تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     20-10-2017

بڑا کمانڈو بنا پھرتا ہے؟

'' ہم امریکہ کے شانہ بشانہ دہشت گردوں کے پاکستان کے اندر محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کریں گے اور حقانی گروپ یا جیش محمد اور حزب المجاہدین سمیت ایسی تمام تنظیمیں‘ جن کی امریکہ نشاندہی کرے گا‘ فوجی آپریشن کیلئے تیار ہیں اور ان میں سے کسی کے ساتھ بھی ترجیحی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ اور اگر امریکہ ہمیں پاکستان کے کسی بھی حصے میں ان کے ٹھکانوں کی نشاندہی کرے گا تو ہم اس کے ساتھ مشترکہ آپریشن کرنے کیلئے بھی ہمہ وقت تیار ہیں‘‘ یہ الفاظ جنرل مشرف کے نہیں بلکہ میاں محمد نواز شریف کے دست راست خواجہ محمد آصف‘ وزیر خارجہ پاکستان کے ہیں۔ اس بیان کو پاکستان سمیت دنیا بھر کے ٹی وی چینلز اور ذرائع ابلاغ نے بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ دورۂ امریکہ کے دوران یہ بیان دیتے وقت نہ تو ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگان کا نائن الیون ہوا تھا اور نہ ہی دنیا کے کسی کونے میں لندن جیسا سیون سیون ہوا تھا۔۔۔خواجہ آصف پاکستان کو امریکی خواہشات کے سامنے ڈھیر کر تے وقت شاید بھول گئے تھے کہ مسلم لیگ (نواز) کی چھوٹی بڑی تمام قیادت گزشتہ سولہ برسوں سے کس طرح تضحیک آمیز لہجے میں جنرل مشرف کو یہ کہتے ہوئے نشانہ بناتے چلے آ رہی ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کی ایک فون کال کے آگے کپکپاتے ہوئے خود کو کمانڈو جنرل کہنے والا امریکہ کے سامنے لیٹ گیا؟ آج تک پی پی پی کے آصف زرداری، خورشید شاہ، اعتزاز احسن اور رضا ربانی سمیت ہر ایک کی زبان پر یہی الفاظ ہوتے تھے کہ کمانڈو جنرل امریکہ کی ایک فون کال پر ڈھیر ہو گیا۔ جب یہ 
دوست جماعتیں جنرل مشرف کو ایک فون کال کے طعنے دیا کرتی ہیں تو ان میں سے کسی نے بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ہم میں سے ایک نے امریکی فون کال کے بغیر ہی رمزی یوسف تو دوسرے نے ایمل کانسی کو پکڑ کو امریکہ کے حوالے کر دیا تھا۔وہ جو ڈاکٹر عافیہ کے طعنے دیتے ہیں انہوں نے کبھی بھی ان دونوں سے یہ پوچھنے کی ہمت ہی نہیں کی کہ آپ نے رمزی یوسف اور ایمل کانسی کو کتنے ڈالر وصول کرکے امریکی سی آئی اے کے حوالے کیا تھا؟ مشرف کے نام کے ساتھ چونکہ جنرل کا لفط آتا ہے اس لئے اس لفظ کی تضحیک ان کے لئے سب سے مقدم ہے لیکن خود کو بیس کروڑ عوام کا نمائندہ کہنے والوں نے کبھی سوچا کہ اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور اسے ہلاک کرنے کیلئے 1998ء میں جلال آباد کے نزدیک امریکہ کی نشاندہی پر اسامہ کے متوقع ٹھکانوں پر نواز حکومت نے کس کے کہنے پر‘ کتنے راکٹ برسائے تھے؟ باقی رہ گئے خالصتان کیلئے جدوجہد کرنے والے جرنیل سنگھ بھنڈرا والا کے سکھ حریت پسند اور ان کی فہرستیں تو اس کا کیا ذکر کریں‘ یہ تو وہ کہانی ہے جو مشرقی پنجاب کے ہر سکھ گھرانے کی کہانی ہے۔ ''لبرل دانشوروں کے گروہ‘‘ جو کمانڈو جنرل کی بزدلی کے نام پر تضحیک کو اپنے ذہن پر سوار کئے ہوئے ہیں، نے بھی ان جماعتوں سے انتخابی اتحاد بناتے اور سیاسی تعلق جوڑتے ہوئے یہ نہیں پوچھا کہ رمزی یوسف اور ایمل کانسی کو کتنے میں بیچا گیا تھا؟ کون سی وہ آنکھ ہے جس نے یہ نہیں پڑھا کہ بزدل جرنیل نے امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے، کون سا وہ کان ہے جس نے یہ دھاڑ نہیں سنی کہ ''کولن پاول کے ایک ہی فون کال نے کمانڈو جنرل کو بھیگی بلی بنا دیا تھا اور اس
نے کسی سے بھی پوچھے بغیر‘ اسی فون کال پر امریکہ کیلئے پاکستان کے تمام ہوائی اڈے کھول دیئے تھے۔ اگر اس وقت کمانڈو جنرل کی بجائے سول حکومت ہوتی تو آج ملک کی یہ حالت نہ ہوتی؟‘‘ سب نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی تھی کہ اس فوجی جنرل نے امریکہ کی ایک ہی دھمکی کے سامنے قومی وقار کا سودا کر کے رکھ دیا۔ لیکن یہ کیوں نہیں بتاتے کہ رمزی یوسف اور ایمل کانسی کے نام پر امریکہ سے وصول کئے جانے والے بڑے بڑے بریف کیس انہوں نے کس ملک میں رکھے ہوئے ہیں؟
چلیں وہ تو جنرل مشرف کی فوجی حکومت تھی وہ تو ایک آمر اور ڈکٹیٹر تھا لیکن آپ تو خیر سے میثاق جمہوریت کی کوکھ سے جنم لئے ہوئے ہیں، آپ تو دودھ کے نہائے ہوئے ہیں، آپ ہی بتا دیں کہ اب آپ نے امریکی جنرلوں کو اور ان کی وزارت خارجہ کو کس سے پوچھ کر یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم آپ کے ساتھ مل کر حقانی گروپ اور جیش محمد سمیت تمام جہادی گروپوں کے خلاف آپریشن کریں گے؟ یہ وعدہ اور یقین دہانی کراتے وقت کیا آپ نے پارلیمنٹ سے پوچھا؟ کیا قومی اسمبلی یا سینیٹ کی کسی ڈیفنس کمیٹی میں یہ معاملہ زیر بحث لا یا گیا؟
میثاق جمہوریت کے نام پر لندن کی فضائوں میں ایک ہونے والی دونوں سیاسی جماعتیں اور ان کی مدد کو ہر دم تیار رہنے والے میڈیا کے طاقتور اور مضبوط حلقے برسوں سے یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ روس کی افغانستان کے خلاف جنگ میں جنرل ضیاء نے امریکہ کا ساتھ دے 
کر ملک کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ جس سے جہادی، ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر پاکستان میں آ گیا۔۔۔۔ ٹرمپ کی معمولی سی دھمکی سے تو آپ اس کے قدموں میں گر گئے ہیں اور جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئی تھیں تو اس وقت کے روس اور افغانستان کے صدر کا وہ بیان آپ نے نہیں سنا تھا کہ ''ہم ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے‘‘۔ تو کیا جنرل ضیاء الحق کی حکومت یہ سب سننے کے بعد اپنے کان بند کر لیتی؟ 1980ء میں جب روس افغانستان میں داخل ہوا تھا تو شام، روس اور بھارت کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک روس کے خلاف امریکہ کے ساتھ کھڑے ہو ئے تھے۔۔۔ تو بتائیں کہ پاکستان اس وقت اکیلا کیا کرتا جبکہ تمام عرب دنیا، یورپ اور مشرق بعید سمیت چین بھی امریکہ کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ کیا جنرل ضیاء الحق روسی فوجوں کو ڈیورنڈ لائن کراس کرتے ہوئے میانوالی اور اٹک کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھتے یا بھارتی فوجوں کو لائن آف کنٹرول کی جانب امڈتے ہوئے دیکھتے۔۔۔ یا روس، بھارت اور شام پر مشتمل اس گٹھ جوڑ کے مقابلے میں پوری دنیا کے ساتھ شامل ہو کر روس کے ڈیورنڈ لائن اور بھارت کے آزاد کشمیر کی جانب بڑھتے ہوئے ناپاک ارادوں کو ناکام بناتے؟ اسی افغان جہاد میں شمولیت کی وجہ سے ہم 1984ء میں ایٹم بنانے میں کامیاب ہوئے، جو آج پاکستان کا سب سے بڑا دفاعی ہتھیار ہے۔ جب نائن الیون ہوا تو امریکہ ایک زخمی شیر کی طرح دھاڑ رہا تھا اور مشرق وسطیٰ، مشرق بعید، پوری مغربی اور یورپی دنیا‘ اور پورا افریقہ وہائٹ ہائوس میں امریکی صدر سے اظہار تعزیت اور اپنی حمایت کا یقین دلانے کیلئے قطار بنائے کھڑا ہوا تھا۔۔۔ اور بھارتی وزیر اعظم واجپائی اپنے تمام زمینی اور ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کرنے کا اعلان کر رہے تھے، ایسے وقت میں جنرل مشرف کس طرح ان سب کو للکارتے ہوئے کہہ دیتے کہ ''ہم امریکہ کے ساتھ نہیں بلکہ القاعدہ کے ساتھ ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved