تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     20-10-2017

میٹرو کرایہ‘پہاڑ ٹوٹ پڑا!

دہلی کی میٹرو ریل کا کرایہ اب لگ بھگ دوگنا ہوگیا ہے۔ اگر کسی کو میٹرو کے ایک کونے (ٹرمینل) سے دوسرے کونے تک جانا ہوتو اس کا کرایہ کم ازکم 120 روپے بنتا ہے۔ اور اگر ریپد میٹرو بھی لینا ہو تو اس میں چالیس روپے اور جوڑ لیجئے۔ اگرآپ کو ریپڈ میٹرو اور میٹرو سے تیس سے 35 کلومیٹر بھی جانا ہو‘ یعنی گروگرام کے سیکٹر 55 سے نئی دہلی تک جانا ہو تو لگ بھگ 80 روپیہ ایک طرف کا خرچ کرنا ہوگا۔ ڈیڑھ سو روپیہ روز دونوں طرف کے۔ یعنی پانچ سے چھ ہزار روپے ہر مہینے خرچ کرنے ہوں گے۔ جس مزدور یا ملازم کی تنخواہ دس یا پندرہ ہزار روپیہ ہے ‘ذرا سوچئے ‘اس پر یہ کتنا بڑا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ میں خود اب میٹرو سے آنا جانا چھوڑ کر بسوں میں سفر کرنا چاہتا ہوں کہ پچاس روپیہ روز سے زیادہ خرچ نہ ہو۔ میٹرو کے اس ظلم کے خلاف کجری وال سرکار نے جھنڈا گاڑ دیا ہے۔ اگر میٹرو انتظامیہ نہیں جھکی تو مان لیجئے کہ دہلی میں ایم پی کی سبھی نشستیں 'عاپ ‘کی جیب میں چلی جائیں گی۔ لیکن میٹرو انتظامیہ کی اس ٹینشن کا حل کیا ہے کہ کروڑوں روپے کا نقصان وہ آخر کیسے پورا کرے؟ اس کا آسان طریقہ تو یہی ہے کہ میٹرو کرایہ پہلے جتنا تھا ‘اس سے بھی کم کردیا جائے اور ریل کے ڈبوں کے تعداد بڑھا دی جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بسوں ‘سکوٹروں پر اور پیدل جانے والے لوگ بھی میٹرو پر سفر کرنے لگیں گے۔ مسافروں کی تعداد دوگنی ہو جائے گی۔ نقصان اپنے آپ کم ہوجائے گا۔ بڑھے ہوئے کرایوں کے سبب میٹرو صرف درمیانے اور اعلیٰ طبقے کی چیز بن کر رہ جائے گی۔ شاید مسافر بھی اتنے کم ہو جائیںگے کہ اس کا نقصان کم ہونے کے بجائے بڑھ جائے گا۔ سرکار کو چاہیے کہ بسوں کی تعداد دہلی میں چوگنی کر دے اور میٹرو کے چکر کم کر دے۔ اگر کاروں کی تعداد اور آلودگی کم کرنی ہے تو میٹرو کرایہ نصف سے کم کردینا چاہیے۔ میٹرو کرایہ بڑھانے کا مطلب ہے ‘آلودگی بڑھانا کیونکہ اب لوگ بسوں اور رکشاکا استعمال زیادہ کریںگے۔ میٹرو کرایہ بڑھانا خواتین کے لئے بھی اچھا نہیں۔ میٹرو میں ملا ہوا تحفظ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ کسان ‘مزدور ‘ملازمین کے ساتھ ساتھ سٹودنٹس بھی کرائے اس کے پہاڑ کو اپنے سر پر جھیل نہیں پائیں گے ۔
بھارتی وزیر دفاع کی عجیب قابلیت 
نرملا سیتا رمن ہیں تو وزیر دفاع لیکن انہوں نے کام کر دکھایا ہے ‘وزیر خارجہ اور وزیراعظم کا! انہیں جب وزیردفاع کا عہدہ دیا گیا تو کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ بہت زیادہ ہے لیکن کرسی سنبھالتے ہی ان کا بھارت چین سرحد پر پہنچ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری لگن سے نبھانا چاہتی ہے ۔نرملا جی سکم میں گنگ ٹوک گئیں اور وہاں سے 54 کلومیٹر دور دوکلام علاقہ کے پاس تک پہنچیں۔ اس علاقے کو لے کر بھارت اور چین کے بیچ لگ بھگ 70دن تک فوجی مڈبھیڑ کی کیفیت بنی رہی اور ایک دوسرے پر سفارتی تیر برسائے جاتے رہے۔ اگر چین میں ہوئی برکس کی بیٹھک میں نریندر مودی کا نہ جانا ہوتا‘تو بعید نہ تھا کہ دوکلام میں دونوں افواج میں لڑائی ہو جاتی۔ بھارت سرکار جھکی۔ وہ اپنے اعلان سے پیچھے ہٹی۔ اس نے دوکلام سے اپنی فوجیں چین سے پہلی ہٹائیں تو چین نے بھی ہٹالیں۔ لیکن اب پھر دوکلام پر چینی حرکتیں بڑھ گئی ہیں۔ انہوں نے بھارت کو نصیحتیں بھی شروع کردی ہیں۔ یہ معاملہ پھر بھڑکے گا یا نہیں ‘ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن نرملا جی کا وہاں جانا اور چینی فوجیوں سے سیدھا دعا سلام کرنا غضب کی سیاست ثابت ہوئی ہے۔ وزیردفاع نے سرحد پر کھڑے چینی فوجیوں کو نمستے کہا اور چین کے عوام کے لیے دعائیں کیں۔وہ انگریزی میں بولیں ‘جسے ایک چینی ترجمان نے چینی سپاہی کو چینی زبان میں سمجھایا۔ وہ خوش ہوگیا ۔اسے نمستے کا مطلب بھی سمجھایا۔ نرملا جی اگر تھوڑی بھی سنسکرت جانتی ہوتیں اور نمستے کا ٹھیک مطلب اسے بتلا دیتیں تو آج پورا چین ان کو سلام کرتا۔ مجھے تعجب ہے کہ وہ اپنے ساتھ چینی زبان جاننے والا آدمی کیوں نہیں لے گئیں۔ یوں بھی چینی عالموں ‘ماہروں اور اخباروں نے ہماری وزیر دفاع کے اس اقدام پر زبردست ردعمل دیا ہے۔ میں چین کئی بار گیا ہوں اور لگ بھگ سارا چین میں نے دیکھ ڈالا ہے۔ چینی عوام بھارت کو اپنے 'گروئوں (اساتذہ)کا ملک ‘سمجھتے ہیں‘ اور بھارت کو 'مغربی جنت ‘کہتے ہیں۔ لیڈروں کی بات جان لیں ‘چینی عوام کے خیال کو ہماری وزیردفاع نے چھو لیا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ سیاست تو طاقت کا کھیل ہے لیکن اس طرح کے اچانک واقعات بھی کبھی کبھی کرشماتی ثابت ہوتے ہیں ۔
بھاجپا لوٹے لوہیا کی طرف 
12 اکتوبر کو ڈاکٹر منوہر لوہیا کو گئے پورے پچاس برس پورے ہوگئے‘ لیکن ٹی وی چینلوں اور اخباروں میں ان کی کوئی چرچا نہیں ہوئی۔ ملک میں کوئی بڑا پروگرام نہیں ہوا ۔آج ملک میں لوہیا کی سخت کرانتی کا کوئی نام لیوا‘پانی دیوا نہیں ہے۔ کون سا لیڈر یا سیاسی پارٹی ‘ایسی ہے ‘ذات توڑو ‘انگریزی ہٹائو‘ دنیا کی سرکار ‘دام باندھو ‘خرچ پر روک ‘وغیرہ جیسے مدعوں کو اٹھا رہی ہے۔ ڈاکٹر لوہیا بھارت کے سب سے مضبوط مفکر لیڈر تھے ۔ وہ صرف 57 برس جیئے‘ لیکن اتنے کم وقت میں انہوں نے ملک کی سیاست کو جتنا متاثر کیا‘ کسی اور لیڈر نے نہیں کیا۔ ڈاکٹر لوہیا ہی غیر کانگریس پرست کے جنم داتا تھے ۔وہ نظریہ سے کانگریس اور جن سنگھ یا مارکس واد اورراشٹر واد کے بیچ کھڑے تھے۔ ان کے خیالات کو کسی نہ کسی شکل میں ان سبھی پارٹیوں کے لیڈر مانتے تھے۔ وہ اگر 1967 ء میں وفات نہیں پاتے اور1977ء تک بھی زندہ رہتے تو انہیں وزیراعظم بننے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ آج بھارت کی شکل ہی دوسری ہوتی ۔
میری خوش قسمتی ہے کہ ڈاکٹر لوہیا سے میرا گہرا تعلق رہا۔ میرے دعوت نامے پر تقریباًپچپن برس پہلے وہ اندور کے کرسچئن کالج میں آئے تھے۔ انہوں نے مجھے انگریزی ہٹائو تحریک کی نصیحت کی تھی۔ دہلی کے انڈین سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں‘ میں نے جب اپنا عالمی سیاست کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی کام ہندی میں لکھنے کا ستیا گرہ کیا تو ڈاکٹر لوہیا اور ان کے ساتھی راج نارائن‘مدھو لمے‘کشن پٹنایک ‘رہی رائے وغیرہ نے پارلیمنٹ میں ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ ان کا ساتھ اٹل بہاری واجپائی ‘چندر شیکھر ‘بھاگوت جھا آزاد ‘ہرین مکھرجی ‘ہیم بروا‘دین دیال اپادھیائے ‘بلراج مدھوک وغیرہ نے بھی جم کردیا۔ میرے اس مدعہ پر جن سنگھ ‘کانگریس ‘سنسوپا ‘پرسوپا اور کمیونسٹ پارٹیاں بھی ایک ہو گئی تھیں۔ وزیراعظم اندرا گاندھی اور ڈاکٹر لوہیا جی کے بیچ ان دنوں کافی تنا تنی چلتی تھی‘ لیکن اندرا جی نے اس کے باوجود میری حمایت کی۔ سبھی بھارتی زبانوں کے دروازے اعلیٰ تحقیق کے لیے کھل گئے۔ جن سنگھ اور سنیکت سماج وادی پارٹی کے بیچ صلاح مشورے کے دروازے بھی کھلے۔ دین دیال جی اور اٹل جی سے کئی مدعوں پر بات کرنے کے لیے ڈاکٹر لوہیا مجھے کہتے تھے۔ دین دیال جی کی وفات 1968 میں ہوئی۔ میرے سجھائو پر اٹل جی نے دین دیا ل ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کیا۔ مجھے اس کا پہلا ڈائریکٹر بننے کے لیے اٹل جی نے کہا لیکن مجھے اپنے کام کے لیے جلد ہی بیرونی ملک جانا تھا۔ میرے مشورے پر ہی اس انسٹیٹیوٹ نے 'گاندھی‘ لوہیا ‘دین دیال ‘کتاب چھاپی تھی۔ اس بات کا ذکر میں نے یہاں کیوں کیا؟ اسی لیے کہ تب بھی اور آج بھی میں یہ مانتا ہوں کہ سنگھ ‘جن سنگھ اور بھاجپا کے پاس سوچ کا ٹوٹا رہا ہے۔ اٹل جی جب بھاجپا کے صدر بنے تو ممبئی میں انہوں نے گاندھی واد سماج واد کا نعرہ دیا تھا۔ آج اگر بھاجپا لوہیا کی طرف لوٹے تو آج بھی کرشمہ ہو سکتا ہے ۔ اس کے پاس محنتی کارکنان کی فوج ہے لیکن اس کے لیڈر وں کے منشور صفر ہیں۔ بنا منشور کے سیاست تو کانگریسی سیاست ہی ہے ۔ صرف 'ستا اور پتا ‘اقتدار اور نوٹ کی پالیسی۔

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved