تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     20-10-2017

اچھی حکمرانی اعلیٰ حکمران…

یہ ریکارڈ شاید ہی دنیا میں کسی حکمران کے حصے یا قسمت میں آیا ہو۔ 
زچگی کے درد میں مبتلا پاکستان کی بیٹی اور محمد عامر بھٹہ مزدور کی بیوی سمیرا ہسپتال پہنچی۔ قیامت کی اس گھڑی میں ہسپتال والوں نے اسے دھکے مارے اور کھلے آسمان تلے سڑک پر پھینک دیا‘ اور مالکِ ارض و سماء نے اس جوڑے کو صاحب اولاد کر دیا۔ کچھ دن پہلے خدمت کی ایکٹنگ کرنے والا ایک سیاسی فنکار اُچھل اُچھل کر اسی ہسپتال کے گُن گا رہا تھا۔ مسولینی کے لباس اور ہٹلر کے انداز کی نقالی سے ٹی وی ناظرین ایک بار پھر محظوظ ہوئے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں صوبیدار کی 100 فیصد حلال کی کمائی والے محل کی بغل میں نئے ہسپتال کا افتتاح ہوا تھا۔ اچھی حکمرانی اور فنکارانہ سپیڈ کے حامی لانگری بریگیڈ نے حقِ نمک ادا کیا۔ چنانچہ اس اچھی حکمرانی کے ماہر‘ اعلیٰ حکمران کی سیاسی اداکاری کے ایک ہفتے کے اندر اندر غیرت مند حکمرانوں نے آدم و حوّا کی بیٹی کی خدمت کا نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ پتا نہیںکیوں آج قلم لکھنے سے بیزار سا ہے۔ یہ طرز حکمرانی‘ جس میں غریب کے بچے دودھ کے لئے ترسیں اور حکمرانوں کے کتّے دودھ میں اشنان کریں‘ اور اس بے رحم نظام حکومت پر ایک اہلِ دل نے گُڈ گورننس کا نوحہ یوں کہا ہے:
جس دیس کے قاتل غنڈوں کو اشراف چھڑا کر لے جائیں
جس دیس کے کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں میں بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پہ پولیس کے ناکے ہوتے ہوں
جس دیس کے مندر، مسجد میں ہر روز دھماکے ہوتے ہوں
جس دیس میں جان کے رکھوالے خود جانیں لیں معصوموں کی 
جس دیس کے حاکم ظالم ہوں، سسکی نہ سنیں مجبوروں کی 
جس دیس کے عادل بہرے ہوں، آہیں نہ سنیں معصوموں کی
جس دیس کے گلی کوچوں میں ہر سو بدمعاشی پھیلی ہو
جس دیس میں بنتِ حوا کی چادر داغ سے میلی ہو
جس دیس کے ہر چوراہے پر دو چار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں ہر روز جہازوں سے امدادی تھیلے گرتے ہوں
جس دیس میں غربت مائوں سے بچے نیلام کراتی ہو
جس دیس کے عہدے داروں سے عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انسان وعدوں پہ ٹالے جاتے ہوں
اس دیس میں رہنے والوں پہ آواز اُٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر ایک ڈاکو کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے
اچھی حکمرانی کیا ہے؟ میں نہیں جانتا۔ اچھا حکمران کون ہوتا ہے؟ یہ بھی مجھے معلوم نہیں‘ لیکن انسانیت کے حوالے سے دنیا کی آخری سچائی میں فرمایا گیا: (مفہوم) جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اُس نے پوری انسانیت کو بچا لیا۔ اچھی حکمرانی والے صادق اور امین‘ انسانیت سے مراد اپنے اہل خانہ لیتے ہیں۔ ادھر کسی کو زکام ہوا اُدھر لاہور بند۔ درجنوں گاڑیوں کا پروٹوکول، سینکڑوں لشکری، درباری دوڑ پڑتے ہیں۔ سمیرا اور محمد عامر کی جیب کاٹ کر جہاز اُڑاتے ہیں‘ اور انسانیت کو فوراً لندن کے مہنگے ترین ہسپتالوں میں پہنچا دیا جاتا ہے‘ لیکن صحت کی عالمی سہولیات فراہم کرنے کا دعویٰ پنجاب میں۔ 
چند سال پہلے سالانہ چھٹیوں کے دوران میں چھوٹے صاحبزادے عبدالرحمٰن کے ساتھ سنٹرل لندن میں تھا۔ رات کے وقت مجھے پسینہ آیا۔ عبدالرحمٰن نے ہوٹل کے نمبرپر فون کر دیا۔ چند منٹوں میں پیڈنگٹن میں واقع کوئین میری ہسپتال کی ایمبولینس آ گئی‘ جس میں ڈرائیور کے علاوہ ایمرجنسی سنبھالنے کے دو ماہر پیرامیڈکس موجود تھے۔ ایک نے مجھے کاغذ کا کڑا پہنایا۔ میرا نام، عمر، ایمرجنسی کا نمبر اور کال کی وجوہات کڑے پر لکھیں۔ پھر اپنی ایمرجنسی ہینڈ بک پر کیس ہسٹری کے سوالوں کے جواب تحریر کئے‘ جبکہ ایمرجنسی کا دوسرا اہلکار کوئین میری ہسپتال کے ریسپانس یونٹ کو کیس ہسٹری اپنے ساتھی سے سن کر ساتھ ساتھ لکھواتا رہا۔ میرے اصرار کے باوجود انہوں نے مجھے پیدل لفٹ تک جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ ویل چیئر لائی گئی۔ اس ویل چیئر کو ایمبولینس میں سیدھا کیا تو وہ سٹریچر میں تبدیل ہو گئی۔ عبدالرحمٰن نے میرے ایک دوست وسیم نقوی کو ٹیلی فون کر دیا۔ ہسپتال میں کچھ ہم وطنوں نے بھی مجھے پہچان لیا اور حال پوچھنے آ گئے۔ صبح چار بجکر تیس منٹ تک ہسپتال کی ایمرجنسی نے میرا دو دفعہ بلڈ ٹیسٹ کیا اور ساتھ مختلف ممکنہ بیماریوں کی تشخیص کرنے کی کوشش کی۔ میں نے پسینے کی اتنی لمبی تفتیش سے تنگ آ کر کئی بار ہسپتال سے فرار ہونے کی بھرپور کوشش کی‘ جسے ہسپتال کے عملے نے بڑی نرمی سے ناکام بنا دیا۔ تقریباً 6 گھنٹے بعد ایمرجنسی کے رجسٹرار ڈاکٹر صاحب تشریف لائے۔ تقریباً 15 منٹ ساری ہسٹری دوبارہ لی۔ پھر ہر رپورٹ کے بارے میں بتایا۔ ساتھ کہا "Gentleman you are very lucky, all is clear" اس دوران مجھے جو بھی ہم وطن ملا اس نے پوچھا: آپ کے پاس ہیلتھ کارڈ یا ہیلتھ انشورنس ہے۔ ظاہر ہے میں اقامہ ہولڈر نہ تھا۔ اس لئے میرا جواب تھا: جی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرکے کائونٹر پر پہنچے تاکہ ہسپتال کا بل ادا کر سکیں۔ نرس آن ڈیوٹی نے مسکرا کر کہا ''شکریہ‘ آپ جا سکتے ہیں، ایمرجنسی مریض سے کچھ چارج نہیں کیا جاتا‘‘۔ یہاں یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں کہ اسی کوئین میری ہسپتال میں پہلی بار ویکسین کی ایجاد ہوئی تھی‘ اور یہ بھی کہ یہ ہسپتال لاہوری بادشاہوں کے مشہور زمانہ محلات سے 8 منٹ کی واک، اور 5 منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے۔ ایک اور حیران کن منظر سامنے آیا۔ نصف شب کے بعد اس ہسپتال میں زیادہ شراب پی کر سڑکوں پر گرے ہوئے لوگ لائے جاتے رہے۔ جونہی ایمرجنسی کال آتی ریاست اپنے شرابیوں کو نالے میں گر کے مرنے سے بچانے کے لئے ایمبولینس دوڑا دیتی۔
حکمران اپنی تشہیر اور نمائش پر تو کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں ‘لیکن عوام کے لئے ان کے پاس کچھ نہیں۔ قوم کی ایک بیٹی کو زچگی کے درد میں دھکے تو ملے لیکن باکمال جمہوریت کی لاجواب ایمبولینس سروس نہ مل سکی۔ ایک مرتبہ پھر شاہی فرمان کے ذریعے نوٹس لے لیا گیا ہے۔ نچلے درجے کے کچھ ملازم اور اہلکار قربانی کے بکرے بنائے جائیں گے‘ لیکن حیا والی شرمیلی قیادت استعفیٰ دینے پر تیار نہ ہوگی۔ بات ہو رہی تھی کوئین میری ہسپتال لندن کی۔ پاکستانی حکمرانوں کی تشہیری مہم کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو یہ ہسپتال یتیم ‘مسکین قسم کا شفاخانہ ہے۔انگلینڈ میں ایسی ذاتی تشہیر ممکن نہیں۔ اس کے باوجود انگلینڈ کی نااہل حکومت اگر غلطی سے بھی ذاتی تشہیر کرے تو یقینا وزیراعظم کو اپنا فلیٹ بیچ کر پیسے انگریزی خزانے میں جمع کرانے پڑ جائیں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسے امریکہ کے وزیر صحت کو چارٹرڈ طیارے میں سرکاری کام کے لئے سفر کرنے کے جرم میں اپنی وزارت سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ اصلی جمہوریت تو یہ ہے جہاں وزیر صاحب نقدی پکڑتے ہوئے کیمرے کی ویڈیو میں پکڑے جائیں تو تب بھی صادق اور امین بادشاہ کی نظر میں صدق و امن کا ''آئی کون‘‘ سمجھے جائیں۔
دنیا تیز ہے اس لئے تیزی سے خبر بدل جاتی ہے اور ساتھ ہی میڈیا کا فوکس بھی۔ لیکن سماج کی چھاتی پر نظام کے کچھ خنجر ایسے ہوتے ہیں‘ جن کے وار سے لہو ہمیشہ رِستا رہتا ہے۔ جیسے جلیاں والا باغ کا قتل عام۔ جیسے ماڈل ٹائون لاہور میں سرکاری دہشتگردی۔ جیسے پاکستان کی بیٹی کی بے وارثی‘ یا پھر جیسے یہ شریفانہ شعر...
ہے عجب چیز یہ ''شرافت‘‘ بھی 
اس میں ''شر‘‘ بھی ہے اور ''آفت‘‘ بھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved