک سودے میں 7 کروڑ 8 لاکھ کا نیٹ پرافٹ ہوا۔ 
اِدھر اپنے خان صاحب کا کیس بھی دلچسپ ہو گیا ہے۔ حنیف عباسی کی پٹیشن پر فریقین کے دلائل کافی دن ہوئے مکمل ہو گئے تھے۔ خیال تھا‘ فاضل عدالت مختصر فیصلہ سنا دے گی یا فیصلہ محفوظ رکھنے کا اعلان کرے گی۔ جناب چیف جسٹس نے گزشتہ دنوں لاہور میں خواتین ججوں کی کانفرنس سے خطاب میں ''فیصلے میں جلد بازی کو انصاف کی تدفین‘‘ قرار دیا تھا۔ 
Justice hurried, justice burried
اِسے یوں بھی کہا جاتا ہے‘
Justice rush, Justice Crush
ان کیسوں کی تکمیل کے لیے کسی مدت کی پابندی بھی نہیں‘ چنانچہ خود چیف صاحب کے بقول وہ ان کیسوں کو گہرائی سے دیکھ رہے ہیں۔ جہانگیر ترین والے کیس کے حوالے سے ان کے ریمارکس تھے کہ ''پاناما‘‘ کی طرح کیوں نہ اس کی تفتیش و تحقیق کے لیے بھی ایک کمشن بنا دیا جائے۔
عمران خان کے کیس کا معاملہ یہ ہے کہ دلائل مکمل ہونے کے بعد بھی دستاویزات پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ بنی گالہ میں زمین کی خریداری اور اس پر عظیم الشان اور وسیع و عریض فارم ہائوس کی تعمیر کے لیے منی ٹریل کا معاملہ ہے۔ (خان کے ایک ہمدمِ دیرینہ نے ایک بار بڑی دلچسپ بات لکھی تھی۔ شاہانہ شان و شوکت کے حامل فارم ہائوس میں‘ ایک شام خان نے کہا‘ یہ تو ایک وزیر اعظم کے شایان شان ہے‘ جس پر انہوں نے ہنستے ہوئے کہا‘ تو اب جناب کو وزیر اعظم بھی بنانا پڑے گا؟) گزشتہ سال اپریل کی چار تاریخ کو پاناما کا دھماکہ ہوا تو خان نے آف شور کمپنیوں کو حرام کی کمائی چھپانے کا ذریعہ قرار دے دیا‘ کچھ روز بعد اس کی اپنی ''نیازی سروسز لمیٹڈ‘‘ کا انکشاف ہوا تو فرمایا‘ ''لیکن یہ تو میں نے حق حلال کی کمائی سے بنائی تھی‘‘ یہی موقف ترین صاحب کا اپنی آف شور کمپنی کے حوالے سے تھا۔
گزشتہ روز کورٹ روم نمبر ایک میں اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب خان کے وکیل نعیم بخاری نے‘ اس کیس میں خان کے گزشتہ موقف اور پچھلی دستاویزات کو نامکمل اور محض یادداشت پر مبنی قرار دیتے ہوئے‘ انہیں ایک طرف رکھنے (بڑے چوہدری صاحب کے الفاظ میں ''مٹی پائو‘‘) کی استدعا کے ساتھ نئی دستاویزات قبول کرنے کی درخواست کی۔ جناب چیف جسٹس نے اسے نیا کیس کھولنے کے مترادف قرار دیا‘ جبکہ حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ کے خیال میں انوکھا لاڈلا کھیلن کو چاند مانگ رہا تھا۔
پس نوشت: عمران خان نے گزشتہ دنوں کے پی کے میں اپنی حکومت کی کارکردگی پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا‘ شکر ہے‘ مئی 2013ء کے انتخابات میں وفاق میں ہماری حکومت نہ بنی‘ ورنہ یہاں بھی وہی کے پی کے والا حشر ہوتا۔ اپنی صوبائی حکومت کے حوالے سے ان کا تازہ ارشاد ہے کہ اس کا ایک سال دھرنوں اور ایک سال پاناما کیس میں نکل گیا۔ اس حقیقت بیانی پر خان کا شکریہ ادا کرنا تو بنتا ہے۔

 

1959ء میں ایوب خاں کی زرعی اصلاحات آئیں۔ 1972ء میں بھٹو نے یہ سلسلہ آگے بڑھایا‘ جس کی رو سے زمین کی حدِ ملکیت پانچ سو ایکڑ سے بھی کم کر کے ڈیڑھ سو ایکڑ کر دی گئی۔ ان اصلاحات کی زد میں آنے والے بڑے بڑے زمینداروں نے حد ملکیت سے زائد زمینیں اپنے ہاریوں اور دیگر ملازمین کے نام کر دیں (ظاہر ہے‘ قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے‘ یہ سارا اہتمام کاغذوں کی حد تک تھا) بعض نے تو یہ ملکیت ان بچوں کے نام بھی کر دی‘ جن کی اس جہان فانی میں ابھی آمد بھی نہیں ہوئی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved